چٹھی مانے کے نام، چٹھی میرے خان کے نام


وہ سب اس کی چاہنے والیاں تھیں پر اب بہت مایوس تھیں۔ سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے اس کی ہجو لکھنے ایک گھر میں اکٹھی ہوئی تھیں۔ اظہار کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس پر بحث ہونے لگی۔ ایک نے رنجور لہجے میں کہا۔ ”ٹویٹر، فیس بک بہتر رہیں گے“ ۔ ”ارے نہیں برقی خط بھیجو“ ۔ ایک اور بولی۔ ”چٹھی لکھو لمبی چوڑی سی کچھ تو ہمارے احساسات کی ترجمانی ہو۔“

جوانی اور بڑھاپے کے سنگم پر کھڑی دلکش خاتون نے قلم ہاتھ میں پکڑا۔ تھوڑی دیر خلاؤں میں گھورتے ہوئے کا پی پر جھکی اور اونچے سے بولتے ہوئے لکھا

”میرے پیارے مانے“
” وٹ اے نائیسنس“ نیلی جینز پر سرخ ٹاپ اور ہم رنگ سکارف والی چلائی تھی۔

”دیکھو آزادی اظہاررائے سے محروم مت کرو مجھے۔ یہ ’مانے‘ تو بس یونہی ایک یاد کے طور پر دماغ کے کسی کونے کھدرے سے پھڑک کر باہر آ گیا ہے۔ لو ذرا اسے بھی سن لو۔“

ایک ماڈرن لڑکی کی شادی عمران نامی فوجی سے ہوئی۔ نئے جوڑے کا میس میں استقبالیہ تھا۔ دولہا نے دلہن کے شانوں پر ہلکورے کھاتے بالوں اور چہرے پر لپا پتا غازہ سرخی دیکھ کر کہا۔

ضیا کے زمانے میں افسروں کی تربیتی ٹرینگ میں Religious Motivation کا ایک پروگرام بھی شامل کیا گیا تھا۔ دینی کتب کے مطالعے نے مجھے مشرف بہ اسلام کر دیا ہے۔ پلیز سر پر دوپٹہ رکھنا اور اس سرخی غازے کو بھی ذرا ہلکا کر لو وگرنہ میرے کنوارے یاروں نے واپس میس جا کر میرا توا لگانا ہے۔ ”یار اس مانے نوں بڈھی (بیوی) تے بڑی ٹیٹ ملی ہے۔

”ہمارے مانے کے مقدر میں بھی بڈھیاں بڑی ٹیٹ ہیں۔“ چند لمحوں کے لیے وہ سب اداس ہو گئیں۔ پھر فاختائی سوٹ والی نے کہا ”ارے لعنت بھیج۔ گولی مار اس موضوع کو۔ لکھنا شروع کر۔ اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے ماسک کو ٹھیک کرتے ہوئے اس کے قریب آکھڑی ہوئی۔

دراصل ہم گلیمر پر مرنے والی عورتیں پرچی والے حادثے کوبھلا ہی نہیں پاتی تھیں۔ ہائے کتنی سبکی کی بات تھی۔ دل سے ہی نہیں اترتی تھی۔ یہ سری پائے کھانے والا ہمارا گولامولا سا گلو بادشاہ دنیا کے تھانیدار کے سامنے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دو لفظ نہیں بول سکتا تھا۔ ہے نا ڈوب مرنے کی بات۔ دیکھ لینا ہمارا خان سرپٹ بھاگتے گھوڑے کی طرح بولے گا اور سب کو پٹا کر رکھ دے گا۔ ہائے ہمیں کیا پتہ تھا کہ جلسے جلوسوں میں تقریریں کرتے کرتے اسے بولنے کا ایسا فوبیا ہو جائے گا کہ جو منہ میں آئے گا بولتا چلا جائے گا۔ نہ سوچے گا نہ سمجھے گا۔

گروپ کی سب سے زیادہ گوری چٹی نے بات اچکی۔ ”ارے میاں اب تم محلے کے کوئی غیر ذمے دار لونڈے لپاڑے تو ہو نہیں۔ جس کی یاوہ گوئی کا کوئی نوٹس نہ لے۔ جس جگہ اللہ سائیں نے تمہیں بٹھایا ہے اس کو تو دیکھو۔ اس کی نزاکت اور عظمت کا تو خیال کرو۔ اب وہ زمانہ تو نہیں ہے نا جب تم سٹیج پر چڑھ کر سیاست دانوں کے گڑھے مردے اکھاڑتے، احتساب کے نعرے لگاتے، باہر کے بینکوں سے ان کے اثاثے لانے کی دبنگ باتیں کرتے، تالیاں پٹواتے اور بیچارے لوگوں کو امیدوں کے سنہرے خواب دکھاتے تھے۔

اب دو سال ہونے کو ہیں کہاں گئے وہ بلند و بانگ دعوے۔ موئی مکھی نہیں آئی۔ چلو چھوڑو اس کو بھی۔ پر یہ جو تم اول فول بولتے رہتے ہو اس کا تو کوئی خیال کرو کہ تمہاری ہر بات کو پکڑا جاتا ہے۔ اس کے اندر چھپے معنی یا حماقتوں پر رائے زنی ہوتی ہے۔ اب اسامہ بن لادن کے ذکرخیر کی کوئی تک تھی کہ وہ شہید ہے یا دہشت گرد ہے۔ اس قصہ کو چھیڑنے کی ضرورت اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب ملک اور قوم اتنے گمبھیر مسائل میں گھری ہوئے ہوں۔

دنیا میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی آئی مگر یہاں پہلے ملنا بند پھر 70 روپے پھر 100 روپے۔ مہنگائی اور باربرداری کا چولی دامن کا ساتھ۔ تیل سستا تو چیزیں بھی سستی۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ آٹا مہنگا۔ چینی مہنگی۔ بس انسان سستا۔ کرونا کا عذاب جسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جا رہا۔ ہر سمت موت کا خوف اور دہشت بکھری ہوئی۔ اور تمہیں اسامہ بن لادن سوجھ رہا ہے۔ اس کی شہادت پر تم اپنا ٹھپہ لگا کر کسے خوش کرنا چاہتے تھے۔

یوں اگر تمہیں خارجہ امور پر بولنے کا اتنا ہی شوق ہے تو بیبا کام کی بات بولتے۔ وقت کے سامنے جو چیلنج کھڑا ہے۔ اس پر رائے دیتے کہ امریکہ اور پاکستان کیسے مل کر افغانستان میں امن قائم کر سکتے ہیں؟ سرمایہ کاری اور تجارت کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟ کہیں مودی کو سمجھانے بابت بات کرتے ہو۔ ہمسائیوں کے گھاگ اور شاطر سیاست دان تمہاری ایسی بچگانہ باتوں پر ٹھٹھے ہی لگاتے ہوں گے۔ یعنی مودی جیسے گھاگ سیاستدان کو سمجھانے چلے ہو۔

صوفی تبسم یاد آ رہا ہے۔ جس کی عیار بلی کو سمجھانے آئے چوہے کئی ہزار۔ پر بلی نے اک بات نہ مانی روئے زاروزار۔ ہمارے پیارے اتنی سی بات نہیں سمجھتے ہو کہ غریب کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ کمزور معیشت کا حامل ملک جس کا داخلی استحکام بھی کمزور۔ اس کے سربراہ کی بات کو کس نے توجہ دینی ہے۔ ہانگ گانگ کی واپسی کی کہانی پڑھ لینی تھی۔

اب سیاہ سوٹ والی نے بازو بین کے سے انداز میں لہرائے اور بولی لکھو اسے لکھو ارے او مورکھ کچھ اپنے چاہنے والوں کا بھی سوچتے ہو جو بیچارے بوکھلائے پھرتے ہیں۔ سنو تمہیں پیار کرنے والے تمہاری کمپین جی جان سے چلانے والے ایک نامی گرامی شخصیت معاف کرنا جہانگیر ترین نہیں ایک اور دل جلے نے کہا ہے۔ اللہ نے تمہیں اقتدار عزت لٹانے کو دیا ہے۔ اب ذرا ان کی بھی سن لو جو تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ساتھی رفیق کار کا تو وہ حال کہ بس نہیں چل رہا ہے کہ تمہیں کسی کھوہ کھائی میں دھکا دیں اور خود تمہاری کرسی پر وزیراعظم کا تاج پہن کر بیٹھ جائیں۔

سنہری بالوں والی اضطراری کیفیت میں جھٹکے سے اٹھی۔ پھر کرونا کے خوف کے باعث رک گئی اور چلائی۔ لکھو اسے لکھو۔ تمہاری انا کا غرور اور خود پر احمقانہ تکبر تمہیں سیاسی شعور اور بلوغت ہی نہیں دے رہا ہے۔ تمہاری اتحادی پارٹیوں میں بہتیرے تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔ پرویز الہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دیتے جس کی شہرت اچھے وزیراعلیٰ کی رہی ہے۔ اہم تنظیمی معاملات پران سے مشورے کرتے۔ پر مشورے کرنا تو بڑی بات تمہیں تو کسی سے ملنا بھی پسند نہیں۔ اور ہاں وزیروں شازیروں کا حال بھی کتنا پتلا ہے۔ بیانوں پہ زور اور کاموں میں چور والی بات ہے۔

ابھی جہازکے حادثے میں وزیرہوا بازی کی باتوں کو تم نے سنا؟ کہاں سنا ہوگا۔ پائلٹوں کے جعلی لائسنس اب بولو دنیا میں ہمارا تماشا بن رہا ہے یا نہیں۔ کوٹھے پر چڑھ کر اعلان کرنے کی ضرورت تھی۔ جہاز میں شہید ہونے والے پائلٹ کے والد کا تو تیسرے دن ہی دکھ بھرا بیان آ گیا تھا۔ جس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا خدا کے لیے میرے بیٹے کی لاش پر سیاست مت کرو۔ پھر وہ سب چپ ہو گئیں۔ آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔ پھر ایک نے روندھی آواز میں کہا۔ کاش تم نے کچھ ہوم ورک کیا ہوتا۔ کاش تم اچھے لوگوں کا انتخاب کرتے۔ پھر کاش کاش کی کتنی ہی دکھ بھری آوازیں تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments