کیڑا بنام چوکیدار صاحب


چوکیدار صاحب بھلے یہ درخت کبھی آپ کے امیر و دیسی رشتہ داروں کی جاگیر رہا ہے لیکن ان کی ایسی بھی کیا خیرخواہی؟

درخت کی جڑوں کی مٹی میں پلتی اور اسے نمو دیتی زمینی مخلوق کو، ہم کیڑے مکوڑوں کو، ہم جرثوں کو لگتا تھا کہ یہ درخت ہمارا بھی ہے اور آپ کو ڈنڈا پکڑا کر درخت کی راکھی کے لیے ہم نے ہی نوکری پر رکھا ہے۔ حضور غلطی کوتاہی، بے ادبی ہو گئی، پلیز معاف کر دیں۔

پچھلے مالی نے کچھ مشورے ہی تو دیے تھے۔ کچھ ترلے ہی تو کیے تھے۔ آپ تھوڑی بہت گوشمالی کر لیتے۔ ایسی بھی کیا گستاخی ہوئی کہ آپ نے اس کا سر پھوڑ کر اور منہ پر کالک مل کر اسے باغ سے نکال باہر کیا۔ مانیں نہ مانیں ہاتھ تو آپ کے بھی کالے ہو گئے۔

درخت پنپتا رہتا تو آپ کو آپ کی راکھی کے بدلے درخت سے پھل بھی ملتے رہتے۔ کب کم ہونے دیے ہیں کسی مالی نے آپ کے حصے کے پھل۔ لیکن درخت کے سارے ہی پھلوں پر قبضے کے لیے تو نہیں سونپی گئی تھی آپ کو چوکیداری۔

چوکیدار صاحب بھلے آپ ڈنڈا بردار برتر مخلوق ہیں، آپ کی بڑے بڑوں سے رشتہ داری ہے، آپ کا کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے۔ لیکن یہ کیا کہ آپ راکھی کے نام پر درخت کی سب سے پھلدار شاخوں کے بیچ مچان بنا کر ایسے بیٹھ گئے کہ درخت کی نمو کہ ہی درپے ہو گئے۔

آپ نے انسانوں کو چھوڑ کر ایک بندر اور اس کے قبیلے کو سدھا کر انہیں درخت کا مالی بنا ڈالا ہے۔ کم فہم بندر کے ہاتھوں پھلوں کی بے دریغ دعوت اڑاتے آپ یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ بندر تو بندر ہی ہوتا ہے، مالی کی ایکٹنگ کرنے پر بھی مالی نہیں بن سکتا۔ آپ ہم کیڑوں کا نہیں تو اپنے راکھی سے جڑے غریب رشتہ داروں کا ہی خیال کر لیں۔ ان کا رزق بھی تو اسی درخت کی نمو سے وابستہ ہے۔

مالی کا کام صرف درخت سے پھل توڑ کر سب سے پہلے آپ کے منہ میں ڈالنا اور بندر بانٹ کرنا نہیں ہوتا۔ اسے درخت کی جڑوں میں پانی اور کھاد بھی ڈالنا ہوتی ہے۔ تھوڑی سی گوڈی وغیرہ بھی کرنا ہوتی ہے، کچھ پھل زمینی مخلوق کے لیے نیچے بھی گرنے دینے ہوتے ہیں۔

اس سب کے ساتھ اگر آپ کا سدھایا بندر آپ کی خدمت اور بندر بانٹ کرتا رہتا تو درخت سوکھنے سے بچا رہتا۔ زمینی مخلوق بھوک سے نہ بلبلاتی اور درخت کو بھی نمو ملتی رہتی۔ لیکن آپ کا سدھایا بندر تو ٹریننگ کے بعد بھی وحشی رہا۔

حضور بھلے درخت سوکھنے ہر آپ نے پردیس کے امیر رشتہ داروں کے پاس چلے جانا ہے لیکن آپ کو وقار پانے اور من مانی چلانے کو ایسا درخت پھر کبھی نہیں ملنا۔ کیڑے تو برباد ہوں گے ہی، آپ کے غریب رشتہ دار بھی رل جائیں گے۔

بندر کا کیا ہے وہ کب اتنا ہشیار ہے۔ وہ تو انسانی اقدار سے بے بہرہ ایک بے دانش ایکٹر ہے۔ آپ ہی کچھ ہوش کے ناخن لے لیں۔ آپ چوکیدار ہیں، بندر تو نہیں ہیں۔ سرکار پلیز اپنے سدھائے بندر اور اس کے وحشی قبیلے کو چلتا کریں۔

کچھ پھل زمین پر بھی گرنے دیں۔ درخت سوکھ چلا ہے۔ کوئی عقل و دانش رکھتا انسان مالی گیری کے واسطے رکھ چھوڑیں۔ اس مالی کی کبھی کبھار فریاد سن لیں، اسے کچھ دن باغبانی کر لینے دیں، شاید درخت پھر سے ہرا بھرا ہو جائے اور کیڑے آپ کو دعا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments