پرش اور مہا پرش: عرف چینی کے مزے


یہ تاریخ اسلام کا سچا واقعہ ہے۔ صرف تاریخ کا نہیں بلکہ دور حاضر کا سچ بھی یہی ہے۔ ایک عورت اپنے گھریلو، مقامی، صوبائی، قومی اور بین الاقوامی حالات سے پریشان گھر کے دروازے میں بیٹھی تھی۔ اس گلی سے ایک روشن ضمیر خاتون کا گزر ہوا۔ اس نے دکھی عورت کا چہرہ پڑھا اور وہیں رک گئی۔ بچہ تیرے سارے دکھ ہمارے علم میں ہیں۔ بس آج سے تیرے مسائل ختم۔ یہ سننا تھا کہ بیچاری دکھیا پھٹ پڑی۔ مجھے تو یہ بھی ہوش نہیں رہا کہ میں اپنے خاوند سے زیادہ تنگ ہوں یا اپنے بچوں سے۔

پیارے بڑوں، یہ کہانی زمانہ قبل از کرونا کی ہے۔ لہذا جب روشن ضمیر خاتون نے پوچھا کہ وہ سب کہاں ہیں تو اس نے جواب دیا کہ میاں دفتر اور بچے سکول میں۔ ابتدائی تسلی تشفی کے بعد بزرگ خاتون نے دم کرنا شروع کیا۔ دکھی بی بی کے دل سے جیسے غموں کا پہاڑ ہٹ گیا ہو۔ اسی خوشی میں اس نے اپنی بہن کو فون کر کے بلا لیا اور اسے کہنے لگی۔ آج تم نے ایک موقع ضائع کر دیا ہے۔ ایک پہنچی ہوئی خاتون آئی تھی۔ اس نے مجھے اور میرے زیوارات کو دم کر دیاہے۔ اب میں بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی ہوں۔ بہن نے یہ سنتے ہی ماتھے پر ہاتھ مارا، بہن کو جھنجھوڑ کر بولی : نی تو لٹی گئی ایں۔ ابتدائی ہچر مچر کے بعد جب متاثرہ خاتون نے دیکھا بھالا تو اسے حقیقت کا علم ہوا۔ کہتے ہیں کچھ دنوں بعد لٹ جانے والی خاتون نے خود ہنس کر بیان دیا کہ دم تو شوہر اور بچوں کو کروانا تھا۔ یہ زیور خدا جانے کیسے بیچ میں آگئے۔

ہمیں یہ واقعہ چینی برآمد کی تحقیقات کی وجہ سے یاد آیا۔ سوال تو یہ تھا، اور ہے، کہ 2020 میں چینی کیسے باہر بھیجی گئی؟ کس کی اجازت سے؟ جواب بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ عمران خان اور جناب بزدار بڑے مجرم۔ اسد عمر اور حفیظ شیخ صاحبان کی ملی بھگت سے۔ اس حقیقت کو آپ دائیں کر سکتے ہیں نہ بائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن صنعت کاروں نے سرکار کی مہیا کی ہوئی سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے، یہ ان کا حق تھا۔ مشہور زمانہ جناب واجد ضیا نے طوطا مینا کے جو قصے بیان فرمائے ہیں ان کا2020 کی فنکاری سے تو دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم اگر یہ بات درست ہے کہ چینی والے (یا دوسرے مل مالکان بھی) دوہرے کھاتے رکھتے ہیں، بغیر شناختی کارڈ کے کروڑوں، اربوں کی خرید و فروخت، زیادہ تر فروخت، کر لیتے ہیں، جن تک جناب واجد ضیا جیسے لوگ تو پہنچ جاتے ہیں، لیکن ایف بی آر کا محکمہ ان امورسے بے خبر رہتا ہے تو کم از کم اس سفید ہاتھی سے تو ملک و قوم کی جان چھڑائیں۔ تاہم اس لیپا پوتی کے باوجود، چار کے اس ٹولے کی جان اس ڈاکے میں بچنا مشکل ہے۔

ویسے تو خان کے کارنامے ادویات سے شروع کر کے بجلی، گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی صورت میں جاری و ساری ہیں۔ لیکن لیڈر عظیم ہو تو نئی نئی مہمات سر کرنا اس کی فطرت میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ تمام تر ہا ہا کار کے باوجود پچپن، ساٹھ روپے کلو والی چینی نوے پر اس طرح ڈٹ جائے گی جیسے اچھے پتنگ باز کے ہاتھ میں چھ گٹھی پتنگ تن جاتی ہے۔ اس سے زیادہ متاثر کن کام گندم کی کٹائی کے فوراً بعد اس کی قیمت میں اضافہ ہے۔ ماننا پڑے گا۔ یہ عام آدمی کا کام نہیں۔ مہا پرش کا کا م ہے مہا پرش کا!

لیکن پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔ عالمی منڈی میں پیٹرول کے نرخ خوفناک حد تک کم ہونے کی بناء پر مجبوراً ً پاکستان میں بھی کمی کرنا پڑی۔ ظاہر ہے ایسے کام جن سے عام آدمی کو فائدہ پہنچ سکتا ہو، ایک خاص طبقے کے لیے بہت دکھ کا باعث بنتے ہیں۔ راتوں کی نیند غائب اور ضمیر کے کچوکے اس کے علاوہ۔ (خیال رہے کہ یہ بیماری برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش میں عام ہے۔ بلکہ اب تو برازیل کے ہردلعزیز سابق صدر نے بھی اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ کئی بخشی ہوئی روحیں اپنی سہولت سے زیادہ دلچسپی لوگوں کو غریب رکھنے اور ذلیل و خوار کرنے میں رکھتی ہیں ) ۔ چنانچہ پیٹرول کو سستا ہی نہیں بلکہ عنقا بھی کر دیا گیا۔ کچھ تو باعث تسکین ہو۔ اس میں مزید مضحکہ خیز اور عجیب و غریب امر یہ تھا کہ جس شخص کا دن میں تین ٹویٹ اور دو تقاریر کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا، اسی وزیر اعظم نے پیٹرول کی کمیابی کا نوٹس ٹھیک دس دنوں بعد لے لیا۔ نتیجہ یہ کہ کمیابی یقینی ہو گئی۔ ( اب نظر گیس پر ہے۔ لکڑیاں اور کوئلے اکٹھے کرنے شروع کر دیں ) ۔ ویسے تو ایڈونچرز آف عمران خان ایک جاری و ساری سلسلہ ہے۔ لیکن اس چینی والے معاملے میں لطف یہ ہے کہ سوائے رانا ثنا اللہ کے مسلم لیگ ن اور پی پی پی سرکاری درباری لائن کو جھک جھک کر سلام کرتے نظر آتے ہیں کہ سزائے چینی اصل مجرموں کی بجائے جناب جہانگیر ترین کو دی جائے۔ اور اس کے لیے عراق سے تریاق منگوانا پڑے تو کوئی حرج نہیں!

ظاہر ہے ان کارناموں کا اصل سہرہ تو پنڈی کے پیروں کے سر جاتا ہے۔ لیکن اعظم سواتی کی صریح بدمعاشی (اس تھانیدار کی عظمت کو سلام ہے، جس نے غریب خانہ بدوشوں کوایک مگرمچھ کا شکار نہیں بننے دیا) کے بعد دوبارہ وزیر بنا دینانیز جناب شہباز گل کو پنجاب سے اٹھا کر مرکز میں لے جانا: یہ دونوں خان کی ذاتی پسند کا نتیجہ ہیں۔ چینی ہی کی طرح ایک فنکاری کراچی میں طیارے کے حادثے کی رپورٹ میں کی گئی ہے۔ ابتدائی تحقیق میں تو یہی علم ہوا کہ غلطی پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کی ہے۔ یہ بات درست بھی ہو سکتی تھی۔ اگر اطلاع اتنی ہی ہو تی۔ لیکن جب اس کے ساتھ اچانک پی آئی اے کی ٹریڈ یونین کی بدمعاشیاں اور سیکڑوں جعلی لائسنس والے پائلٹ منظر عام پر زور شور سے لائے جاتے ہیں تو فطری طور پر یہ شک جنم لیتا ہے کہ یہ کس خبر کو دبانا چاہ رہے ہیں۔ خیال رہے چینی والے کیس میں بھی چار کے ٹولے کی جان اسی فارمولے کے تحت بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ کیس اتنا مضبوط ہے کہ آج (25 جون ) وزیر اعظم کو اعتراف کرنا پڑا ہے کہ وہ مجرم ہیں۔ اور جہاں تک اس بھونڈے تصور کا تعلق ہے کہ سات سال حکومت کرنے کے باوجود ہم ابھی نئے ہیں، تو عرض ہے کہ پاکستان بائیس کروڑ کا ملک ہے۔ خدا جانے اسے ٹریننگ اکیڈیمی کس نے بنا دیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments