کورونا وائرس: وزیر اعظم مودی کے ایک ارب ڈالر کے کووڈ 19 کے متنازع فنڈ پر اٹھتے سوالات


مودی

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ملک میں جاری کورونا وبا کے پیش نظر قائم کردہ ایک ارب ڈالر کا فنڈ اس وقت تنازعات کا شکار ہے اور اس کی شفافیت کے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس بارے میں مزید بتا رہی ہیں دہلی سے بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے چند دن بعد ہی 27 مارچ کو وزیر اعظم فنڈ برائے شہری امداد و ہنگامی حالات کے نام سے ایک ریلیف فنڈ قائم کیا۔ اسے ‘پی ایم کیئر’ یعنی وزیر اعظم احساس فنڈ بھی کہا گیا۔

فنڈ قائم کرنے کے ایک دن بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘تمام انڈین شہریوں’ سے اس فنڈ میں عطیات جمع کروانے کی درخواست کی۔

انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ یہ میری اپنے تمام شہریوں سے درخواست ہےکہ وہ اس پی ایم کیئر فنڈ میں عطیات جمع کروائیں۔’

انھوں نے قوم سے کہا کہ ان کے عطیات انڈیا کی کورونا کی وبا کے خلاف لڑائی میں مدد کریں گے اور مشکل میں آنے والے ‘اس طرح کے مشکل حالات’ کا مقابلہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ‘یہ ایک صحت مند انڈیا بنانے میں لمبا سفر طے کرے گا۔’

یہ بھی پڑھیے

’وزیر اعظم مودی طے کریں عوام کے ساتھ مذاق کرنا ہے یا انصاف‘

’غریبوں کی مدد کے لیے انڈیا کو بہت زیادہ فراخدلی دکھانے کی ضرورت ہے‘

پرینکا گاندھی، یوگی حکومت کی سیاست کے بیچ انڈین مزدور پس کر رہ گئے

انڈیا

انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی جانب سے اچانک ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد انڈیا کی غریب ترین آبادی سے تعلق رکھنےوالے لاکھوں مہاجر مزدورں نے شہروں سے نکلنا شروع کر دیا تھا

ان کے اعلان کے بعد سے ملک بھر کے صنعتکاروں، شوبز ستاروں، کپمنیوں سمیت عام آدمی کے جانب سے عطیات جمع کروانے کا عمل شروع ہوا اور ایک ہفتے کے دوران یہ خبریں سامنے آئیں کہ اس فنڈ میں 65 ارب روپے یعنی 858 ملین ڈالرز جمع ہو گئے ہیں۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس فنڈ میں جمع شدہ رقم کا حجم 100 ارب سے زائد ہے۔

لیکن پی ایم کیئر فنڈ اپنے آغاز سے ہی متنازع رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ جب ملک میں سنہ 1948 سے ہی’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ’ قائم ہے تو ایسے میں اس نئے فنڈ کی کیا ضرورت؟

انڈیا کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعت کانگرس کی رہنما سونیا گاندھی نے یہ تجویز دی کہ اس فنڈ میں جو رقم جمع ہوئی ہے اسے پہلے سے قائم کردہ پی ایم نیشنل ریلف فنڈ میں منتقل کر دیا جائے۔ کانگرس نے یہ تجویز بھی دی کے اس رقم کو مہاجروں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے۔

جس دن پی ایم کئیر فنڈ قائم کیا گیا تھا اسی دن انڈیا میں ایک بڑے اور سنگین انسانی بحران نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی جانب سے اچانک ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد انڈیا کی غریب ترین آبادی سے تعلق رکھنےوالے لاکھوں مہاجر مزدورں نے شہروں سے نکلنا شروع کردیا تھا۔ ہفتوں وہ افراد بھوکے پیاسے سینکڑوں میل پیدل سفر کرتے رہے تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں پہنچ سکیں۔ اس دوران 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔

یہ خیال کیا گیا کہ حکومت ان غریب مزدورں کی مدد کے لیے جنھیں مجبوراً سفر کرنا پڑا کچھ رقم خرچ کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور حزب اختلاف کے ایک رکن پارلیمان نے اس فنڈ کو ‘ وزیر اعظم کو کوئی احساس نہیں’ کا نیا نام دے دیا۔

اس فنڈ کے قائم ہونے کے ہفتوں بعد ہی اس کے متعلق سوالات اٹھنے شروع ہو گئے کے اس فنڈ کو کن قوانین کے تحت قائم کیا گیا، اس فنڈ کے انتظامی امور کس کے پاس ہیں، اس میں کتنی رقم اور کہاں کہاں سے اکٹھی ہوئی ہے اور اس رقم کو کہاں استعمال کیا جا رہا ہے؟

پی ایم کیئر فنڈ کی ویب سائٹ پر ان سوالوں سے متعلق کوئی جواب نہیں ہیں اور وزیر اعظم کا دفتر جو اس فنڈ کے انتظامی امور دیکھ رہا ہے نے اس متعلق کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اب حزب اختلاف کے سیاسی رہنما، آزاد سماجی کارکن اور صحافی یہ سوالات پوچھ رہے ہیں کہ کیا حکومت کچھ چھپا رہی ہے؟

اس فنڈ کی شفافیت اور اس کے متعلق مزید تفصیلات کے حصول کے لیے عدالتوں میں رائٹ ٹو انفارمیشن یعنی معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت درخواستیں دائر ہو رہی ہیں۔

تاہم ابھی تک حکومت اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پی ایم کئیر فنڈ کوئی عوامی ادارہ نہیں ہے کسی بھی قسم کی عوامی سکروٹنی سے بچا ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فنڈ کے انتظامی امور یا اس کی مالی اعانت حکومت نہیں کرتی لہذا یہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومتی آڈیٹر اس کے چھان بین نہیں کر سکتے۔

انڈیا

اس فنڈ کے قائم ہونے کے ہفتوں بعد ہی اس کے متعلق سوالات اٹھنے شروع ہو گئے کے اس فنڈ کو کن قوانین کے تحت قائم کیا گیا، اس فنڈ کے انتظامی امور کس کے پاس ہیں، اس میں کتنی رقم اور کہاں کہاں سے اکٹھی ہوئی ہے اور اس رقم کو کہاں استعمال کیا جا رہا ہے؟

کاندوکری شری ہرش نامی ایک قانون کے طالب علم نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ کہنا بہت معیوب ہے کہ پی ایم کئیر فنڈ ایک عوامی ادارہ نہیں ہے۔’ وہ کہتے ہیں کہ ‘لاکھوں افراد نے یہ سوچ کر اس میں عطیات جمع نہیں کروائے کہ یہ کوئی نجی ٹرسٹ ہے، یہ رقم وزیر اعظم کے نام پر جمع کی گئی ہے۔’

کاندو کاری ان پہلے افراد میں سے ہیں جنھوں نے اس فنڈ کے متعلق معلومات کی رسائی کے قانون کے تحت جاننے کے لیے عدالت میں یکم اپریل کو درخواست دائر کی تھی۔ انھوں نے اپنی درخواست میں اس ٹرسٹ کے قیام اور اس کے چلانے کے متعلق سوالات پوچھے ہیں۔

وہ وزیر اعظم کے اس فنڈ کو عوامی ادارہ ہونے کے لیے متعدد دلیلیں پیش کرتے ہیں

  • اس فنڈ کے انتظامی امور حکومت چلا رہی ہے، وزیر اعظم خود اس کے سربراہ ہیں، ان کی کابینہ کے تین افراد اس کے ٹرسٹی ہیں جبکہ تین دیگر ٹرسٹی بھی وزیر اعظم کے نامزد کردہ ہیں۔
  • پی ایم کیئر فنڈ کی ویب سائٹ ہوسٹنگ ‘جی او وی ڈاٹ ان’ پر ہے جو سرکاری ڈومین ہے۔
  • یہ فنڈ انڈیا کا قومی نشان استعمال کرتا ہے جو کہ صرف سرکاری اداروں کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
  • اس کی مالی اعانت حکومت کرتی ہے کیونکہ حکمران جماعت بی جے پی کے تمام اراکین اسمبلی کو اس میں اپنے حلقے کے فنڈ میں سے دس ملین روپے جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔ اراکین پارلیمان کے حلقے کے فنڈ ایک آئینی فنڈ ہیں۔ اسی طرح بہت سی سرکاری کپمنیوں جن کے انتظامی امور حکومت کے پاس ہیں اس میں عطیات ہزاروں لاکھوں روپے جمع کروانے کا کہا گیا جبکہ فوجی اہلکاروں، ججوں اور سول سرونٹس کی ایک دن کی تنخواہ اس میں جمع کروانا بھی لازمی قرار دیا گیا تھا۔

کاندوکاری کا کہنا ہے کہ ‘اب حکومت اس میں روڑے کیوں اٹکا رہی ہے، حکومت اس میں کیا چھپا رہی ہے؟’

سماجی کارکن اور سابق صحافی ساکت گوکھلے کہتے ہیں کہ بہت کچھ ایسا ہے جو حکومت چھپا رہی ہے۔ وہ اس فنڈ کو حکومت کی کمزوری قرار دیتے ہوئے اسے بہت بڑا غبن قرار دیتے ہیں۔’

وزیر اعظم مودی کے پارٹی کے ساتھیوں نے اس فنڈ سے متعلق کسی بھی قسم کی ہیرا پھیری سے انکار کیا ہے۔

حال ہی میں ہفتوں کے سوالات کے بعد کہ اس رقم کو کہاں اور کیسے خرچ کیا گیا وزیر اعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ 20 ارب روپے ملک میں 50 ہزار وینٹی لیٹرز خریدنے کے لیے، دس ارب روپے مہاجروں کی فلاح و بہبود کے لیے جبکہ ایک ارب روپے کورونا کی ویکسین کی تیاری میں خرچ کیے گئے ہیں۔

تاہم مہاجر مزدورں کے لیے مختص کی گئی رقم پر ‘بہت کم اور بہت دیر سے اقدامات’ کرنے کی تنقید کے ساتھ ساتھ وینٹی لیٹرز کے انتخاب پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

گوکھلے کا دعوی ہے کہ ‘وینٹی لیٹرز کی خریداری کے لیے حکومت نے نہ کوئی اشتہار دیا نہ ہی ٹینڈر پاس کروایا، نہ کوئی بولی لگی اور نہ ہی کوئی مسابقتی طریقہ کار اپنایا گیا۔’

اور گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی کے بنائے گئے دو حکومتی پینلزز نے پی ایم کیئر فنڈ کے تحت خریدے گئے 10 ہزار وینٹی لیٹرز کی صلاحیت اور پائیداری پر خدشات کا اظہارکیا ہے۔

مسٹر گوکھلے نے وزیر اعظم فنڈ کا آڈٹ کرنے کے لیے منتخب کردہ نجی کمپنی، سارک اینڈ ایسوسی ایٹس کے انتخاب پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اس کپمنی کو وزیر اعظم مودی نے پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ کا آڈٹ کرنے کے لیے مارچ 2018 میں بغیر کسی بولی کے بغیر منتخب کیا تھا۔

گوکھلے کہتے ہیں کہ ‘صرف ایک چیز سے اس کا بی جے پی سے قریبی تعلق جوڑتا ہے اور وہ ہیں ایس کے گپتا، وہ بی جے پی کی پالیسیوں کے حمایتی ہیں اور انھوں نے ‘میک ان انڈیا’ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو وزیر اعظم مودی کا منصوبہ تھا، اور وہ بیرون ملک حکومتی تقاریب کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اور انھوں نے وزیر اعظم کے احساس فنڈ میں دو کروڑ روپے عطیہ بھی جمع کروایا تھا، یہ تمام محرکات مشتبہ آڈٹ کے خدشات پیدا کرتے ہیں۔’

ایس کے گپتا نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ کے ذریعے ذاتی طور پر دو کروڑ عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جب بی بی سی نے ان سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ سارک اینڈ ایسوسی ایٹس پر الزام ہے کہ اس آڈٹ کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ اس کے وزیر اعظم مودی کی جماعت بی جے پی کے ساتھ تعلقات ہیں تو انھوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

انڈیا

گوکھلے کا دعوی ہے کہ ‘وینٹی لیٹرز کی خریداری کے لیے حکومت نے نہ کوئی اشتہار دیا نہ ہی ٹینڈر پاس کروایا، نہ کوئی بولی لگی اور نہ ہی کوئی مسابقتی طریقہ کار اپنایا گیا۔’

بھاتیہ جنتہ پارٹی کے ترجمان نالین کوہلی اس فنڈ کا دفاع کرتے ہیں۔

نالین کوہلی کا کہنا ہے کہ پہلے سے قائم کردہ پی ایم نیشنل ریلف فنڈ عمومی طور پر قدرتی آفات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور پی ایم کیئر فنڈ قائم کرنے کا مقصد وبا سے نمٹنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے قائم کیا تھا اور کانگرس اس کی ٹرسٹیوں میں سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں تو ایسے میں صرف ایک سیاسی جماعت ہی کسی ایسے منصوبے کا حصہ کیوں بنے جس میں عوامی مقاصد کے لیے عوام کا پیشہ شامل ہو۔’

ان کا کہنا تھا کہ پی ایم کیئر فنڈ میں وزیر اعظم مودی اور ان کے اعلیٰ وزرا اس لیے شامل ہیں کیونکہ ان کے پاس عہدے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ کسی جماعت کے نمائندے ہیں۔

کوہلی اس فنڈ کی شفافیت پر اٹھنے والے اعتراضات کو بھی مسترد کرتے ہیں اور وہ زور دیتے ہیں کہ سارک اینڈ ایسو سی ایٹس کو اس فنڈ کا آڈٹ کرنے کے لیے میرٹ پر منتخب کیا گیا ہے۔ اور یہ کہ فنڈ کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ فنڈ کے بارے میں خدشات حزب اختلاف کے منتخب افراد نے اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک نیا فنڈ ہے ، ایسے وقت میں عوامی احتساب کی کیا فوری ضرورت ہے جب ہر شخص وبائی مرض سے لڑنے میں مصروف ہو؟’

لیکن وزیر اعظم مودی کے اس فنڈ کی شفافیت کے بارے میں سوالات صرف حزب اختلاف کی جماعتوں نے ہی نہیں اٹھائیں بلکہ انڈیا کی سپریم کورٹ کے وکیل سریندر سنگھ ہودا نے دہلی کی ہائی کورٹ میں اس کے متعلق ایک درخواست بھی جمع کروائی ہے۔

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس فنڈ کے انتظامی امور چلانے والوں کی جانب سے معلومات فراہم نہ کرنا ‘ناقابل ادراک و فہم’ہے۔

سریندر سنگھ کو اپنی درخواست واپس لینا پڑی کیونکہ قانون کے مطابق انھوں نے درخواست دینے کے قبل اس کی معلومات کے حصول کے لیے وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ تاہم اب انھوں نے وزیر اعظم کے دفتر کو سوالات ای میل کر دیے ہیں اور جوابات نہ آنے کی صورت میں وہ دوبارہ عدالت میں درخواست جمع کروانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ’ میں چاہتا ہوں کہ وہ یہ معلومات اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کریں کہ انھوں نے کتنی رقم اکٹھی کر لی ہے اور اسے کہاں خرچ کیا ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ تاریکی ہی برائی کو جنم دیتی ہے اور روشنی دھندلا پن ختم کر کے شفافیت کو جنم دیتی ہے جو قانون کی بالادستی کی اساس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp