سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس سے علیحدگی کا اعلان کیوں کیا؟


مقبوضہ کشمیر میں سب سے سینیئر حریت رہنما سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کی سربراہی چھوڑتے ہوئے حریت کانفرنس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مختصر آڈیو پیغام میں بتایا کہ ”کل جماعتی حریت کانفرنس کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس فورم سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہوں، اس ضمن میں فورم کی تمام اکائیوں کو ایک تفصیلی خط کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے“ ۔ اس آڈیو پیغام کے ساتھ ہی سوشل میڈیا میں سرکولیٹ ہونے والے دو صفحات کے خط میں سید علی گیلانی نے اپنے فیصلے کی وجوہات بیان کی ہیں۔

خط کے مطابق انہوں نے کہا کہ ”کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ محض ایک نمائندہ فورم ہے اسے انفرادی یا اجتماعی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ مختلف نوعیت کی شکایات پر ہونے والی تحقیقات پر ملوث چند نمائندوں کو برطرف کیا گیا۔ آزاد کشمیر شاخ کے فورم میں شفافیت اور احتساب کے عمل سے بچنے کے لئے اکائیوں کے نمائندوں نے کنوینر سے عدم تعاون اور پروپیگنڈا مہم شروع کر دی اور ایک متوازی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا۔ حریت کانفرنس ( مقبوضہ کشمیر ) کے رہنماؤں نے حریت کانفرنس آزاد کشمیر میں موجود اپنے نمائندوں کی سرزنش کرنے کے بجائے سرینگر میں اپنے طور پر شوری کا اجلاس منعقد کر کے حریت فورم آزاد کشمیر کے اپنے نمائندوں کے فیصلے کی تصدیق کی اور اس اجلاس کو میری ہدایت کی طرف منسوب کر کے سازش اور جھوٹ کا سہارا لیا گیا، جبکہ میں نے ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی تھی“ ۔

گیلانی صاحب نے خط میں مزید کہا کہ گزشتہ برس مقبوضہ ریاست سے متعلق بھارت کے اقدام کے لئے سب کو یرغمال بنا کر سبھی چھوٹے بڑے قائدین، کارکنوں وکلاء، طلبہ کے ہمراہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر کے بیرون ریاست جیلوں میں پہنچا دیا گیا۔ لیکن جو قیادت جیل خانوں سے باہر تھی، ان سے توقع تھی کہ وہ عوام کی حوصلہ افزائی، رہنمائی کا فرض ادا کریں گے۔ تاریخی قدغنوں اور زیر حراست ہونے کے باوجود میں نے آپ حضرات کو بہت تلاش کیا، پیغامات کے ذریعے، رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی لیکن کوئی بھی کوشش بار آور ثابت نہیں ہو سکی اور آپ تلاش بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوئے۔

مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل پیش کرنے اور ان حالات میں قوم کی نمائندگی کرنے میں نہ میری صحت اور نہ ہی ایک دہائی کی حراست میرے حائل ہوئی۔ آج جب آپ کے سروں پر احتساب کی تلوار لٹکنے لگی، جوابدہی کی تپش محسوس ہونے لگی، مالی بے ضابطگیوں پر پردہ سرکنے لگا اور اپنے منصب چھن جانے کا خوف طاری ہوا تو وبائی مارا ماری اور سرکاری بندشوں کے باوجود آپ حضرات نام نہاد شوری اجلاس منعقد کرنے کے لئے جمع ہوئے اور اپنے نمائندوں ( آزاد کشمیر /پاکستان) کے غیر آئینی فیصلے کی حمایت اور تصدیق کر کے یکجہتی اور یکسوئی کی انوکھی مثال قائم کی اور اس ڈرامے کو اپنے چہیتے نشریاتی اداروں کے ذریعے تشہیر دے کر انہیں بھی اس ”گناہ بے لذت“ میں شریک کیا گیا ”۔

سید علی گیلانی نے مزید لکھا کہ ”فورم (آزاد کشمیر) کی کارکردگی اور بے ضابطگیوں کو اکثر تحریک کے وسیع تر مفاد کے لبادے میں نظر انداز کیا گیا۔ حکومتی عذاب و عتاب، مسلسل گرفتاریاں، معاشی بدحالی اور ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے جوابدہی کا سخت اور متوقع نظام قائم نہیں ہو سکا لیکن آج آپ ( کل جماعتی حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں شامل تنظیمیں ) تمام حدود و قیود کو پامال کر کے نظم شکنی ہی نہیں بلکہ قیادت سے کھلی اور علانیہ بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں“ ۔

سید علی گیلانی نے کل جماعتی حریت کانفرنس جموں وکشمیر سے مکمل علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آپ تمام حضرات ( مقبوضہ کشمیر حریت میں شامل تنظیموں کے رہنما) اپنے لئے فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔ انہوں نے بھارتی استعمار کے خلاف بدستور نبرد آزما رہنے اور قومی کی رہنمائی کا حق حسب سابق ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ سید عبداللہ گیلانی آزاد کشمیر اور بیرونی ممالک کے لئے بدستور میری نمائندگی کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

حریت کانفرنس میں دھڑے بندی شروع سے ہی چلی آئی ہے۔ کافی عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کے نام سے علی گیلانی گروپ اور میر واعظ گروپ، چند چند جماعتوں کے ساتھ الگ الگ رہے۔ سابق ادوار میں ایسا بھی ہوا کہ کبھی حریت کا ایک گروپ پاکستان انتظامیہ کا پسندیدہ رہا اور کبھی دوسرا گروپ۔ چند سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے حریت رہنماؤں کے خلاف ” این آئی اے“ کی تحقیقات کے نام پر گرفتاریوں اور مقدمات کا سلسلہ شروع کیا تو اسی وقت سے ”جائنٹ ریزسٹینس لیڈر شپ“ کے نام سے تین رکنی قیادت سامنے آئی جس میں حریت کے دونوں گروپوں کے سربراہان کے ساتھ کسی گروپ میں نہ شامل رہنے والے یاسین ملک پر مشتمل تھا۔

خط کے مطابق سید علی گیلانی کی طرف سے حریت کانفرنس کی سربراہی سے علیحدگی کا یہ فیصلہ حریت کانفرنس میں موجود تنظیموں کے رہنماؤں کے طرز عمل کے تناظر میں کیا ہے۔ جبکہ وجہ تنازعہ حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان کے نمائندگان کا باغیانہ طرز عمل اور مقبوضہ کشمیر میں ان نمائندوں کی تنظیموں کے رہنماؤں کی طرف سے ان کی حمایت اور پشت پناہی سامنے آتی ہے۔

حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر کے رہنما آزادی کی تحریک مزاحمت میں سیاسی نمائندگی کا کردار بطریق احسن، موثر طور پر ادا نہیں کر سکے۔ حریت تنظیموں کے درمیان اتحاد کا ڈھیلا ڈھالا نظام ہونا اس سیاسی پلیٹ فارم کے غیر موثر ہونے میں بنیادی وجوہات کے طور پر نمایاں ہے۔ حریت کانفرنس کے اتحاد ”ڈھیلے ڈھالے“ کیوں رہے؟ حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں شامل تنظمیوں کے رہنماؤں نے کیوں حریت کانفرنس کے سربراہ کے خلاف بغاوت کا رویہ اپنایا؟ یہ بات گیلانی صاحب نے اپنے خط میں بیان نہیں کی۔ حریت کے کمزور اتحاد کی بڑی وجہ پاکستان انتظامیہ کی طرف سے جاری رکھے جانے والی حکمت عملی بھی قرار پاتی ہے۔ اس بات کا ذکر نہ تو اشارے میں بھی گیلانی صاحب نے کیا اور نہ ہی حریت سے وابستہ کوئی رہنما اس طرح کی بات کرنا پسند کرتا ہے۔

کشمیر کے عوامی حلقوں کی طرف سے کئی بار حریت کے طریق کار، شکایات، ناقص کارکردگی اور غیر موثر حکمت عملی کی اصلاح کے حوالے سے نشاندہی کی جاتی رہی لیکن حریت رہنماؤں کے اپنے ہاتھ میں کچھ ہوتا تو وہ کرتے۔ حریت رہنما تو اس شعر کی عملی تفسیر بنے رہے کہ

” ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے“ ۔

اس زلف کی اسیری نے کشمیریوں کی سیاسی قیادت کو ہی خراب نہیں کیا بلکہ تحریک کو بھی اس کے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ حریت رہنما کشمیر کاز کے سیاسی فرض کی ادائیگی میں سرخرو کیا ہوتے، الٹا ذاتی و خاندانی مفادات کی دوڑ حاوی نظر آنے لگی۔ گیلانی صاحب کے اس اعلان سے اکثر حلقوں کی طرف سے حیرانی کا اظہار کیا گیا اور وہ اب تک دریافت کر رہے ہیں کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ میرے خیال میں گیلانی صاحب کا فیصلہ اس لحاظ سے درست ہے کہ ایک علامتی کٹھ پتلی کی طرح تحریک کے سیاسی اتحاد کی ذمہ داری کی ادائیگی کا ڈرامائی پارٹ ادا کرنا، گیلانی صاحب کے شایان شان نہیں ہے۔ اب یہی بہتر ہے کہ اس علامتی سیاسی پلیٹ فارم سے علیحدگی اختیار کرلی جائے جو اپنا اختیار نہیں رکھتا اور حریت پسند کشمیریوں اور تحریک کے تقاضوں سے محروم ہو چلا ہے۔

شاید اب گیلانی صاحب کو یقین ہو گیا ہے کہ انہیں حریت کا سربراہ تو بنایا گیا لیکن وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اس لئے وہی حریت چلائیں جو حریت کانفرنس، رہنماؤں اور نمائندگان کو چلاتے اور چلواتے آ رہے ہیں۔ حریت کانفرنس پر قائم اسی نہ نظر آنے والے ”کمانڈ اینڈ کنٹرول“ کے سلسلے نے کشمیریوں کی ہندوستان کے خلاف آزادی کی مزاحمتی تحریک کی سیاسی نمائندگی کو کمزور سے کمزور تر کر دیا ہے۔ اس معاملے میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق ہندوستان کے گزشتہ سال 5 اگست کے اقدامات کے حوالے سے امریکہ میں ہونے والی خفیہ مفاہمت کے پیش نظر ہی کشمیریوں کی سیاسی نمائندگی کو غیر اہم اور غیر موثر کرنے کے اقدامات زیر کار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments