کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ: کیا سٹاک مارکیٹ پر حملے کا واحد مقصد پاکستان اور چین کے معاشی مفادات پر ضرب لگانا ہے؟


بی ایل اے

فائل فوٹو

شدت پسندوں کی جانب سے مارچ 1993 میں ہونے والے ممبئی حملوں کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ شہر میں موجود دیگر بہت سے اہداف کے ساتھ ساتھ ممبئی سٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نشانہ بنایا جائے۔

11 ستمبر سنہ 2001 میں امریکہ میں ہونے والے حملوں میں بھی معاشی سرگرمیوں کے محور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تہہ و بالا کرنا ہی شدت پسندوں کا بنیادی مقصد تھا۔

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی میں واقع پاکستان سٹاک ایکسچیج پر پیر کو ہونے والے ’ناکام حملے‘ کا مقصد ملک کی معیشت پر ضرب لگانا تھا۔

ماضی میں مختلف ممالک میں ہونے والے بہت سے دہشت گردانہ حملوں میں بھی حملہ آوروں کا ٹارگٹ معاشی سرگرمیوں کے مختلف بڑے مراکز رہے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر شدت پسند بعض اوقات اپنے روایتی اہداف کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے معاشی مراکز پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں، ان کے پس پردہ مقاصد کیا ہوتے ہیں اور کیا ایسے حملے ملکی معیشت کو سست روی کا شکار کر سکتے ہیں یا نہیں؟

بی بی سی نے سکیورٹی اور معاشی امور کے ماہرین سے بات کر کے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی

سٹاک مارکیٹ حملہ: ہلاک ہونے والے سکیورٹی گارڈ افتخار واحد جنھیں دو دن بعد ریٹائر ہونا تھا

پاکستان سٹاک ایکسچینج: چار حملہ آوروں سمیت سات ہلاک، بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کر لی

بین الاقوامی سطح پر تشہیر

سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک میں معاشی سرگرمیوں کے مراکز انتہائی مرکزی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ایسی جگہوں کو ٹارگٹ کرنے کا سب سے بنیادی مقصد کسی بھی گروہ کی جانب سے اپنے مقاصد اور نصب العین کی وسیع اور بین الاقوامی سطح پر تشہیر کرنا ہوتا ہے۔

تجزیہ نگار زاہد حسین بھی اس بات سے متفق ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر بڑے پیمانے پر پبلیسٹی حاصل کی جاتی ہے۔ ’جب بڑے ٹارگٹس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو خبر بڑی بنتی ہے۔ اس قسم کی کارروائیوں میں بڑے اہداف کا چناؤ دراصل اپنے پروپیگنڈا کو دور تک پھیلانے کی کوشش ہوتی ہے۔‘

سٹاک ایکسچینج

عامر رانا کہتے ہیں کہ اگر کوئی شدت پسندانہ کارروائی ملک کے کسی دور دراز چھوٹے شہر میں ہوتی ہے تو اس کو ملنے والی میڈیا کوریج اتنی نہیں ہو گی جتنی کسی بڑے شہر میں ہونے والی کارروائی کی، چاہے اس میں ہونے والا جانی اور مالی نقصان کم ہی کیوں نہ ہو۔

انھوں نے کہا جب عالمی میڈیا میں یہ رپورٹ ہو گا کہ پاکستان کی مرکزی سٹاک مارکیٹ پر حملہ ہوا ہے تو یہ بھی بتایا جائے گا کہ حملہ کرنے والے کون تھے اور ان کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔

’معیشت اور سرمایہ کاری کو مشکلات سے دوچار کرنا‘

گذشتہ روز پاکستان سٹاک مارکیٹ پر حملے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز سندھ ایم اے بخاری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج پاکستانی معیشت کی علامت ہے اور یہاں حملہ کرنے کا مقصد سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرنا اور پاکستان کا تاثر دنیا بھر میں غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کرنا شامل تھا۔‘

عامر رانا کہتے ہیں کہ ایسے حملوں کے بعد عموما سرمایہ کار کچھ عرصے کے لیے بہت محتاط ہو جاتے ہیں جس کا اثر یقینی طور پر معیشت پر پڑتا ہے۔ ’سرمایہ کاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور پرندوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر انھیں تھوڑا سا بھی شبہہ ہو جائے کہ وہ سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔‘

اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی کی ’مجید بریگیڈ‘ نامی تنظیم نے قبول کی ہے۔ بی ایل اے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’اس حملے کا مقصد پاکستان کی معیشت کو نشانہ بنانا تھا۔ پاکستان کی معیشت بلوچ قوم کی 72 سالہ استحصال اور نسل کشی پر کھڑی ہے اور کراچی سٹاک ایکسچینج اسی استحصالی معیشت کی ایک بنیاد اور علامت ہے۔‘

عامر رانا کہتے ہیں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری چین کی ہے اور مجید بریگیڈ کا قیام ہی اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ پاکستان میں موجود چین کے معاشی اہداف کو ٹارگٹ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان سٹاک ایکسچیج میں شنگھائی سٹاک ایکسچینج کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ چین نے مزید سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ اور اس جگہ پر حملہ کرنے کا مقصد چین کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے روکنا ہو سکتا ہے۔‘

بی ایل اے کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’یہ حملہ محض پاکستان کے معاشی مفادات پر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ چین کے بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے ردعمل میں چینی معاشی مفادات پر بھی ایک حملہ اور وارننگ ہے۔‘

پاکستان سٹاک ایکسچینج

پاکستان کی معیشت کے لیے اس کا مطلب؟

معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ کراچی سٹاک مارکیٹ پر حملے کے دوران اور اس کے بعد ٹریڈنگ جاری رہی تھی اور پیر کو دن کے اختتام پر 100 انڈیکس 247.3 پوائنٹس کے اضافے پر بند ہوا ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں کہ اگر پاکستان ترقی یافتہ ملک ہوتا تو سٹاک مارکیٹ پر حملہ یقیناً ملک کی معیشت کے لیے ایک بُرا پیغام ہوتا۔ ’پاکستان میں اس حملے کی معیشت کے لیے علامتی حیثیت تو ہو سکتی مگر حقیقت میں نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کا ملک کی اصل اکانومی سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سٹاک مارکیٹ کا حجم انتہائی مختصر ہے، آٹھ، نو بڑے کھلاڑی ہیں اور خاندان در خاندان چلنے والے بڑے بزنس سٹاک مارکیٹ میں لیسٹیڈ ہی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر اشفاق کے مطابق ’پاکستان میں بڑے کاروباری ادارے اور شخصیات اپنے کاروباری سٹیکس بازار حصص میں لاتے ہی نہیں ہیں۔ انھیں جب سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے وہ نجی بینکوں کے پاس چلے جاتے ہیں اور بینک بھی خوشی خوشی ان کو قرض فراہم کر دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے کاروبار بینک کے پاس جاتے ہیں جبکہ بڑے کاروبار بازارِ حصص میں مگر بہت سے جنوب ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہی حملہ کسی ترقی یافتہ ملک کی سٹاک مارکیٹ یا معاشی سرگرمیوں کے مرکز پر ہوتا تو اس کے نتائج ملکی معیشت میں ضرور جھلکتے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہو گا۔

بی ایل اے

فائل فوٹو

ہم خیال لوگوں کو متوجہ کرنا

سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بڑے شہروں، اہم مقامات اور معاشی مراکز کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کالعدم تنظیمیں ایسی کارروائیوں کے ذریعے ملک میں اور ملک سے باہر ہم خیال افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکیں اور ان سے مدد حاصل کر سکیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ مدد پیسے کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے، افرادی قوت کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستانی وزارتِ داخلہ کے مطابق پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی 76 جماعتوں میں سے 13 علیحدگی پسند جماعتوں کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ ان میں سے بلوچستان لبریشن آرمی علیحدگی پسندوں کی پہلی جماعت تھی جسے سنہ 2006 میں پاکستان نے کالعدم قرار دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp