وزیراعظم کے نام ایک عام عورت کا خط


اسلام و علیکم
مجھے یقین ہے کہ آپ بالکل بخیر ہوں گے۔ کیونکہ آپ کے چہرے کی تازگی آپ کی خیریت ہشاش بشاش بتاتی ہے۔ میں بالکل بخیر نہیں ہوں۔ نہ ہی میرے جیسے چھوٹے کاروبار کرنے والے میرے دوست اور عوام۔ ہم بخیر کیسے ہو سکتے ہیں کہ جب ہمارے گھروں میں کاروبار کی تباہی کے بعد بھوک اس لیے پورا نہیں ناچی کہ جب تک کچھ نہ کچھ بیچنے کے لیے موجود رہا۔ اس سے گزارا کر لیا۔ یا پھر کسی دوست رشتے دار نے وقت پاس کروا دیا۔ مجھ سمیت میرے تقریباً نو دوست ایسے ہیں جن کی یا تو نوکری چلی گئی یا انہوں نے اپنے کاروبار بند کر دیے۔ اور یہ تعداد ان کی ہے جنہوں نے آپس میں اپنا دکھ شیئر کر لیا۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے یہ بھی نہیں کیا۔

ایک دوست فیس بک چھوڑ گئے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنا سمارٹ فون بیچ رہے ہیں۔ تا کہ گھر کا کچھ سلسلہ چلے۔ ایسی صورت حال میں جب کہ آپ خود اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوں۔ کسی کے کیا کام آ سکتے ہیں۔ سو چپ کر گئے۔ حکومت نے احساس پروگرام شروع کیا۔ چند لوگ سلیکٹ کیے ان کو بارہ ہزار دیے اور بس فرض پورا ہو گیا۔

بارہ ہزار میں ان لوگوں نے چار ماہ گھر کیسے چلایا ہو گا۔ سمجھ سے باہر ہے۔ احساس پروگرام کی شرائط میں صرف وہی لوگ پورا اتر سکتے تھے۔ جن کو پہلے ہی مخیر حضرات کی جانب سے راشن پہنچایا جا رہا تھا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ جنہوں نے وہ راشن اکٹھے کیے بعد میں دکانوں پہ جا کر بیچتے رہے۔ ہمارے جیسے نہ راشن کی قطاروں میں لگ سکتے ہیں نہ ہی حکومتی کسی پالیسی کے معیار پہ پورا اترتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب جن کی بھوک کی فکر میں آپ نے پہلے لاک ڈاؤن، پھر سخت لاک ڈاؤن کی مخالفت کی۔

لیکن اگلے ہی دن لگا بھی دیا۔ ان کی بھوک کے لیے آپ نے کیا کیا۔ اور پھر لاک ڈاؤن کے نام پہ بھی جو کچھ ہوتا رہا ہے۔ وہ ایک الگ کہانی ہے۔ کرایہ داروں کے لیے اعلان کیا گیا کہ مالکان ان سے کرائے وصول مت کریں۔ یا رعایت دیں۔ مگر یہ اعلان صرف اعلان تک ہی محدود رہا۔ کہ نہ تو کسی بھی کرایہ دار کو گھر کے کرائے میں رعایت ملی۔ نہ ہی دکانوں کے کرایوں و بلوں میں کوئی احساس کیا گیا۔ بجلی کے بل میں آپ نے ریلیف دینے کی بجائے عوام کے سروں پہ بم پھوڑے۔ وہ بل دیں یا روٹی کھائیں۔ اس مشکل کا حل آپ بتا دیں۔ احسان ہو گا۔

میں یہ مانتی ہوں کہ یہ بحران پوری دنیا میں ہے۔ مگر پوری دنیا کی حکومتیں اپنی عوام کے لیے جو کچھ کر رہی ہیں۔ کیا آپ ان کا نصف بھی نہیں کر سکتے۔ چلیں ایک چوتھائی ہی کر دیتے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو سیفٹی گیئر نہیں دیے گئے۔ سارا وزن اٹھا کے آپ نے ضلعی انتظامیہ پہ ڈال دیا۔ آپ نے کیا کیا۔ آپ نے صرف خطاب کیے۔ کبھی کہا یہ فلو ہے۔ گھبرانا نہیں۔ پھر کہا لوگ سمجھ نہیں رہے۔ یہ وائرس ہے۔ کبھی لوگ گھبرانا چھوڑتے اور کبھی گھبرانے لگ جاتے۔

یوں تو آپ نے گھبرانے و نا گھبرانے کا بھی بحران پیدا کیے رکھا۔ وبا کے دنوں میں حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ ماسک جو پانچ دس روپے کے مل جاتے تھے۔ مارکیٹ سے غائب ہو گئے۔ سینی ٹائزرز جن کی اہمیت ہمیشہ اس جہیز کے برتن جیسی تھی۔ جسے عید پہ الماری سے نکال کے مہمانوں سامنے رکھا۔ اور عید گزرتے ہی پھر سے سنبھال دیے۔ وہ ایک دم سے راجہ اندر ہی بن گیا۔ نوے روپے والی بوتل ساڑھے چار سو تک بکی۔ اور کبھی ملی کبھی نہ ملی۔ ویسے تو شکر ہے آپ نے اس پہ نوٹس نہیں لیا۔ ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ قیمت ساڑھے چار ہزار ہو جاتی۔ اللہ یونہی آپ کا دھیان بٹائے رکھے۔ آمین۔

سوال بس یہ ہے کہ جب یہ سب حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہا ہوتا ہے۔ تب آپ کہاں ہوتے ہیں۔ یا آپ کو اب تک بشری بی بی سے پوچھنا پڑتا ہے کہ وزیراعظم کون ہے؟

سچ بتاؤں تو بانوے کے ورلڈ کپ سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہے۔ کہ گھر میں سب بیٹھے میچ دیکھ رہے تھے۔ اور بچوں سے کہا جا رہا تھا کہ وہ تسبیح کر کے پھونکیں ٹی وی پہ ماریں۔ میں نے بھی اچھے بچوں کی طرح یہی کیا۔ کیونکہ نہ تو مجھے کرکٹ دیکھنا پسند تھا۔ نہ ہی مجھے یہ پتہ تھا کہ ان پھونکوں کی قیمت اتنی بھاری ہو گی۔ کہ آج میرے بچوں سمیت عوام کے بچوں کو بھی چکانی پڑی گی۔ اشرافیہ کے بچوں کی خیر ہو کہ ملک میں چاہے وبائیں اتریں یا پھر قحط پڑے۔ ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ وہ مست رہتے ہیں۔ پیسہ چیز ہی ایسی ہے کہ جیب میں ہو تو بندہ مست ہی رہتا ہے۔ خیر افسوس مجھے اس بات پہ ہوتا ہے کہ چھیانوے سے لے کر دو ہزار تیرہ کے الیکشنز کے بعد تک میں نے ہر ممکن طریقے سے آپ کی حمایت کی۔ چاہے گھر ہو یا کام کی جگہ۔ میں گاتی پھرتی تھی جب آئے گا عمران۔

مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ یہ سارے چور ڈاکو لٹیرے بیٹھے ہیں اور عوام کا پیسہ لوٹ رہے ہیں۔ اگر آپ وزیراعظم ہوں گے تو پاکستان جنت بن جائے گا۔ اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔ اس پہ پھر آپ کی باتیں ایسی ہوتیں کہ بندہ خود کو آنے والی جنت کا باشندہ محسوس کرتا۔ مجھے افسوس ہے جناب اعلی کہ میں غلط تھی۔ میں نے آپ کو بطور لیڈر دیکھا تھا۔ مگر جب دو ہزار تیرہ کے الیکشنز کے بعد میں نے آپ کی خیبر پختونخوا کی حکومت کی کارکردگی کو دیکھنا شروع کیا۔ اور پھر جب آپ کے خیبر پختونخوا یونیورسٹی میں طالبات پہ جینز کی پابندی کی باتیں سنی تو میں حیران رہ گئی۔

رہی سہی کسر آپ کے اسلام آباد دھرنے نے نکال دی۔ لیڈر ہوتے تو عوام کے ساتھ بارش میں فٹ پاتھ پہ بیٹھتے۔ نہ کہ کنٹینر میں یا بنی گالہ جا کے سو جایا کرتے۔ سترہ سال جو آپ کی سپورٹ کی۔ اور زندگی میں پہلا ووٹ جو آپ کی پارٹی کو دیا۔ اس کا کفارہ مجھے تو سمجھ نہیں آتا۔ آپ اس کا بھی بتا دیں کہ کیا کروں کہ یہ کفارہ ادا کر سکوں۔

مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ جب چور اور لٹیرے تھے۔ ملک میں سڑکیں بھی بن گئیں۔ ہسپتال بھی بنے۔ تعلیم کا بجٹ بھی ٹھیک تھا۔ لوگوں کے کاروبار بھی چلتے تھے۔ آخر وہ کیسے لٹیرے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ سے پہلے جو لٹیرے تھے۔ چینی پینتالیس روپے کلو تھی۔ پٹرول ستر روپے، ڈالر سو روپے اور سونا پینتالیس ہزار سے پچاس کے بیچ میں رہتا تھا۔ ہسپتالوں کی حالت بہت بہتر تھی۔ دوائیاں ٹیسٹ فری تھے۔ جن میں اب ہوشربا اضافہ ہے۔

سمجھ سے باہر ہے جس طالب علم، جس مریض، جس عوام کے لیے آپ کے سینے میں درد تھا۔ وہ اچانک سے وزیراعظم بنتے ہی غائب کیوں ہو گیا ہے۔ بڑا ہی موکلانہ درد تھا۔ جو جب عمل کا وقت آیا تو غائب ہو گیا۔ ڈینگی پہ جو آپ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا حال کرتے تھے کرونا پہ بزدار صاحب کا کیوں نہ کیا۔ کیوں آپ نے سٹریٹجی تیار نہیں کی۔ آپ نے صوبوں کے ساتھ ذاتی عناد رکھا۔ نہ صرف آپ نے بلکہ آپ کے وزراء بھی اس میں پیش پیش رہے۔ سوال یہ ہے کہ وفاق کی کارکردگی کیا رہی۔ جو امداد آتی رہی وہ کہاں گئی۔ جو ڈالرز آئے وہ کیا ہوئے۔ کیونکہ امداد تو ہمارے نام پہ ہی آئی تھی۔ آ رہی ہے۔ لیکن ہم کہاں ہیں۔ یہ نہیں پتہ۔ بتا دیجئیے۔

ہمیں بتا دیجئیے کہ ہم کہاں جائیں۔ جن کی نوکریاں چلی گئی ہیں وہ کیا کریں۔ کیا ان کے لیے حکومت نے نوکریوں کا بندوبست کیا ہے؟ شاید ایک کروڑ نوکریوں میں ایڈجسٹمنٹ ہو جائے۔ چیک کر لیجئیے۔ چھوٹے کاروبار کے مالکان کے لیے آپ کی کیا سٹریٹیجی ہے۔ جو لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ ان کے نقصان کسے پورے ہوں گے۔ ان کے لیے ایسی کون سی پالیسیز بنی ہیں جو ان کے گھر کے چولہے نہ ٹھنڈے ہونے دے۔ آخر کو آپ کو عوام کی بھوک کا بھی تو خیال ہے ناں۔

ویسے اگر آپ نے بھوک کا نوٹس لے لیا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمیں بھوک ٹیکس نہ دینا پڑ جائے۔ کیونکہ آپ کا ریکارڈ رہا ہے کہ جس چیز کا نوٹس آپ نے لیا۔ وہ عوام کی دسترس سے نکل گئی۔ اللہ ہی کرم کرے ہم سب کے حال پر کہ ہم تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں۔ گزارش بس یہ کرنی ہے کہ ہمیں کرپشن سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے آنے سے کرپشن ختم ہو گئی ہے۔ تو آج کی آڈٹ کمیٹی کی رپورٹ دیکھ لیجئیے۔ سر کرپشن ختم نہیں ہوئی۔

کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ یہاں بھی آپ کے نوٹس کا ہی نتیجہ ہے۔ آپ نے کرپشن پہ نوٹس لیا۔ پہلے جو کام کلرک ایک ہزار لے کر کر دیتا تھا۔ اب پانچ ہزار لے کر کرتا ہے۔ ہے تو تبدیلی ہی مگر وکھیاں توڑ قسم کی تبدیلی ہے۔ جس سے اب ہم تو تھک چکے ہیں۔ بس درخواست یہ ہے کہ نوٹس لینے کی بجائے کوئی ایک کام عوام کی بہتری کے لیے کر لیں۔ ہم تو مضبوط اعصاب کے مالک لوگ ہیں۔ برداشت کر گئے ہیں۔ مگر یہی صورتحال رہی تو خود سوزیوں کی خبریں عام ملیں گی۔ کہ بہرحال بھوک سے بڑا تو کوئی مذہب نہیں۔ ویسے بھی اب ہمارا گھبرانا بنتا ہے۔

فقط ایک عام عورت
نوشی بٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments