ایک بیوٹی پارلر کا اشتہار


یہ تو میرے علم میں نہیں کہ ہمارے وطن میں پہلا بیوٹی پارلر کب کھلا لیکن اتنا یاد ہے کہ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب بہت سی متوسط طبقے کی بیٹیاں اپنی شادیوں میں گھروں پر ہی تیار ہوا کرتی تھیں۔ ان کی ماں اور بہنیں ہی انہیں تیار کیا کرتی تھیں۔ میری اپنی دو بہنوں کی شادیوں میں بیوٹی پارلر کا کوئی تصور نہ تھا۔ مگر پھر وقت بدل گیا۔ اتنا بدلا کہ دلہن تو بیوٹی پارلر سے تیار ہو یہ تو طے ہی ہوا مگر جو بھی خواتین شادی میں شرکت کریں گی اب تو ان میں بھی اکثر پر بیوٹی پارلر سے تیار ہونا لازم ہو گیا۔

خوبصورتی اور بدصورتی بھی بڑے عجیب تصورات ہیں۔ ان کی تعریف متعین کرنے پر بیٹھئے تو دفتر کے دفتر مرتب ہو جائیں مگر پھر بھی کوئی تشفی بخش تعریف متعین نہ ہو اور اگر کسی سے دریافت کیجئے تو وہ فوراً یہ بھی بتا دے کہ اسے کون سا چہرہ خوبصورت لگتا ہے اور کون سانہیں۔ چہروں کی بات تو خیر ہمیشہ موضوعی پسند و ناپسند کے زیر اثر رہتی ہے مگر باطن کی بدصورتی بڑی گھناؤنی شے ہے اور اس پر نہ کوئی ابہام ہو سکتا ہے نہ کوئی دو رائے۔

چند سال قبل ایک بیوٹی پارلر نے باطن کی بدصورتی کا بڑا منحوس مظاہرہ اپنے ایک اشتہار میں کیا۔ مگر اس پر کسی نے کچھ کہا ہی نہیں اور سماجی میڈیا پر بھی کوئی رد عمل ہی نہیں آیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس پر بات کرنا لازم ہے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں کسی کو اس اشتہار میں ظاہر غلاظت نظر ہی نہیں آئی۔

اشتہار کچھ یوں تھا کہ ایک میک اپ میں ڈوبی دلہن دکھائی جاتی ہے جو روایتی لباس میں ملبوس ہے اور گوری لگ رہی ہے۔ پھر اس کا میک اپ اتارا جاتا ہے۔ اس کے بال ’وگ‘ ہیں، اس کا رنگ اتارا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک حبشی لڑکی ہے۔ اس منحوس اشتہار میں دراصل یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اگر آپ حبشیوں جیسے کالے بھی ہوں تو ہم آپ کو بھی گورا بنا دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ہم آپ کے افریقیوں جیسے گھنگھریالے بالوں کو بھی چھپا دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کالا ہونا بدصورتی ہے؟ کیا گورا ہونا حسن ہے؟ کیا کالا ہونا اتنی بڑی برائی ہے کہ کالے انسان کو اپنی کھال پر باقاعدہ پینٹ کی تہہ جما کر گورا بننا ضروری ہے؟ تب ہی قابل قبول ہو گا ورنہ نہیں؟

یہ اشتہار اپنی نہاد میں ہر غلیظ اور بدصورت نظریے کی پیداوار ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جسے نسل پرستی کہا جاتا ہے۔ یہ وہی ہٹلر کا نظریہ ہے کہ آریہ نسل عظیم ہے اور باقی اقوام عالم ارتقاء میں کمتر درجے پر ہیں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ یہ نسل پرستی کا نظریہ ایسے ملک میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جہاں پر حبشی ایک بہت چھوٹی اقلیت ہے مگر یہاں کی اکثریت گوری نہیں ہے۔

یہ وہی ذہنیت ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے وطن میں اتنی بہت سی گورا کرنے کی کریم بکتی ہیں۔ ان میں بہت سی فارمولہ کریمز ہوتی ہیں کہ جن میں ’کارٹیزون‘ اور دیگر ادویات ملا دی جاتی ہیں۔ ان کریمز کو لگانے سے انسان چند دنوں میں بالکل سرخ و سفید ہو جاتا ہے مگر کچھ ہی عرصے میں کھال اور سیاہ اور روکھی ہو جاتی ہے۔ ان کریمز کے زیادہ استعمال سے جلد کا سرطان بھی ہو جاتا ہے۔

پھر عورتیں اس گورے ہونے کے ’کمپلیکس‘ میں زیادہ بری طرح شکار ہیں اور وجہ وہی ہے جو اس اشتہار کے ماخذ میں بھی کہیں موجود ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گورے رنگ کا اتناجنون ہے کہ جو لڑکیاں گوری ہوں ان کی شادی بڑی آسانی سے ہو سکتی ہے جب کہ کالی لڑکیوں کے لئے یہ مرحلہ کافی دشوار ہوتا ہے۔ یہ بیوٹی پارلر اسی ”کمی“ یعنی کالے رنگ کو دور کرتے ہیں۔

پھر ایک ذہنیت یہ بھی ہے کہ شادی میں تو سب ہی رشتہ دار شریک ہوتے ہیں اور یہ زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے تو اس میں تو انسان کم از کم اپنے خوابوں کے مطابق ”حسین“ نظر آئے۔ اس ”حسین“ بننے کا فارمولہ یہ ہے کہ چہرے پر باقاعدہ میک اپ کی اتنی موٹی تہہ جما دی جائے کہ اصل صورت بالکل ہی چھپ جائے اور ایک نئی صورت چہرے پر بنا دی جائے۔ ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ”مشن امپوسیبل“ کی سیریز آیا کرتی تھی کہ جس میں اسپیشل ٹیم کے ارکان اپنے چہروں پر ماسک لگا کر بالکل کسی اور ہی انسان کی صورت اختیار کر لیا کرتے۔ ان شادیوں میں بھی میک اپ کا مطلب تقریباً یہی ہوا کرتا ہے اور اسی منحوس نفسیات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے اس بیوٹی پارلر نے یہ اشتہار بنایا ہے۔

کسی کی رنگت، شکل و صورت کا مذاق اڑانا انسانیت کی توہین ہے۔ پھر کالی رنگت کو بدصورتی کے ہم معنی سمجھ لینے والے افراد جب کہ وہ خود بھی کالے ہی ہوں، اسی نوع کے ذہنی مریض نہ بنیں گے تو کیا بنیں گے؟ ایسے ذہنی مریض جو بیوٹی پارلر حسن کو نکھارنے کی جگہ کے بجائے سفید چونا گردانی کی ورکشاپ سمجھتے ہوں۔ ایک ایسی جگہ جہاں پر خدا کی بنائی حقیقی صورت کو چھپا کر ایک نئی صورت تراش کر برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی جو صورت خدا نے عطا کی اس میں نعوذ باللہ کمی تھی جو یہ چونا گردانی کرنے والے پوری کر دیں گے؟

ہم ایسے نفسیاتی مریض ہیں جنہوں نے خود کالے ہوتے ہوئے کالے رنگ کو گالی بنادیا۔ ہم وہ ہیں کہ جنہوں نے گورے رنگ کو خوبصورتی سمجھ لیا اور ساری قوم پر اس تصور کو اس طرح تھوپ دیا کہ لوگوں کو اب اس میں کوئی خرابی نظر آتی ہی نہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ گورے نہیں تو وہ خوبصورت تو کیا وہ تو انسان ہی نہیں۔ اور اگر وہ انسان نہیں تو انہیں انسان بننا ہے اور ان کا یہ ارتقا ء کسی بیوٹی پارلر سے گورا بن کر ہوگا۔ یہ نفسیاتی بیماری کرونا سے زیادہ خطرناک ہے، مگر کسی کو احساس بھی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments