خدا کے لیے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں


آج کل ایک پروگرام دیکھا جو نہایت دردناک سچے واقعے پر مبنی تھا۔ اس میں دکھایا گیا کہ ایک غریب ماں کو اپنے بیٹے کے سر پر سہرا باندھنے کی خواہش کتنی مہنگی پڑی۔ اس کے دو بیٹے تھے جو رنگ روغن کا کام کرتے تھے۔ کام کبھی ملتا تھا اور کبھی نہیں ملتا تھا۔ لڑکا تنگدستی کی وجہ سے شادی کے لیے نہیں مان رہا تھا۔ لیکن ماں کے بار بار اصرار اور شادی کے لیے اپنی ماں کا خود قرضے کا بندوبست کر لینے کی شرط پر بیٹا مان گیا۔ اس کی والدہ نے کسی جاننے و الے سے اس شرط پر قرضہ لیا کہ جلد از جلد وہ یہ قرضہ اس کو واپس یکمشت ادا کر دے گی۔ تب اس آدمی نے کسی سے لے کر ا س کو ڈیڑھ لاکھ قرض دے دیا۔

ڈیڑھ لاکھ قرض لے کر اس ماں نے اپنے بیٹے کی شادی تو کر دی لیکن قرض خواہ نے دو ماہ بعد ہی قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ قرضے کی واپسی کے تقاضوں سے تنگ آ کر شادی کے دو ماہ بعد ہی اس کے بیٹے اور بہو نے جان لیوا دوائی کھا کر خود کشی کر لی۔ یہ صدمہ چھوٹے بھائی سے برداشت نہ ہوا اورا س نے بھی خود کشی کر لی۔ یوں وہ حرماں نصیب ماں ایک ہی دن میں اپنے دو جوان بیٹوں کو کھو بیٹھی۔ وہ اورا س کی نوجوان غیر شادی شدہ بیٹی ایک زندہ لاش بن گئی ہیں۔

بے سوچے سمجھے کام کرنے سے ایک ہنستا بستا خاندان تباہ ہو گیا۔ پروگرام کی اینکر سوال اٹھا رہی تھی کہ دولتمند لوگ اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں، جبکہ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ لوگ اپنی چادر دیکھ کر پیر کیوں نہیں پھیلاتے۔ پروگرام میں یہ بتایا گیا تھا کہ قرضہ لیتے وقت لڑکے کی ماں نے اس شرط کے ساتھ قرضہ لیا تھا کہ جلد اور یکمشت ادا کردے گی۔ قرض خواہ کا کہنا تھا کہ اس نے یہ رقم کسی سے لے کر دی تھی۔ اگر یہ بات سچی ہو تو قرض دینے والا بھی تو اتنا ہی مجبور تھا۔

ان لوگوں کو قرض سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے تھا۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ اگر قرضہ ادا کرنے کی طاقت نہ ہو تو قرض نہیں لینا چاہیے۔ اسی پر بس نہیں قرض دینے والے پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اس کی نیت ان کی بہو پر خراب ہو گئی تھی۔ اللہ جانے ا س میں کچھ حقیقت ہے بھی یا نہیں۔ اگر ہے تو اور بھی عبرتناک بات ہے۔ قرض لینا کسی انسان کو غیر محفوظ کر دیتا ہے۔ پروگرام میں دکھایا گیا کہ نو بیاہتا بہو گلے میں دوپٹہ ڈالے خود قرض خواہ سے قرض کی مہلت مانگ رہی ہے۔

یہ طریق بھی غلط ہے کہ ایک شخص پہلے ہی آپ سے غصے میں ہے اگر آپ کی بہو بیٹیاں اس طرح سامنے آئیں گی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم لوگ اپنے طور طریقے کیوں نہیں دیکھتے؟ احتیاط کیوں نہیں کرتے؟ اس ساری صورت حال سے بچنے کے لیے سادگی سب سے بہہترین حکمت عملی ہے۔ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ آج کل لوگ کووڈ کی وجہ سے تو شادیاں سادگی سے کر رہے ہیں۔ اللہ کی بات مان کر سادگی سے کیوں نہیں کر سکتے؟ بچت کی بچت اور ثواب کا ثواب۔ چادر دیکھ کر پیر پھیلانا ایک بہترین حکمت عملی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم لین دین کرو تو ا س کو گواہون کی موجودگی مین لکھ لیا کرو۔ افسوس کہ زیادہ ترعا، لین دین کے قرضوں میں یہ بھی نہیں کیا جاتا۔

قرض دینے والوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ قرض دینا آسان اور واپس لینا مشکل ہوتا ہے۔ اسی وقت قرض دیں جب آپ دیر سویر سے واپس لینے کو تیار ہوں۔ یا پھر اتنا ہی دیں کہ نہ بھی ملے تو صبر کر سکیں۔ حکم ہے کہ مقروض کو مہلت دینی چاہیے۔ لیکن اکثر قرض دینے والے کو مہلت دینا مشکل لگتا ہے۔ قرض لینے والا قرض لیتے ہوئے تو ہر شرط ماننے کو تیار ہوتا ہے پوری پوری یقین دہانی کرواتا ہے، دعائیں دیتا ہے لیکن بعد میں واپسی کے تقاضے کو ظلم سمجھتا ہے، اپنے کہے ہوئے الفاظ بھول جاتا ہے۔ بددعائیں دیتا ہے۔ بدنام کرتا ہے۔ آج کل تو ایک عمومی مقولہ ہے قرض پیار کی قینچی ہے۔ قرض کا لفظ نکلا بھی مقراض سے ہے، مقراض قینچی کو کہتے ہیں۔

اس واقعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قرض دینے والا بھی واقعی مجبور ہو کر قرضے کی واپسی کا تقاضا کرتا ہو۔ فرض کریں کہ وہ پیسے اگر اس شخص کے اپنے ہی تھے تب بھی کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ ا س نے یہ رقم بہت مشکلوں سے پیٹ کاٹ کر جمع کی ہو، جومحض ان کی یقین دہانی پر ان کو دے دی کہ وہ جلد اور یکمشت ادا کردیں گے۔

اصل میں بات یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ چادر دیکھ کر پیر پھیلانے چاہئیں۔ ہمارے بزرگ یہی کہتے ہیں۔ ہمیں بتایاجاتا ہے کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کو آسان تر بناتے تھے۔ آپ کے صحابہ کرام میں سے کبھی کوئی زرہ بکتر بیچ کر جو حاصل ہوتا اس سے شادی کے اخراجات اور حق مہر بھی ادا کرتا۔ اور کبھی توحق مہرکی استطاعت نہ ہونے پر میاں کو نو بیاہتا بیوی کو قرآنی سورتیں سکھا دینا ہی حق مہر قرار پایا۔ ایک صحابیٔ رسول ﷺ کا ولیمہ تو کہیں سے ہبہ کی گئی کھجوروں سے ہی ہو گیا۔ کبھی کوئی وایسی روایت نہیں ملتی کہ قرض لے کر شادی کی گئی ہو۔ یہی سکھایا گیا ہے کہ جو آپ کے پاس موجود ہو اسی میں بندوبست کریں۔

کیا کوئی مانے گا آج اسی دین کے ماننے و الوں کا یہ حال ہو چکا ہے کہ رسومات نہ ہوں دھوم دھڑکا نہ ہو تو بے عزتی ہو جاتی ہے؟ نہایت افسوسناک صورت حال ہے۔ نوجوان مایوس ہو کر خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ بیٹیاں گھروں میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتیں ہیں۔ مایوس ہو کر نوبت خود کشی تک پہنچ جاتی ہے۔ ہسٹیریاہو جاتا ہے جس کو کہا جاتا ہے کہ جنات چمٹ گئے ہیں۔ جبکہ مایوسی تو کفر ہے۔ اور کفر میں یقیناًکوئی برکت نہیں ہو سکتی۔

سوال یہ ہے کہ آج کے نوجوان اتنے مایوس کیوں ہو گئے۔ یا پھر ناشکرے ہو گئے ہیں۔ یاد آیا ایک ٹی وی پروگرام میں ایک خاتون نے کہا تھا اور وہ سچ ہی کہہ رہی تھی کہ ہم ناشکرے ہو گئے ہیں۔ ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے صحتمند ہوتے ہیں پیٹ بھرا ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہیں۔ ہر وقت شکوے شکایتیں ہمارے ہونٹوں سے گویا برستی ہیں۔

ہمارا اپنا بجٹ کچھ ہو ہم دوسروں کو دیکھ کر اپنے بجٹ بناتے ہیں اورجب ان کی تقلید نہیں کر سکتے تو ناخوش رہتے ہیں۔ کوئی کیا کہے گا کا ہوا ہمیں ڈرا کر رکھتا ہے۔ معاشرے میں ناک کٹ جائے گی کا ڈر اک بلا کی طرح چمٹا رہتا ہے ہمیں۔ اور ناک بچاتے بچاتے زندگی ہار جاتے ہیں۔

ان تین قیمتی جانوں کے ضائع ہوجانے کا سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کیوں نہ انہوں نے کسی سے مدد لی۔ ماں نے شادی کرنے کے لیے تو مدد لے لی لیکن بچے کی ذہنی حالت دیکھ کر کسی سے مدد کیوں نہ لی۔ پھر بے بس ماں کا خیال آتا ہے جو ایک جائز خواہش کو پورا کرنے میں اتنی بڑی غلطی کر گئی۔ آج کل موبائل کا زمانہ ہے۔ یہ نوجوان انٹرنیٹ پر کسی سے بات کرتے۔ کسی سے مدد لیتے۔ سو طریقے نکل آتے ا س مشکل سے نکلنے کے۔ زندگی کو اتنا ارزاں کیوں سمجھ لیا گیا ہے۔ آخر نوجوانوں میں جینے کی امنگ کیوں نہیں رہی۔

ان بچوں کے معصوم ذہنوں کو رستہ دکھانے کے لیے بڑوں کو ا پنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ ان کی مدد کو اگر بڑے نہیں آ ئیں گے تو کون آئے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments