انیس سو سینتالیس: جب مہاجروں کے قافلے ہمارے ہمارے پچھواڑے جمع تھے۔ ۔ ۔


کوئی سہ پہر کا وقت ہوگا جب یک دم بھگدڑ اور سراسیمگی کے عالم میں ”گورداسپور ہندوستان کو دے دیا گیا“ کا شور مچاتے لوگ دوڑنا شروع ہوئے۔ ۔ ۔ ماں نے سب بچوں کو گلے لگایا اور پاس بٹھا سختی سے آئندہ خطرے سے آگاہ کرتے باہر جانے روکنے کے علاوہ فوری طور پر وہ جو ہم بچے گلیوں میں پاکستان زندہ باد۔ مسلمان لکھ روپے دا اک جوان۔ سکھ پیسے دا اک۔ ۔ ۔ قسم کے نعرے لگاتے تھے۔ سے منع کیا۔ ایک دو روز بعد ہی مضافات سے سکھوں کی لوٹ مار اور فسادات کی خبریں آنے لگیں۔

راتوں کو گولیوں کی آوازیں اور دور آگ کے شعلے دکھائی دیتے۔ قادیان کی انتظامیہ نے احتیاطی تدابیر اور حفاظت کے سامان کے ساتھ ٹھیکری پہرہ اور مدافعت کے لئے جوانوں بچوں لڑکیوں اور عورتوں کو خصوصاً ٹریننگ کے بندوبست شروع کر دیے۔ مجھے یاد ہے گھر کے صحن میں پڑی مٹی سے ہم بہن بھائی روزانہ غلے بناتے۔ دونوں بڑے بھائی غلیلیں بنا رہے تھے۔ سارا گھر غلیل چلانے کی مشق کرتا۔ لکڑی کی سیڑھی لگا چھت پر گھڑا بھر کے غلے رکھ دیے گئے۔

فالتو غلیلیں رکھی گئیں۔ سرخ مرچوں کے ڈبے اور پانی بھری بالٹیاں اور خالی ٹین کے ڈبے اوپر پہنچائے گئے۔ پنڈی بھٹیاں کی پلی بڑھی ہماری بہادر ماں ہمیں تربیت دیتی۔ کہ حملہ کی صورت مقابلہ کرنا ہے مار کے مرنا ہے۔ سکھایا کہ چھت پہ چڑھ کے حملہ آور جلوس پہ غلیل سے نشانہ لے کر غلے چلانے ہیں۔ جلوس نزدیک آ جائے تو مرچیں پانی میں گھول کس طرح پھیلا کے پھینکنا ہے۔ ۔ ۔ ابھی تک قصبہ حملہ سے محفوظ تھا۔ اس دوران انتظامیہ کی طرف سے باہر کسی گودام میں پڑے گندم کے سٹاک میں سے بطور امانت پچاس ساٹھ بوریوں ہماری بیٹھک میں رکھوا دی گئی تھیں۔

دو تین دن سے بڑوں کے چہرہ پر زیادہ خوف دیکھ رہا تھا۔ ہر گھر میں موجود اسلحہ چھرے کلہاڑی چارہ کاٹنے کے ٹوکے وغیرہ فوراً پولیس کو جمع کرانے کا حکم آ چکا تھا۔ والدہ نے قربانی کے لئے استعمال ہونے والے چھرے لیٹرین کے اندر مٹی سے تعمیر شدہ اینٹوں کے ستون ( کولا) سے اینٹیں نکال خانہ بنا۔ چھپا ہمیں سب کو سمجھا دیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر کیسے استعمال کرنا ہے۔ رات ادھر گولیوں کی تڑ تڑ کی آواز آتی ادھر میں والدہ کی گود میں اور باقی سب ساتھ لالٹین کی روشنی میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور قرآنی دعائیں دہراتے۔ ۔ ۔

ایک دن سہ پہر کے بعد اچانک ہمارے گھر کے پچھواڑے وسیع میدان میں پیدل۔ سوار۔ بیل گاڑیوں پر قافلے آنے شروع ہو گئے۔ پتہ لگا سکھوں کے اچانک منظم حملوں قتل و غارت لوٹ مار کے نتیجہ میں ارد گرد کے تمام گاؤں سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ قادیان کو فی الحال محفوظ خیال کرتے اکٹھے ہو رہے تھے۔ بھوکے پیاسے لوگ بلکتے بچے۔ ۔ ۔ والدہ نے چکر لگایا۔ ہم تینوں بھائیوں کو بالٹیاں پانی سے بھر کر گلاس ساتھ دے باہر ضرورت مندوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی لگائی۔

میں اور میری ہم عمر بھانجی ایک بالٹی لے کر جاتے۔ رات دیر تک جب تک ہمت رہی ہم یہ ڈیوٹی بھگتاتے رہے۔ والدہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد قافلوں میں چکر لگاتیں۔ قافلہ کی عورتوں میں اعلان کیا کہ جس کے پاس انتظام نہیں وہ ہمارے گھر آئے۔ گندم لے ہمارے گھر موجود ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی نکال صحن میں رکھ دی۔ دو تین چکیاں قافلے میں موجود تھیں۔ وہ لے آئے۔ امانت گندم کی بوریاں یہ کہتے۔ کہ یہاں رہے تو اس کی قیمت ادا کر دوں گی مہاجروں کے لئے کھول دیں۔

گھر میں پڑی اینٹوں سے بنے چولہے اور مہاجروں کے لائے توے اور آٹا گوندھنے کی پراتیں۔ ان ہی کی خواتین کے ذریعہ ساری رات اور اگلے ایک دو دن چلتے رہے۔ ہمسایہ گھروں میں بھی حسب استطاعت یہی حال تھا۔ والدہ زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کر رہی تھیں۔ انتظامیہ بھی ہر طرح ہر ممکن خدمت کر رہی تھی۔ ( کئی سال بعد پتہ چلا کہ ایک بیل گاڑی پر والدہ ایک زچگی میں بھی مدد کر آئیں تھیں۔ ) ۔

جہاں تک مجھے یاد ہے۔ کوئی تیسری صبح ( اکتوبر شروع تھا ) سب قافلوں کی روانگی کی اطلاع ملی۔ ۔ ۔ شاید نئی حکومت کی انتظامیہ نے اپنی حفاظت میں انہیں پاکستان پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ یا کیا۔ بس شکر گڑھ کی راہ جانے کا مجھے یاد ہے۔ ۔ ۔ شام تک میدان میں ان لٹے پٹے یا ابھی تک محفوظ قافلوں کے چھوڑے ہوئے سامان کے علاوہ کچھ باقی نہ تھا۔ ۔ ۔

دو دن بعد قصبہ میں اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ ان تمام قافلوں پر تمام راستے مسلح سکھوں کے جتھے حملے کرتے رہے تھے۔ قتل عام اور عورتوں کے اغوا کی کہانیاں تھیں۔ حفاظتی پولیس کی حملہ آوروں کو کھلی چھٹی دینے کی کہانیاں تھیں۔ اور کچھ لٹے پٹے بچے کھچے حصوں کی پاکستان تک پہنچ جانے کی داستانیں بھی تھیں۔

ادھر قصبہ ہندوستانی انتظامیہ کے کنٹرول میں لیا جا چکا تھا۔ سکھ تلواریں لٹکائے کھلی کرپانیں ہاتھوں میں لئے گھومتے لوٹ مار شروع کر چکے تھے۔ ۔ ۔ مجھے نہیں یاد میں کیوں نکلا مگر گھر کے قریب آیا تو ہمارے داخلی دروازے کے سامنے ہمارے ہمسایوں کے گھر کے باہر کھڑا ان کے پناہ لئے مہمانوں کا گھوڑا ایک سکھ ننگی تلوار ایک ہاتھ میں لئے دوسرے ہاتھ سے کھول رہا تھا۔ میں نے بیٹھک کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ماں نے کھولا۔ اور سکھ پر نظر پڑتے مجھے اندر کھینچ گلے سے لپٹا لیا۔

شاید ایک آدھ دن بعد ہی اچانک دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ باہر پیغام بر کھڑا تھا۔ کہ آپ ابھی تک گھر پہ ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں پورا شہر خالی کرنے کا حکم ہو چکا ہے۔ ( ہمارے گھر کوئی بڑا مرد نہ ہوتے کوئی باہر گیا ہی نہ تھا ) ابھی ایک گھنٹہ بعد ہر جگہ لوٹ مار کا خدشہ ہے۔ ۔ ۔ فوراً تعلیم الاسلام سکول میں بنائے گئے کیمپ میں پہنچ جائیں۔ ۔ ۔

مجھے یاد ہے۔ چولہے پہ ہنڈیا چڑھی تھی۔ اتاری نہیں گئی۔ والدہ نے شاید تیاری پہلے کر رکھی تھی۔ جائیدادوں کے کاغذات کی تھیلی گلے میں لٹکائی۔ ( یہ تھیلی پاکستان سے 2001 میں نقل مکانی تک میرے پاس موجود تھی۔ ) موجود نقدی زیورات لباس میں چھپائے۔ دونوں بھینسوں کے رسے کھولے۔ برقعے پہنے۔ ہمارے ہاتھ پکڑے۔ گھر کو تالا لگایا۔ ۔ ۔ اور ہم غلیلیں ہاتھ میں اور غلیلوں سے بھری جیبوں کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتے۔ خالی سنسان شہر کی گلیاں گزارتے۔ سکول کے بنے کیمپ میں آچکے تھے۔ ۔ ۔

اگلے دو یا تین ہفتے اس کیمپ کی زندگی کیا تھی۔ ۔ ۔ توفیق ملی تو اگلی قسط میں۔ ۔ ۔

نوٹ۔ ۔ ۔ سوچتا ہوں۔ پاکستان میں اب کتنے ہوں گے۔ لاکھوں ہجرت کر کے آنے والوں میں سے شاید چند سو یا ہزار دو ہزار۔ جو آگ اور خون کے ان لمحات سے گزرے اور ان کی یادداشت میں بھی نقش ہو اور وہ بیان بھی کر سکیں۔ گو ہم ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہیں۔ جو بفضل خدا احسن محفوظ طریق سے پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ۔ ۔ اس لئے نئی نسل تک اپنی یاد میں محفوظ ان لمحات کو پہنچا دوں۔ جو ساڑھے چھ سال سے کم عمر ہوتے بھی نقش ہیں۔ ۔ ۔ شاید آپ میں سے کچھ تو اس ملک کی قدر کرنے کی ضرورت کا ادراک کر لیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments