مندر کی تعمیر: اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں ہندؤں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو بھی اسی طرح اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا حق ہے جس طرح پاکستان میں مسلمانوں کو ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے منگل کے روز اس مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

درخواست گزار چوہدری تنویر ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے نے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر کے سیکٹر ایچ نائن میں مندر کی تعمیر کے لیے جو اراضی فراہم کی گئی وہ غیر قانونی ہے۔

انھوں نے کہا کہ متعقلہ ادارے کی طرف سے نہ صرف غیر قانونی طور پر مندر کی تعمیر کے لیے اراضی فراہم کی گئی بلکہ اس کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے فنڈر بھی جاری کیے گئے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ اس مندر کی تعمیر سے ان کے حقوق مثاثر ہوئے ہیں جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ مذہبی طور پر تو ان کے حقوق متاثر نہیں ہوئے البتہ اسلام آباد کے شہری کی حثیت سے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کے بارے میں آواز اٹھانا ان کا بنیادی حق ہے۔

عدالتی بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کسی بھی انسان کے بنیادی حقوق میں آتے ہیں اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے علاقے سید پور گاؤں میں پہلے سے ہی مندر موجود ہے اور حکومت اس مندر کی تزین وآرائش کر سکتی ہے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ اگر آج ہندو برادری کے لیے مندر کی تعمیر شروع کر دی گئی تو کل دوسری اقلیتں بھی ایسے مطالبے کریں گے۔ چوہدری تنویر نے کہا کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالتیں کرائے کی دوکانوں میں ہیں اور متعقلہ حکام اس طرف توجہ دینے کی بجائے مندر کی تعمیر کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے ایچ نائن سیکٹر میں مسجد کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کرنے کا اعلان نہیں کیا جبکہ اس کے برعکس مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کر دیے گئے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ متعقلہ حکام سے پوچھا جائے ایچ نائن اور اس کے قریبی سیکٹرز میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کتنے افراد رہائش پذیر ہیں۔

عدالت نے درخواست گزار کی طرف سے اس مندر کی تعمیر فوری طور پر روکنے کے بارے میں حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی تاہم اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے سربراہ سمیت اس درخواست میں بنائے گئے فریقوں کو نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ عدالت کو مطمین کریں کہ اس مندر کی تعمیر سے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

اس درخواست میں وزیر اعظم عمران خان کو ان کے پرنسپل سیکرٹری کے علاوہ سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری مذہبی امور اور سی ڈی اے کے چیئرمین کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے کوئی مندر موجود نہیں ہے اور وفاقی داراحکومت میں رہنے والی ہندو برادری کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں جانا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا از سرنو جائزہ لے کر اس کو دوبارہ بنانے کے بارے میں ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ عدالت نے متعقلہ حکام کو یہ کام چھ ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا تھا تاہم ابھی تک یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp