سستا فمینزم: عورت کی مظلومیت کا ایک اور رخ


بیٹی پیدا ہونا شاید اس معاشرے میں اعزاز نا ہو، پر عورت ہونا اس معاشرے میں کسی اعزاز سے کم نہیں ہے وہ بھی آج کی عورت ہو، اور آج کی دنیا کے ساتھ چلنا جانتی ہو تب تو وہ کسی بلا سے کم نہیں ۔ آج کی دنیا ہے کیا ایک فمینسٹ عورت کی نظر سے می ٹو کا سستا استعمال، ہاے میری عزت میری چادر، میں پاکیزہ، میں حیادار وفادار، باکردار وغیرہ میں آج کی ڈیجیٹل دنیا ملا دیں تو بنتی ہے آج کی فمینسٹ میرا مطلب ہے عورت۔ ایک طرف تو حیاداری کے درس ختم نہیں ہوتے اور دوسری طرف اسی عورت کا مداری پن۔

مداری وہ ہوتا ہے جو بین بجا کر سانپ جیسے موذی جانور کو نچا لیتا ہے، تو مطلب مداری سانپ سے بھی زیادہ زہریلا ہوا نا۔ عورت بھی ایسی ہی مداری ہے بظاہر معصوم، بیچاری پر اتنی اعلیٰ اداکار کے دنیا نچا لیتی ہے، کبھی حسن، کبھی ادا، کبھی میں بیچاری، کبھی میں کمزور، مجھ پہ ظلم ہوا جیسے کارڈ کھیل کر۔ (جتنا مظلومیت کے رونے ڈالے جاتے ہیں کیا ظلم بھی اتنا ہی ہے، اگر ہے تو میرا خیال ہے جتنا عورت عورت کا جینا حرام کرتی اتنا کوئی نہیں کرتا)

سچ کہوں تو آج تک کوئی معصوم عورت نہیں دیکھی۔ اگر ہیں بھی تو انتہائی بے وقوف۔ کیونکہ پدرسری معاشرے کے زعم میں مرد کو بظاہر جتنا مضبوط، کڑیل دکھایا گیا ہے وہ ویسا ہے نہیں۔ ویسے بھی جسمانی مضبوطی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے عورت کی مینیوپلیٹڈ [ہیرا پھیری] کے سامنے۔ عورت بظاہر مرد کو ساتوں آسمان پہ بیٹھا دیتی ہے اور مرد اسی زعم میں خود کو عقل کل سمجھتا رہتا ہے جبکہ ہوتا وہی ہے جو عورت کروانا چاہتی ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو جیسے سیاست میں کنگ میکیر ہوتے ہیں جبکہ سامنے نظر آتے انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا وہ صرف مہرہ ہوتا ہے، ویسے ہی جس عورت کو یہ گر آتے جس سے دنیا کو  چلایا جا سکے تو اس عورت کی تشبیہ کسی بلا سے کم ہو بھی نہیں سکتی جو تخت و تاج تک الٹ دے یہ گھریلو سے مرد کیا چیز ہیں۔

آج کل کی ڈیجیٹل دنیا میں جہاں ہر پارسا اور نیک عورت کو بھی سیاست کا چسکہ لگ گیا ہے وہاں تھوڑا سا ٹرینڈ دماغ تباہی مچاتا ہے۔ مرد تو کیا ہر عورت تک کی خواہش ہے کہ وہ سب میں منفرد لگے جس کے لیے وہ ہر مشہور ایپ استعمال کرنے کوشش ضرور کرتی ہے۔ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ پر پتہ نہیں ساتھ ہی مشرقی لچ تلنا کیوں ضروری ہو جاتا ہے ذرا کوئی بات خلاف توقع ہوئی اور محترمہ چھوئی موئی بن جاتی ہیں وہ بھی خوامخواہ کی، مثلاً کوئی ان کی بات نا مانے، یا ان کی بات سیے اختلاف کرے، اور یہ سب صرف گھریلو سطح پہ نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی و سیاسی سطح پر بھی عام ہے۔

یہی عورت manipulation کرتے تو نہیں ڈرتی کیونکہ وہاں اس کا نام تک نہیں آتا اور کام بن جاتا ہے۔ مرد و عورت انسانیت کے دو رخ ہیں پر ہم نے اسے تقسیم کر کے دنیا میں بس بزنس بنائے ہیں، مرد کرے تو ظلم بربریت، اور عورت مظلوم۔ جب عورت یہی سب کرے تو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق اور ساتھ ہی خود مظلوم بھی (عورت عورت کے خلاف ہو تب؟) ۔ مرد ظالم ہوتے ہیں، پر کیا سب اگر ہاں تو کیوں کون بناتا ہے؟ پر کیا مرد مظلوم بھی ہوتے؟

نہیں بالکل نہیں ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر عورت بیک وقت ظالم اور مظلوم دونوں ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ مرد ( شوہر، بھائی، بیٹا) کو اور اب تو اپنے ارد گرد کے مردوں کو بھی اپنا اسیر رکھنا چاہتی ہے ہر رشتے کی اپنی مناسبت سے کبھی ماں کے روپ میں ادب آداب کے چکروں میں، بہن کے روپ میں خونی رشتے، عزت کے نشے سے اور بیوی کے روپ کے انداز تو ہوتے ہی نرالے۔ تو اب جب عورت سوشل ہو اوپر بیان کی گئی خصوصیات کے ساتھ تب تو وہ معاشرے کوبھی نچاتی ہے وہ بھی عورت کاڑد اور عزت عزت کے مصالحے کے ساتھ۔

کبھی چوری کر کے ابھی حال ہی میں ایک تحریر پڑھی جس میں ایک فارن آفس کی محترمہ نے ایک کتاب کا مسودہ ہی چوری کر کے اپنے نام سے چھپوا ڈالا۔ کہا نا آج کی عورت ہے ڈیجیٹل دنیا اور گلوبل لائیزیشن کے تمام اصول جانتی ہے یہ شطرنج کی وہ کوئین ہے جو اپنے علاوہ سب کو مات دے دیتی ہے بادشاہ کو بھی۔ ۔ ۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو حیران کن ہیں جیسا کے سندھ کی بائیس سالہ خوش شکل، پڑھی لکھی ایک دوشیزہ ام رباب ہیں، اپنے خاندان میں ہونے والے تہرے قتل پر سوشل میڈیا اور پھر الیکٹرانک میڈیا پر نمودار ہوتی ہے۔

کبھی آنکھ میں آنسو، کبھی ننگے پاؤں عدالت تو کبھی چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے ٹکراتی ہے تو کہیں لالٹین اٹھاتی پریس کانفرنس کرتی ہے۔ کہیں اس کو سندھ کی بیٹی بنانے کی کوشش کی جاتی تو کہیں سرداری نظام کے خاتمے کے خلاف بات کرتی نظر آتی ہیں اور کبھی حقوق کی بات کرتی ہیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں قانون کی بالادستی سے کہیں زیادہ میڈیا ٹرائل کو اہمیت حاصل ہے تو ایسے میں وہ خواتین جو میڈیا اور سوشل میڈیا کو بخوبی استعمال کرنا جانتی ہیں مینیوپلیشن [ہیرا پھیری] کے لیے وہ خوب فائدہ اٹھاتی ہیں یہ کہانی جو ام رباب چانڈیو کی ہے جو چانڈیوقبیلے سے ہی تعلق رکھتی ہیں اور اپنے لیے انصاف کی خواہاں ہیں، اور سندھ کے علاقے میہڑ کی کا کیس یا کیمپین بھی اس کی سوچی سمجھی ایک مثال ہے۔ جس میں عورت کارڈ بخوبی استعمال ہو رہا ہے پس پردہ حقائق کو مخفی رکھ کر۔ کیونکہ رباب اپنے ایک خاندان قتل کے کیس کو سیاسی انداز میں اپنے حق میں کیش کروا رہی ہیں وہ بھی صرف اس وجہ سے کے وہ ایک عورت ہے اور عورت جو ایک اچھی اداکار نہیں میرا مطلب ہے مداری۔ ۔ ۔ نہیں حقیقت میں معصوم ہے

چونکہ عورت مظلومیت کا مرکز بنی ہوئی ہے تو ایسے میں ذاتی مفاد کو بھی مظلومیت کی چادر اڑھا کر مظلوم بنا لیا ہے۔ ایک طرف عورت کا تقدس اور حقوق فمینزم کے اہم سلوگن ہیں اور اس کو قانونی درجہ دینے تک کی تگ و دو ہو رہی ہے تاہم حیران کن بات یہ ہے کے وہ لوگ جو بڑھ چڑھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں وہ عام وقتوں میں کہاں ہوتے ہیں جب ایک عام عورت سچ میں ظلم سہ رہی ہوتی ہے۔ یا یہ سب کتابی، میڈیا اور سوشل میڈیا تک کی باتیں ہیں جب کے حقوق صرف ان کے ہیں جن کے ہاتھ میں قانون ہے، یا اہل اقربا، یا مظلوم یا بیچاری با اثر عورت کے۔

کیونکہ عام حالات میں ایک عورت تھانے کچہری جانے سے ہی ہچکچاتی ہے، اگر کبھی ہمت کر کے چلی جائے انصاف ملے نا ملے، عزت کی حقدار نہیں رہتی معاشرے میں، مگر یہی کام ایک با اثر لڑکی کرے تو اسے نا تو ایسی کسی بے عزتی کا سامنا ہوتا ہے بلکہ میڈیا اور عوام کی ہمدردی بھی حاصل ہوتی ہے۔ انٹیریر علاقوں میں تو یہ سب سوچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور کئی مظلوم خواتین انصاف سے محروم رہ جاتی ہیں۔ جہاں ایک طرف سندھ میں عورت کے ساتھ نا انصافی عروج پہ ہے وہیں رباب بے حد اعلیٰ انداز میں عورت کارڈ کھیل رہی ہیں جس سے بظاہر دیکھایا تو یہی جا رہا ہے کے وہ نا صرف قانون میں تبدیلیاں چاہتی ہے بالکہ عوام، میڈیا کی ہمدردی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہے جو کے انتہائی بھونڈا انداز ہے۔

چونکہ وہ عورت ہے تو کوئی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ رباب جس انصاف کے لئے جدوجہد کا دعوی کرتی ہے وہ ہے کیا، کیونکہ مظلومیت کے ساتھ ایک عورت ہونا خاصی اہمیت کا حامل ہے ان کے لئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ کوئی عام لڑکی نہیں اور کوئی عام لڑکی ایسا کر بھی نہیں سکتی، سستا فمینزم کھیلنا عام عورت میرا مطلب بے وقوف عورت کے بس کی بات نہیں ہے۔ جس قانون کو للکارنے اور بدلنے کی مہم رباب کی ہے وہی قانون سالوں سے ان کے گھر کی باندی ہے۔

اعلٰی سٹیٹس اور قانون کی ہیرا پھیری اور پھر فمینزم سے جھوٹی ہمدردیاں لینا کوئی عام بات ہے، لوگوں کو ہمدردی کے ووٹ دینے کی بیماری ہے اور ساتھ عورت ہو توں فمینزم کا تڑکا بھی ورنہ یوں سرعام عدالتوں میں عزتیں تو نیلام ہوتی ہیں کوئی سر پر نہیں اٹھاتا، اور جس سندھ کی بے شمار عورتیں اسی قانون سے انصاف نہیں لے سکتی وہی قانون رباب ہاتوں میں لیے پھرتی ہے کیا یہ سستی فمینزم نہیں ہے جو میڈیا، سوشل میڈیا اور قانون اپنے ہاتوں میں لیے پھرتی ہے اور شور بھی مچاتی ہے کہ انصاف نہیں ملتا۔

ایسی مزید مثالیں لکھنے کے لیے مزید وقت درکار ہو گا، جہاں عورت ہونے کے نشہ میں چور عورتیں باقیوں کا انصاف بھی کھا جاتی ہیں اس فمینیزم کے سلوگن کے ساتھ۔ ایسی عورت کنفیوز ہرگز نہیں بلکہ شطرنج کی وہ بلا ہے جس کے آگے بادشاہ بھی پیادے جیسا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments