لوگ کس نفسیاتی وجہ سے خود کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کا لیڈر فریبی یا جھوٹا نہیں؟


اگر انسان خود یا کسی کے مجبور کرنے پر کوئی ایسا عمل یا فیصلہ کرے جس پر یقین نہ رکھتا ہو یا ذہنی و جذباتی طور پر آمادہ نہ ہو تو اس عمل/فیصلے کے حوالے سے ذہن میں خلش رہتی ہے۔ اسی طرح اگر ماضی میں کوئی عمل کیا یا فیصلہ لیا جو حال میں درست ثابت نہ ہو رہا ہو تو بھی ذہنی طور پر بے چینی ہوتی ہے۔ عمل چونکہ ماضی میں کیا ہوتا ہے، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا تو لہذا موجودہ سوچ کو ماضی کے عمل/فیصلے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے، جواز تراشا جاتا ہے۔

انسان ہمہ وقت اپنی سوچ، برتاؤ اور عقیدے (عقیدے سے مراد مذہبی عقیدہ نہیں۔ اس سے مراد یقین ہے جو کہ کسی بھی شے کے حوالے سے ہو) کو ہم آہنگ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ جواز اور جواب دونوں تراشتا ہے۔ لیکن وہ دورانیہ جس میں عقیدہ، رویہ اور برتاؤ آپس میں میل نہیں کھا رہے ہوتے اور انسان ذہنی کشمکش میں ہوتا ہے، اس کو Cognitive Dissonance کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت کا فیصلہ سازی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس کیفیت کے محرکات سے آگاہی ہو تو غلط فیصلوں کو ٹھیک کرنے اور نئے درست فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

چونکہ کوگنیٹیو ڈسونینس ایک مشکل تصور ہے اس کو ایک تجربے کی زبانی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1959 میں دو ماہرین نفسیات Festinger اور Carlsmith نے ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے لڑکوں کے ایک گروپ کو کمرے میں بلایا اور انہیں ٹاسک دیا کہ وہ ٹرے میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ترتیب سے رکھیں۔ شرکا کو یہی عمل چند مرتبہ دہرانے کا کہا گیا۔ یہ گروپ جب باہر جانے لگا تو ہر فرد کو بیس ڈالر دیے گئے اور کہا گیا کہ باہر جا کر لوگوں کو بتانا ہے کہ تجربہ بہت دلچسپ تھا۔

دوسرے گروپ کو لیبارٹری میں بلایا گیا اور انہیں وہی لکڑی کے ٹکڑوں والا ٹاسک دیا گیا۔ جب یہ گروپ باہر جانے لگا تو ہر فرد کو ایک ڈالر دیا گیا اور اسے کہا گیا کہ باہر جا کر کہنا ہے کہ ٹاسک بہت دلچسپ تھا۔

دونوں گروپس باہر گئے تو وہاں موجود دیگر شرکا کو انہوں نے بتایا کہ ٹاسک بہت دلچسپ تھا۔ آخر میں دونوں گروپس کے لوگوں کے ساتھ ماہرین نفسیات نے انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا ٹاسک واقعی دلچسپ تھا؟ (کیونکہ ماہر نفسیات کو تو پتہ تھا کہ وہ کیا ٹاسک پورا کر کے آ رہے ہیں اور وہ کتنا بورنگ تھا) ۔

جن لوگوں کو بیس ڈالر ملے تھے انہوں نے کہا کہ ٹاسک بالکل فضول اور بورنگ تھا۔ انہیں پیسے دیے گئے اس لئے انہوں نے دیگر لوگوں سے جھوٹ بولا۔ لیکن جب ایک ڈالر وصول کرنے والے شرکا سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ٹاسک واقعتاً بہت دلچسپ تھا۔ یہ جواب ماہرین نفسیات کے لئے بالکل حیران کن تھا۔

ماہرین نے اس تجربے سے کوگنیٹیو ڈسونینس کو دریافت کیا۔ ماہرین کے مطابق جن افراد کو بیس ڈالر ملے تھے وہ ذہنی طور پر بہت کلیر تھے کہ ٹاسک غیر دلچسپ تھا مگر انہیں رقم ملی تھی اس لئے انہوں نے دیگر شرکا کے سامنے اپنے اصل خیالات کا اظہار نہیں کیا اور جھوٹ بولا کہ ٹاسک دلچسپ تھا۔

جس گروپ کو ایک ڈالر ملا تھا اس نے دیگر شرکا اور ماہرین نفسیات کو یہی کہا کہ ٹاسک واقعتاً بہت دلچسپ تھا۔ دراصل اس گروپ کے لوگوں کے ذہن میں ایک کشمکش پیدا ہوئی کہ وہ صرف ایک ڈالر کی خاطر اپنے اصل احساس و سوچ کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ انہیں خاطر خواہ مالی فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا اور وہ جھوٹ بھی بول رہے ہیں۔ اس کشمکش کو انہوں نے اس طرح دور کیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو یقین دلا لیا کہ ٹاسک واقعی دلچسپ تھا۔ اس سے ان کے ضمیر کا بوجھ بھی ختم ہوا اور ذہنی کشمکش سے بھی چھٹکارا مل گیا۔

آئیے ہم کوگنیٹیو ڈسونینس کے تصور کی روشنی میں cults کا حصہ بننے والے افراد کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی ایک پیر (پیر کا لفظ کسی بھی کلٹ کے سربراہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ) ہے وہ اپنے مریدین سے کہتا ہے کہ اگلے ماہ قیامت آ جائے گی یا آپ کو فلاں خوشی ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر ایسی کوئی بھی پیشن گوئی درست ثابت نہیں ہوتی تو کیا مریدین اس پیر کو ماننا چھوڑ دیں گے؟ بہت سارے مریدین کوگنیٹیو ڈسونینس کا شکار ہو جائیں گے۔

وہ پیر کو سچا مانتے تھے مگر وہ جھوٹا نکلا۔ اب مریدین کے ذہن میں ایک جنگ چھڑ گئی۔ ۔ ۔ کیا وہ ایک جھوٹے کو مانتے رہے؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، وہ تو بہت تجربہ کار ہیں وہ پیر کو پرکھنے میں دھوکہ کیسے کھا سکتے ہیں؟ ایسے خیالات لوگوں کے ذہنوں میں کھلبلی مچاتے رہیں گے۔ بالآخر وہ یہ حل نکالیں گے کہ انہیں پیر سے محبت اس لئے نہیں تھی کہ پیر دور اندیش اور سچی پیشن گوئی کرنے والا تھا بلکہ وہ بغیر کسی وجہ کے پیر سے پیار کرتے ہیں۔

اب کوگنیٹیو ڈسونینس کو سیاسی لیڈران کے پیروکاروں پر لاگو کر کے دیکھئے۔ جیالوں، شیروں اور ٹائیگروں میں دو گروہ ایسے ہوں گے جو اپنے لیڈر سے انتہائی شدید محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے ہر جائز و ناجائز عمل کو ڈیفینڈ کرتے ہیں۔ ایک وہ طبقہ جو فائدہ حاصل کرتا ہے (بیس ڈالر والے گروپ کی طرح) ۔ اس طبقے کو لیڈر/پارٹی کی غلطی کا ادراک ہوتا ہے مگر وہ جان بوجھ کر فائدے کی خاطر اسے چھپاتا ہے اور لوگوں کے سامنے جھوٹ بولتا ہے۔

آپ دیکھیں جو لوگ ہر حکومتی پارٹی میں اعلی عہدے لیتے ہیں وہ اپنے ہر نئے لیڈر کا دفاع شد و مد سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ ذہنی کشمکش کا شکار نہیں ہوتے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ فائدے کی خاطر لیڈر سے محبت کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ دوسرا طبقہ جو لیڈر سے زیادہ محبت کا اظہار کرتا ہے وہ واقعتاً پیار کرتا ہے لیکن اس کی وجہ فائدہ نہیں ”کوگنیٹیو ڈسونینس“ ہوتی ہے۔ یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کے لیڈر نے جو وعدے کیے، جو خواب دکھائے وہ پورے نہیں کیے، وہ ویسا لیڈر ثابت نہیں ہوا جس کی توقع تھی، اب یہ گروہ ذہنی کشمکش کا شکار ہوجاتا ہے (یہ کشمکش انفرادی سطح پر چل رہی ہوتی ہے اور ہر شخص کے لئے اس کا دورانیہ مختلف ہو سکتا ہے ) ۔

ایسے افراد یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ لیڈر کے فریب میں آ گئے، انہیں بیوقوف بنایا گیا یا ان سے غلط فیصلہ سرزد ہوا۔ چونکہ انہوں نے کوئی خاطر خواہ فائدہ بھی حاصل نہیں کیا ہوتا (ایک ڈالر والے گروپ کی طرح) تو یہ لوگ اپنی ذہنی کشمکش کو ختم کرنے اور اپنی سوچ، رویے اور برتاؤ کو ہم آہنگ کرنے کے لئے جواز تراشتے ہیں کہ ہم بس اپنے لیڈر سے پیار کرتے ہیں۔ وہ جیسا بھی ہے ہمیں اس سے غیر مشروط محبت ہے۔ اس طرح یہ گروہ ذہنی کلفت سے آزادی پا لیتا ہے اور نئے جواز سے اپنے آپ کو مطمئن کر لیتا ہے۔

ہم سب زندگی میں کئی مرتبہ کوگنیٹیو ڈسونینس کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ کوئی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ قدرتی نفسیات کا حصہ ہے۔ لیکن اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے تا کہ ہم بہتر فیصلے لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments