متبادل کی تلاش


خواہشات کے گھوڑوں کی لگام صرف نظام فطرت کے ہاتھ ہے، ارادے ٹوٹ جاتے ہیں تو فہم قدرت سمجھ میں آتا ہے۔ اختیار اور اقتدار کی گلیوں میں ہر نکڑ پر موقع پرست گھات لگا کر بیٹھتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ سیاست اور حکومت محض طاقت کے بل بوتے نہیں بلکہ فہم و فراست سے چلتی ہے۔

پاکستان کی غیر سیاسی اشرافیہ ایک بند گلی میں جتنی اب ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اکہتر میں پاکستان دو لخت ہوا، پاکستان کے ہزاروں قیدی انڈیا کے ہاتھ ہتھیار کے طور آئے۔

ایک شکست خوردہ پاکستان وینٹلیٹر پر تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت اور کرشمہ ساز شخصیت نے پاکستان کو دلدل سے نکالا، نظام تنفس بحال ہوا تاہم جیسے ہی ملک پائیداری کی جانب بڑھا جمہوریت پر شب خون مارا گیا اور پاکستان کی اہل منتخب قیادت کو تختہ دار کے سپرد کر دیا گیا۔

اس عدالتی قتل نے پاکستان کو تاریخی کلنک کا وہ ٹیکہ لگایا جسے آج تک کوئی مٹا نہیں سکا۔

جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا کے نتائج ریاست پاکستان آج تک بھگت رہی ہے۔ اس دوران پرائی جنگوں کے حصہ دار بنتے بنتے اپنے دامن میں فرقہ واریت، دہشتگردی اور انتہاپسندی کی جو آگ سمیٹی گئی اُس نے پاکستان کی معاشرت اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

اُس دور کے اختتام سے پہلے محسوس کر لیا گیا کہ اگر ملک میں سیاسی حکومت کا وجود نہ لایا گیا تو عوامی غم و غصے کے سیلاب کے سامنے کوئی نہ ٹھہر پائے گا سو غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ من پسند حکومت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو بھی اُس وقت کے آمر کے ساتھ نہ چل سکے۔

بہرحال انتخابات کا اعلان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد نے بتا دیا کہ شفاف انتخابات میں عوام کا پلڑا پیپلز پارٹی کے ہاتھ ہو گا۔

چنانچہ سب نے دیکھا کہ کس طرح اٹھاسی کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعے ’جمہوری‘ ریشہ دوانیاں حاوی رہیں۔ آمریت کے بعد کا کمزور پاکستان اور اُس کی کمزوریوں کا ذمہ محض سیاسی حکومت کے حصے آیا۔ ہمیشہ کی طرح دوش صرف جمہوریت اور سیاسی حکومت کو دیا گیا۔

مشرف کے دور اقتدار میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو بے دخل کر کے دوبارہ کبھی سیاست میں نہ آنے دینے کا دعوی کرنے والوں کو اُسی بے نظیر بھٹو سے بات کرنا پڑی۔

یہ وہ وقت تھا جب مشرف ہی نہیں ادارہ بھی غیر مقبول ہو رہا تھا۔ کئی شواہد اور سیاسی مبصرین کے تبصرے موجود ہیں کہ کس طرح مشرف کے انتہائی قریبی طارق عزیز اور بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی محترمہ کے ساتھ رابطے میں رہے۔

بین الاقوامی قوتوں کی ضمانت میں ایک این آر او تشکیل پایا۔ اس این آر او کا فائدہ مشرف کے ساتھ ساتھ کس کس کو پہنچا یہ اب کوئی راز نہیں۔

سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی طاقتوں کو ایک فیس سیونگ اس وقت بھی مہیا کی۔ محترمہ شہید ہوئیں، پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ کمزور ملک ملا تاہم نتیجہ وہی ناکامی صرف سیاسی حکومت کے ہاتھ آئی اور جمہوریت کو پھر مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

گذشتہ بارہ سالوں میں سے گزرے دس سال پی پی پی اور ن لیگ نے سیاسی تدبر اور میثاق جمہوریت کے ثمرات کے تحت گزارے تاہم ایک بار پھر تبدیلی کا سٹیج سیٹ کیا گیا۔ کسی حد تک عوامی پذیرائی نے پچ تیار کی اور میڈیا نے حسب ذائقہ ماحول بنایا۔

دو ہزار اٹھارہ میں تبدیلی کے ذریعے تبدیلی کا جو تجربہ ہوا اُس نے قوم کو امید تو دی مگر اب ایک بار پھر مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس قدر مختصر وقت میں حالات کے بے قابو ہونے نے طاقت کے مراکز کو بھی کسی حد تک پریشان کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ’متبادل کی تلاش‘ اب مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے اور وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ اُن کے سوا کوئی چوائس موجود نہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ ’چوائس‘ سر دست موجود نہیں تاہم بااثر حلقوں کے لیے یہ ناممکن بھی تو نہیں۔

اب ایک بار پھر حالات فیصلہ سازوں کو اُسی مقام پر لے آئے ہیں جہاں آپشنز اور وقت دونوں محدود بلکہ اگر بروقت فیصلے نہ ہوئے تو مسدود بھی ہو سکتے ہیں۔

گذشتہ روز بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن نے شق نو کا سہارا لیا۔ تقسیم ہوئی اور ایک سو ساٹھ ووٹوں کی منظوری کے باوجود ایوان میں حکمران جماعت سادہ اکثریت نہ لا سکی۔ حکومتی حلقوں میں کس قدر اضطراب ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔

چاؤ سے لائی گئی تبدیلی نے گذشتہ دو سالوں میں معیشت، سیاست یہاں تک کہ معاشرت پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ عوام کے اندر بڑھتا ہوا لاوا طاقت ور حلقے ضرور بھانپ رہے ہیں۔ اس لاوے کی حدت کہاں کہاں پہنچے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم اب سارے پتے اپوزیشن کے ہاتھ ہیں۔

وقت اور حالات متقاضی ہیں کہ بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان گذشتہ گرمیوں میں میثاق جمہوریت میں توسیع کا جو خاموش معاہدہ طے پایا اسے دستاویز کی صورت تیار کیا جائے۔ کسی بھی قسم کی غیر سیاسی مداخلت کے راستے مسدود کرنے کے لیے دستاویز کو حتمی اور آئینی شکل دی جائے۔

نئے عمرانی معاہدے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے پارلیمان کو ہر قسم کی فیصلہ سازی کا محور عملی طور پر بنایا جائے۔ آئندہ ہفتے ہونے والے اپوزیشن کے کل جماعتی کانفرنس میں ایجنڈا ترتیب دے کر عوام کو نئی اُمید اور پروگرام دیا جائے تا کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے سے عوام کے غیض و غضب کو سیاسی راہ دی جائے نہ کہ انتشار کا انتظار کیا جائے۔

اپوزیشن، طاقت ور حلقوں اور خود حکومت کے لیے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).