بے نظیر۔ ایک سوانحی ناول



سوانح عمری ایک انسان کی پیدائش سے موت تک کے افعال کا بیان ہے۔
یا یوں کہیے کہ ایک انسان کی حیات یا تاریخ ہے۔
سوانح نگاری کے سلسلے میں اردو ادب میں نیا تجربہ سوانحی ناول کی صورت میں کیا گیا جو کا میاب رہا۔
سوانحی ناول، سوانح اور ناول کا حسین امتزاج ہے۔

کسی سوانح کو جب افسانوی رنگ دے کر ناول کی تکنیک برتتے ہوئے پیش کیا جائے تو وہ سوانحی ناول کہلاتی ہے۔ سوانحی ناول میں پورا ناول ایک کردار کے گرد بنا جاتا ہے۔

اس مرکزی کردار کے ساتھ ضمنی کردار بھی ناول میں موجود ہوتے ہیں۔
سوانحی ناول تاریخ، افسانہ اور حقیقیت کو یکجا کرنے کا نام ہے۔

یشار سیمان ترکی کی معروف سیاسی ایکٹویسٹ اور نامور رائیٹر ہیں۔ وہ ترکی کی جمہوریت پسند لیڈر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ یہ سوانحی ناول ان کے محترمہ بے نظیر بھٹو سے عشق کا اظہار ہے۔

ترکی جیسے جدید اور روشن خیال سماج کی جدید رہبر پاکستان کی رہبر محترمہ بے نظیر بھٹو سے کس قدر متاثر ہوئیں اس کا ذکر انہوں نے اپنے اس سوانحی ناول میں کیا ہے۔

وہ اپنے والد کے وسیلے سے بے نظیر بھٹو کی شخصیت سے متعارف ہوئیں، اس کے بعد سے وہ ان کے بارے میں کتابیں پڑھتی رہیں، ان کی تقریریں سنتی رہیں اور ان کے انٹرویو بہت دلچسپی سے دیکھتی رہیں، پھر جب اچانک بے نظیر بھٹو اس دنیا سے رخصت ہوتی ہیں تو یشار سیمان تہیہ کرتی ہیں کہ وہ بے نظیر کی زندگی پر ایک ناول لکھیں گی۔ اس نے اپنے قول کو سچ کر دکھایا، اور دن رات محنت کر کے اسے لکھ ڈالا۔

یہ ناول سب سے پہلے ترکی زبان میں شائع ہوا۔

پھر ترکی سے اسے ایک ترک لڑکی سلین بوجاک نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور اب ایک پاکستانی لڑکی حمنہ ملک نے انگریزی سے اسے اردو زبان میں ڈھالا اور بہت عمدہ ترجمہ کیا۔

یوں تین مختلف زبانوں کے پل پر چلتے ہوئے یہ ہم تک پہنچا۔

یہ ناول اردو ادب میں یقیناً ایک اعلیٰ مقام پائے گا، اس لیے کہ یہ ناول ایک ایسی بہادر خاتون پر لکھا گیا ہے۔ جو سر بازار مقتل کو چلی گئیں۔

اس کو تخلیق کرتے ہوئے یشار سیمان نے یقیناً اپنے آنسوؤں کو بار بار ضبط کیا ہوگا۔ دختر انا طولیہ یشار سیمان نے دختر مشرق بے نظیر بھٹو پر یہ ناول لکھ کر انا طولیہ اور وادیئی سندھ کی سر زمینوں کا قرض اتار دیا۔

یشار سیمان اپنے اس ناول کا آغاز اپنے اور اپنے خاندان کے مختصر تعارف اور اس خاندان کی بے نظیر بھٹو سے محبت اور عقیدت سے خود کلامی انداز سے کرتی ہوئی سترہویں صدی میں سندھ کے ایک گاؤں مائی کلاچی تک آ پہنچتی ہے او ر پھر اپنا نقطہ نظر بے نظیر کے ذکر تک لے آتی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ ”آپ پر اور آپ کی تحریروں پر، آپ کے پاکستانی باپ اور ایرانی کرد ماں کی چھاپ دیکھنا آسان ہے۔ آپ کی تحریروں سے مغربی ثقافت کا علم بھی عیاں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کی تحریر میں ایک غم زدہ اور اداس زندگی کے بوجھ کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ پہلے آپ نے اپنے والد کو کھویا، پھر اپنے بھائیوں کی موت کا غم برداشت کیا۔ ایک یتیم اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نوجوان لڑکی، آپ نے یکسوئی اور پرعزم طریقے سے، یقین کامل کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔“

یہ ناول دو تہذیبوں اور دو ممالک کے مابین عوام دوستی کا ایک نا قابل بیان تخلیقی مظاہرہ ہے۔ دو تہذیبوں میں عورت کی بہادری کی داستان، دریائے سندھ، دریائے فرات اور دجلہ سے سیراب ہونے والے خطوں پر عورت کی کہانی کی داستان اس میں سمو دی گئی ہے۔

یہ پاکستان کی مقبول ترین رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کی متحرک سیاسی جدوجہد اور زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ناول در حقیقت پاکستان کے ان لوگوں کے لیے خراج تحسین کی حیثیت بھی رکھتا ہے جنہوں نے پاکستان میں ایک سیاہ دور کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ایک کمزور یتیم اور کم گو لڑکی کو لیڈر بنا ڈالا۔ اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا دیا۔

یشار سیمان کو بے نظیر بھٹو کے بارے میں لکھتے ہوئے Gone with the Wind کی ہیروئن اسکارلٹ اوہار ا اور اس کا آبائی گھر Tara یاد آتا ہے۔ یشار نے لکھا کہ بے نظیر کے لیے سب سے پر مسرت وقت وہ تھا جب وہ ”المرتضیٰ“ میں گلابوں اور دوسرے پودوں کی چھاؤں میں وقت گزارتیں۔

ناول میں بہت سے مقامات پر مصنفہ انہیں خواب دیکھتے ہم کلام ہوتی ہیں۔ اور ان سے وہ سوالات کرتی ہیں جو پاکستانی خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں لیکن جب وہ لمحہ آتا ہے کہ بینظیر ان سوالوں کا جواب دیں، یشار سیمان کی آنکھ کھل جاتی ہے اور جواب کی تشنگی یشار سیمان کو مضطرب رکھتی ہے۔

بہرحال ایک بات طے ہے کہ مصنفہ محترمہ سے بے انتہا عقیدت، اور ان کی طلسماتی شخصیت پر فریفتہ تھیں۔

مصنفہ کا خیال تھا کہ وہ پاکستانی عورتوں اور دنیا کے دوسرے مسلم ملکوں کی عورتوں کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔

یشار سیمان کا قلم اس مرحلے میں بلند اور بھرپور تخلیقی روپ دھار لیتا ہے جب وہ لکھتی ہیں کہ

” میں بہ چشم نم پاکستان سے رخصت ہوئی، میرے قلب میں وہ دن نقش ہوگیا۔ جب اس عظیم خاتون کو شہید کر دیا گیا۔ جو برسوں سے میری مرکز نگاہ تھیں۔ میں ان کی موت پر بے حد غم زدہ تھی۔ اور میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا،

” ایک جلا وطنی کے بعد وہ وزیر اعظم بنیں، اور دوسری جلا وطنی کے بعد وہ قتل کر دی گئیں۔ خواتین کی مشرق پر حکومت کرنے کی امیدیں کب بار آور ہوں گی؟“

قارئین کرام! دریا۔ زندگی کا ایک بہت بڑ ا استعارہ ہے۔ قدیم سماج اس کے گرد زندگی سے آشنا ہوا۔ ہماری لوک داستانیں اور لوک دانش دریا کے بہتے پانیوں سے کشید ہوتا ہمارے سینوں اور اذہان تک پہنچا ہے۔ یشار سیمان کے اس ناول میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی ثقافت اپنے دریا اور اپنے صحراؤں سے محبت کا ذکر ملتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اکثر کہا کرتیں کہ ”اپنی زندگی کے دوران جب بھی مجھے کوئی خوشی ملی یا میں کسی غم سے ہمکنار ہوئی تو میں نے ان دریاؤں کو ہمیشہ اپنا راز دان جانا۔ میں نے اپنی ہر خوشی اور غم ان دریاؤں کے ساتھ بانٹا۔

جب میں خوش ہوتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ دریا بھی میری طرح خوش ہے اور جب میں غمگین ہوتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ میری طرح آج دریا بھی ایک اداسی اپنے اندر لیے بہتا چلا جا رہا ہے۔ ”

یشار سیمان لکھتی ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی زندگی میں تین دریاؤں سے بہت محبت رہی۔ سب سے پہلے یعنی انڈس سے شناسائی ہوئی ہے۔

محترمہ کی خواہش تھی کہ جس طرح میری زندگی کی ابتد ا اس دریا کے قریب ہوئی اسی طرح میری زندگی کا خاتمہ بھی اس دریا کے قریب ہو۔

دوسرا دریا، دریائے چارلس تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کہتی ہیں کہ ”ہارورڈ میں گزارے چار سال میری زندگی کے بہترین سال تھے۔ آج بھی میں اکثر تنہائی میں آنکھیں بند کر کے ہارورڈ کے ریڈ کلف کیمپس میں گزارے وہ مہ و سال سامنے لاتی ہوں جب خزاں میں درختوں کا رنگ نارنجی اور پیلا ہو جاتا تھا۔ سردیوں میں پور ا شہر نرم برف کی کمبل اوڑھ لیتا تھا اور بہار کی پہلی کلی کے کھلتے ہی ہم سب خوشی سے ناچنا شروع کر دیتے تھے۔“

تیسرا دریا جس کا ذکر کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے وہ آکسفورڈ کا چار ویل دریا تھا۔

جہاں وہ اس دریا میں کشتی رانی کرتی ہوئی بہت دور تک چلی جاتی تھیں اور اس خوبصورت علاقے کے حسین مناظر سے جی بھر کر لطف اندوز ہوتی تھیں۔

قصہ مختصر محترمہ بے نظیر بھٹو پر یوں تو بہت سی کتابیں اور بے شمار آرٹیکلز کالمز لکھے گئے۔ جو کہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن یہ ان کی بے نظیر شخصیت پر اولین سوانحی ناول ہے۔ محترمہ یشار سیمان اپنے اس ناول کی تقریب رونمائی کے لیے خاص طور پر ترکی سے پاکستان آئیں اور اسلام آباد میں ایک بڑے ہوٹل میں یادگار پروگرام ہوا جسے فرخ سیہل گوئندی صاحب نے ترتیب دیا۔

ذکر ترکی کا ہو او ر فرخ سہیل گوئندی پر بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔

فرخ سہیل گوئندی ملکی سیاست اور سیاسی تاریخ کے علاوہ عالمی سیاست کے بارے بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ ترکی ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ آپ انہیں پاکستان میں ترکی کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ گوئندی صاحب ترکی بارے گھنٹوں بات کر سکتے ہیں۔ جمہوری پبلی کیشن کے پلیٹ فارم سے آپ اپنی اور دوسرے مصنفوں کی ہر اصناف کی کتاب شائع کرتے ہیں۔ آپ نے مختلف ممالک کے لکھاریوں کی تحریروں کے قومی زبان اردو میں تراجم کروا کر اپنے ہاں کے عام لوگوں کو جدید دنیا کے علوم تک رسائی دینے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اور ”بے نظیر۔ ایک سوانحی ناول“ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جس کا کریڈٹ بلاشبہ گوئندی صاحب کو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments