کیا جسم فروشی قانونی ہونی چاہیے؟


جسم فروشی دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ آیا یہ مجبوری ہے یا اپنا انتخاب ہے؟ اب اگر جسم فروشی ایک پیشہ ہے تو اسے ایک پیشے کے طور پر ہی کیوں نہیں لیا جاتا؟ اور اگر یہ ایک برائی ہے تو اسے مٹایا کیوں نہیں جاتا؟ اور اگر یہ جرم ہے تو اب تک جاری کیسے ہے؟

یہ پیشہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی نا پسندیدہ اور ظالمانہ ہے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کہا جاتا ہے۔ اس ظلم کا شکار عورت ہی ہوتی ہے۔ گو کہ کہیں کہیں مرد بھی جسم فروشی کرتے ہیں لیکن یہاں بات صرف عورت کی ہو گی۔  کیا جسم فروشی واقعی ایک پیشہ ہے؟ کیا یہ باہمی مرضی کا لین دین کا معاملہ ہے؟ کیا یہ بالکل دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہی ہے؟ کیا اسے پیشہ عورتیں اپنی پوری آزادی اور مرضی سے اپناتیں ہیں؟ کیا کبھی کوئی عورت یہ کہے گی کہ اسے بچپن سے ہی سیکس ورکر بننے کا شوق تھا؟ جیسے کہ کسی کو ڈاکٹر، ٹیچر یا گلوکار بننے کا شوق ہوتا ہے؟ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کے لیئے کسی تعلیم یا باقاعدہ ٹرینینگ کی ضرورت نہیں اور قدیم زمانوں سے لے کر آج کی ترقی یافتہ دور میں بھی رائج ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ اگر جسم فروشی ایک پیشہ ہے تو کیا جسم فروشی کو قانونی حثیت دے دینی چاہیئے؟۔ اس پر دو بڑی واضح اور مختلف آرا ہیں۔ اس کی تایئد میں بھی اور مخالفت میں بھی۔ دونوں اپنی اپنی دلیلیں دیتے ہیں۔

اس کے حق میں کہنے والے کہتے ہیں کہ اس قانونی قرار دینے سے جرائم میں کمی آ سکتی ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا مستقل بنیاد پر میڈیکل چیک اپ ہوگا اور وہ بیماریوں سے بچیں گے۔ ان کے کاروبار کی جگہیں چیک ہوں گی اور حفظان صحت کے اصولوں پر چل کے سیکس ورکرز صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں گے۔۔ جب یہ پیشہ قانونی دائرہ میں آ جائے گا تو دھندا کرنے والے ٹیکس بھی ادا کریں گے یوں حکومت کو مالی فائدہ ہو گا۔ جب بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں رجسٹر ہوں گے تو عورت پر ظلم اور تشدد نہیں ہو سکے گا۔ جنس کے خریدار جنونی بھی ہو سکتے ہیں اور عورت کو ان سے خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ رجسٹر ہونے کی صورت انہیں پکڑا جا سکتا ہے۔ سیکس بیچنے والوں کا ڈیٹا بھی ہوگا اور ان کی عمروں کا تعین بھی کیا جا سکے گا۔ جب یہ پیشہ قانونی چھتری کے نیچے آ جائے گا تو سیکس ورکرز اس بات کی شکایت نہیں کر سکیں گے کہ ان سے یہ کام زبردستی لیا جا رہا ہے۔ بیماری کی صورت میں حکومتی مراعات مل سکیں گی اور جب کام کرنے کے قابل نہ رہیں تو پنشن کی حقدار بھی ہو سکیں گی۔ یوں انہیں ایک تحفظ حاصل ہو جائے گا۔

سیکس کے پیشہ کو غیر قانونی قرار دینے سے یہ سلسلہ بند نہیں ہو جائے گا۔ سیکس بکتی اور خریدی جاتی رہے گی۔ جب تک ڈیمانڈ ہے سپلائی بھی رہے گی۔ سیکس ورکرز غیر محفوظ، گندے اور خطرناک ماحول میں یہ کام جاری رکھیں گے۔ کم عمر لڑکیاں اور چھوٹے بچے تک محفوظ نہ رہیں گے۔ جب اس پیشے کے قواعد طے ہو جائیں گے تو عورت کو یہ تحفظ بھی حاصل ہو گا کہ وہ محفوظ سیکس کا مطالبہ کرے اور اس طرح ایچ۔ آئی۔ وی کی بیماری کی بھی کافی حد تک روک تھام ہو سکے گی۔ سیکس کے کاروبار کو قانونی شکل دینے کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے منشیات کا استعمال اور شرح جرم کم ہو جائے گی۔

اس پیشے کو قانونی تحفظ دینے کی مخالفت میں بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان کے اپنے بڑے ٹھوس دلائل ہیں۔ سب سے پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ یہ کام عورت کے سب سے بنیادی حق کی تلفی کرتا ہے۔ جسم فروشی مرضی سے اپنایا پیشہ نہیں، یہ مجبوری کا سودا ہے۔ عورت اس مجبوری کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ اس کی کمزوری، تعلیم اور ہنر کا نہ ہونا، بے کس اور تنہا ہونا، غربت، ریاست کی جانب سے کوئی معاشی تحفظ نہ ملنا۔ گھریلو ذمے داریاں باعث بنتی ہیں کہ عورت اس کام کو پیشے کے طور پر اپنا لے۔ جسم فروشی فوری کمائی کا ذریعہ ہے۔

یہاں دلال کا کردار بھی ہوتا ہے۔ یہ دلال عام طور پر ظالم اور پورا کنٹرول رکھتے ہیں۔ ورکر کی بیشتر آمدنی ان کی جیبوں میں جاتی ہے۔ سیکس ورکرز گھٹے ہوئے اور غیر معیاری تنگ جگہوں پر رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ وہ اس زندگی سے نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتیں۔ اس کے ساتھ نشے آور چیزوں کا استعمال اور جنسی بیماریوں کا ایک ہولناک سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ سیکس ورکر کو اکثر جسمانی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے دلالوں کے ہاتھ بھی اور گاہکوں کے ہاتھ بھی۔ اس برائی کے معاشرے پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

انسانی ٹریفکنگ بڑھ گئی ہے۔ غریب ملکوں سے کم عمر لڑکیوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ انہیں ایک اچھی زندگی کے خواب دکھا کر ان کا بھرپور استحصال کیا جاتا ہے۔ پریٹی وومن جیسی فلمیں پروسیٹیوشن کو گلیمریائزڈ کرتی ہیں لیکن اصلی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی عورت جو جسم فروشی کرتی ہے کبھی نہیں کہہ سکتی کہ اسے اپنا کام بہت پسند ہے اور اس میں وہ خوشی محسوس کرتی ہے۔ یہ عورتیں جنسی غلام ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا بامشفت کام ہے جس سے جسم ہی نہیں، دل،  دماغ اور روح تک زخمی ہو جاتی ہے۔ پورن فلموں میں اداکاری کرنا یا نائٹ کلب میں ایک پول سے لپٹ چپک کر ہیجان انگیز رقص کرنا بھی اپنی مرضی اور پسند کا کام نہیں ہو سکتا۔ اس لیئے اس گھناونے کاروبار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے لیئے سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور کڑی سزائیں رکھی جایں۔

یہ وہ دو آرا ہیں جو جسم فروشی کو قانونی بنانے کے حق یا مخالفت میں سامنے آئی ہیں۔

جسم فوشی کو کم کرنے اور عورتوں کو تحفظ دینے کے لیئے اسکینڈےنیویا کے ممالک نے ایک پلان ترتیب دیا۔ اسے نورڈک ماڈل کہا جاتا ہے۔ اس میں سویئڈن، ناروے،ڈنمارک،آیئس لینڈ، کینیڈا، شمالی آیئر لینڈ،فرانس، ریپبلیک آف آیئر لینڈ شامل ہیں اور اب ایک نیا رکن بھی شامل ہونے جا رہا ہے اسرایئل۔ اس میں ایک قانون بنایا گیا ہے جس کے تحت سیکس خریدنا جرم ہے۔ لیکن سیکس بیچنا جرم نہیں۔ یہ بات کچھ سمجھ میں نا آنے والی لگتی ہے۔ لیکن یہ عورت کو تحفظ دینے کے لیئے بنایا گیا ہے۔ اگر سیکس کی خرید و فروخت دونوں غیر قانونی قرار دے دی جائیں تو خریدنے والا مرد اور بیچنے والی عورت دونوں مجرم ہوں گے اور دونوں کو سزا ہو سکتی ہے۔ اس لیے اب مرد سیکس کی خرید سے خود کو بچاتے ہیں۔ کونکہ اس کاروبار میں وہ ہی مجرم ہوں گے۔ اور جب خریدنے والے نہ ہوں گے تو دوکان بھی بند ہو جائے گی۔ نورڈک ماڈل کی بنیاد چار ستونوں پر ہے۔

1۔ سیکس کی خریداری کو غیر قانونی بنا دیا جائے۔

2۔ جسم فروشی کرنے والیوں کو امتیازی سلوک سے بچایا جائے۔

3۔ ان عورتوں کو اس کام کو چھوڑنے اور اس انڈسٹری کے چنگل سے نکلنے میں مدد دی جائے۔

4۔ سیکس ورکرز کو تعلیم اور صحت کی آگاہی اور سہولت مہیا کی جائے۔

اس پلان کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ سیکس خریدنے والے کو سزا دے کر سیکس کی اس ڈیمانڈ کو کم کیا جائے۔

نورڈک ماڈل نورڈک ملکوں نے ترتیب دیا اور کئی دوسرے ملکوں نے اسے اپنایا۔ نورڈک ملک امیر ملک ہیں۔ یہاں لوگوں کا معیار زندگی بلند ہے اور ریاستیں فلاحی ہیں۔ یعنی تعلیم، صحت اور پینشن کی سہولیتیں مہیا ہیں۔ اور یہ نظام شہریوں کے ٹیکس سے چلتا ہے۔ اس کے باوجود اگر یہاں جسم فروشی ہوتی ہے تو اسے عورت پر دباؤ سمجھا جاتا ہے۔ اور ان عورتوں کو اس مجبوری سے نکلا کر کارآمد شہری بنانے کا فرض ریاست اپنا تصور کرتی ہے۔ غریب ملک جو معاشی بحران کا شکار ہیں اور ریاست آئین کے تحت شہریوں کی ذمہ دار تو ہے لیکن یہ فرض ادا کرنےسے قاصر ہے ان کے لیئے یہ ماڈل اپنانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔

دنیا کے پندرہ ممالک میں جسم فروشی آزاد اور قانونی ہے۔ ان میں نیدر لینڈ، نیو زی لینڈ۔ آءسٹریلیا، آسٹریا، بلجیم، برازیل، کینیڈا، کولمبیا، فرانس، جرمنیی اور یونان شامل ہیں۔ اور حیرت انگیز طور پر انڈونشیا اور بنگلا دیش بھی۔ ان دونوں مسلم ملکوں میں کم عمر سیکس ورکرز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بنگلا دیش میں صرف مردوں پر جسم فروشی کی ممانعت ہے عورتوں کو آزادی ہے، اور دلال اور اڈے چلانے والوں پر بھی کوئی بندش نہیں۔ انڈیا میں جسم فروشی پر کوئی پابندی نہیں لیکن دلالی اور اڈے چلانا خلاف قانون ہیں۔

ایران میں جسم فروشی ممنوع ہے اور قانون میں اس کی سخت سزایئں ہیں جن میں جرمانہ اور جیل شامل ہے۔ اگر دوبارہ یہی جرم کیا جائے تو موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم بغیر شادی کے جنسی تعلقات کو قانونی اور مذہبی تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ نکاح المتعہ جسے ایران میں صیغہ کہا جاتا ہے وقتی سیکس کو حلال کر دیتا ہے۔ اس نکاح کی کوئی مدت نہیں اس کی مدت تین دن سے لے کر نوے سال سے تک بھی ہو سکتی ہے۔ ایران کے چند علما کا خیال ہے کہ متعہ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگ اپنی جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ جبکہ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس کے ساتھ کچھ اصول بھی ہیں۔ یعنی عورت کا حق مہر اور طلاق کی صورت میں عورت پر عدت کا حکم۔ اتنی سختی کے باوجود ایران میں جسم فروشی بڑھ رہی ہے۔ سڑکوں کے کنارے کھڑی نوجوان حسین لڑکیاں اور ان کے پاس رکتی گاڑیاں بہت کچھ بیان کرتی ہیں۔ ایک ایرانی اخبار انتخاب کے مطابق اس وقت صرف تہران مییں جسم فروشی کرنے والی وں کی تعداد 80 ہزار سے اوپر ہے۔

پاکستان میں جسم فروشی کاغذات میں قطعی ممنوع ہے۔ اور یہ نا صرف جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے آیئن کا آرٹیکل 37 کے مطابق جسم فروشی اور جوا ممنوع ہوگا اور اس کی روک تھام کی جائے گی۔

قیام پاکستان سے پہلے مغلوں کے دور میں یہ منڈیاں کوٹھے قائم تھے۔ جہاں نسوانی پیکر بن سنور گانے بجانے کی محفل بپا کرتیں۔ اور ساتھ ہی سیکس بھی۔ اردو ادب میں ان کرداروں کو رومانی بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ امراو جان ادا اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ شاعری میں بھی ان کا ذکر رہا ہے۔ انگریزی استعمار کے زمانے میں اس دھندے کی جانچ پڑتال ہوتی رہی۔ اور اس سے تعلق رکھنے والیوں کی صحت و صفائی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ انگریز سے آزادی کے بعد انڈیا اور پاکستان میں طوائف کے کردار پر فلمیں بننے لگیں۔ اچھی اور بری طوائف کے کردار تراشے جانے لگے۔ کہیں اسے ایک مجبور، بے بس لیکن محبت میں ڈوبی ہوئی قربانی کے جذبے سے سرشار دکھایا گیا اور کہیں ایک لالچی، گھر تباہ کرنے والی مکار عورت کے روپ میں۔ حقیقت ان دونوں انتہاوں کے درمیان کہیں کھو گئی۔ فلموں میں طوائف کا کردار اور مجرا فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔

پاکستان لاہور کا مشہور ریڈ لایئٹ ایریا ہیرا منڈی کہلاتا تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ ہوا کرتی تھی۔ جہاں نئے نئے جوان ہوئے لڑکے اور لاٹھی ٹیکتے بڑے میاں تک سب ہی آتے۔ یہاں گانے بجانے کی محفلیں اور مجرے وغیرہ ہوتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ جسم فروشی کا کاروبار بھی چلتا تھا۔ جب یہ اور اس قسم کی دوسری جگہیں بند کر دی گیں تو یہ لوگ اپنے مخصوص علاقوں سے نکل کر عام محلوں میں جا بسے۔ کوٹھوں سے کوٹھیوں میں منتقل ہو گئے۔  موسیقی کا فن ختم ہو گیا اور صرف جسم فروشی باقی رہ گئی۔ جن کی استعداد کم تھی وہ سڑکوں کے کنارے گلیوں کے موڑ پر کھڑی ہونے لگیں۔ جسم فروشی کو یہاں عصمت فروشی بھی کہا جاتا ہے یعنی عورت اپنی عزت اور عصمت کا سودا کر رہی ہے۔ مرد کی عزت پر کوئی حرف نہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیکس ورکرز کی تعداد 15 لاکھ ہو گئی ہے۔ ان سیکس ورکر خواتین میں مقامی ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش، بھارت، برما، افغانستان اور روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں۔

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جسم فروشی کے پیشے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان جسم فروش عورتوں میں بڑی تعداد غربت کے باعث، کچھ دھوکے اور فریب کے نتیجے میں کچھ وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں اب ان میں کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی مرضی سے پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جسم فروشی کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور اسی تیزی سے ایچ۔ آئی۔ وی اور دوسری بیماریاں بھی۔

کیا اس صورت حال کی ذمہ داری عورتوں پر ڈالی جا سکتی ہے کہ وہ کیوں یہ کام کرتی ہیں؟ اکثر کہا جاتا ہے کہ عورت محنت مزدوری کر کے یا گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر کے بھی روزی کما سکتی ہے۔ لیکن کیا کہا جائے کہ محنت مزدوری اور گھریلو ملازمہ کے طور پر بھی اسے یہی کام کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹی بچیاں بھی محفوظ نہیں۔ غربت، جہالت، معاشی بد حالی، بے ہنری، سر پرست کا نہ ہونا، اپنوں کا منہ موڑ لینا،گھر سے بھاگنا اور صنفی امتیازی سلوک وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے عورت اس کام پر مجبور کر دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments