جان سے پیارے بیٹے کو قیمتی ترین متاع کا تحفہ


”تم نے کبھی غور کیا ہے اس دنیا میں ہزاروں جاندار پائے جاتے ہیں۔ اور ہر سال سائنسدان درجنوں نئے جاندار دریافت کرتے ہیں۔ صرف 2018 میں دو سو بانوے نئے جانداروں کا پتہ چلا، اور 2019 میں 71 نئے جاندار اس فہرست میں شامل ہوئے“ ۔ ”اس نے چائے کا کپ پکڑا اور گہری سوچ میں بات مکمل کی“ یار تم بھی جب چائے پیتے ہو تو فلسفی کیوں بن جاتے ہو؟ اچھی بھلی چائے کا مزہ خراب کرو گے ”میں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ اسی لیے تمہیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جواب دیا۔

میں نے سنجیدگی سے کہا۔“ یار سچ پوچھو تو میں نے کبھی غور نہیں کیا ”۔

اس نے جواب دیا کہ کیا کرواور مسلسل کیا کرو، اس کا فائدہ ہو گا۔ اس کے لہجے میں نصیحت واضح تھی۔ اور پھر گویا ہوا۔“ کل شام ایک پرانا میگزین پڑھ رہا تھا تو ایک پرانی خبر پر نظر پڑی (بی بی سی 23 August 2011، Report by Richard black) ۔ اس کے مطابق اب تک سائنس دانوں نے 8.7 ملین نئی اسپیشیز کا پتہ لگایا ہے۔ اور ان میں کافی اسپیشیز ایسی ہیں جن کے ابھی تک شناخت نہیں ہوسکی۔ اور ان سب کی زمرہ سازی میں ایک ہزار سال سے زائد کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس نے اسی طرح گہری سوچ میں کہا۔ ”تو تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ میں نے ہلکی سی جھنجھلاہٹ سے کہا۔ ”یار اس دنیا میں سے صرف انسان نے عقل و شعور کی ارتقا کا سفر طے کیا ہے۔ حضرت انسان نے اگراسی طرح آگے بڑھنا ہے توعقل و شعور کے ارتقائی سفرکو اس سے بھی بہتر انداز میں آگے بڑھانا ہوگا“ ۔ اس نے بات ختم کرنے کے انداز میں کہا۔ ”تو یہ سب باتیں تمہیں ابھی کیوں یاد آ رہی ہیں“ ۔

میں نے پوچھا؟ اس نے گھڑی کو دیکھا اور گویا ہوا ”تمہیں پتا ہے نا کل میرے بڑے بیٹے کی سولہویں سالگرہ ہے، تو میں نے سوچا اس کو کیا تحفہ دیا جائے؟ کافی سارے تحائف کے بارے میں سوچنے کے بعد، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسے علم و شعور کی میراث یعنی“ کتاب ”کا تحفہ دیا جائے۔ اس کو کتاب دوستی کا تحفہ دے کر ہزاروں سال کے ارتقا سے روشناس کروایا جائے۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے بہتر فیصلے کر سکے، اور شاید وہ انسانیت کی خدمت میں کمال حاصل کرسکے۔ مزید یہ کہ وہ کچھ ایسا دریافت کریں جو بنی نوع انسان کے لیے مفید ثابت ہوسکیں کے۔ اس لئے جب تک وہ بطریقہ احسن یہ نہیں جان لیتا کہ انسان کی زندگی کن کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے اور اس کے اگلے دور کی ضروریات کیا ہیں، وہ بہتر فیصلے نہیں کر سکے گا۔ اور ایک ادنہ سی زندگی گزار کر چلا جائے گا“ ۔

وہ اک لمہ روکا اور بولا، ذہن خدا کی طرف سے انسان کو دیا گیا بیش قیمتی تحفہ ہے، اس شجربے مثال کی آبیاری کرنے سے انسان ہر دور کے تقاضوں کو جان کر اپنی سوچ کو مستحکم کر سکتا۔ اس آبیاری کا سب سے بہترین ذریعہ کتاب سے دوستی ہے۔ کتاب دوستی ہے انسان کو تاریکیوں سے روشنی میں لا سکتی ہے، انسان کے دل و دماغ کو اتنا وسیع کر سکتی ہے کہ وہ تحمل سے دوسروں کی بات سن سکے اور ان کا جواب دے سکے۔

کتاب آپ کو ہزاروں سال پرانے قصے کے درمیان لے جا کر کھڑا کر سکتی ہے۔ آپ اس وقت کے انسان کے حالات کے بارے میں جان سکتے ہو اور اس کی تکالیف اور پریشانیوں کی بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہو۔ جب کسی نے نیا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی تو اسے کیسے کیسے امتحانوں سے گزرنا پڑا اور جن لوگوں نے ان کا مقابلہ کیا تو ان کاحاصل کیا رہا؟ اور جو لوگ اس ڈر سے آگے نہ بڑھ سکے کہ لوگ کیا کہیں گے ہمارا معاشرہ پتہ نہیں اس کو اپنا سکے گا یانہیں؟ تو ان کا کیا حال ہوا تاریخ نے کس کو یاد رکھا اور کس کو فراموش کر دیا؟

مزید یہ کہ کتاب دوستی انسان کی شخصیت کو دلچسپ بنادیتی ہے۔ آپ اس طرح کے انسان سے مل کر ہر طرح کے موضوع پر ہر طرح کی بات کر سکتے ہیں، اور بات سن سکتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ بھی لگانا آسان ہوتا ہے کیا کیا کچھ نہیں جانتے اور آپ کو مزید کیا کیا کچھ جاننا ہے۔ دنیا کے کامیاب لوگ روزانہ طویل مطالعہ کرنے کے عادی ہیں۔ امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 75 فیصد کروڑ پتی افراد کم از کم ایک مہینے میں دو کتابوں کا مطالعہ لازمی کرتے ہیں ”اس نے طویل تقریر مکمل کی۔

تو میں نے کہا ”کیوں بچوں کو ابھی سے سنجیدگی دے کر ان کی زندگی سے رنگین چھیننا چاہتے ہو“ ؟ اچھا سوال کیا تم نے۔ دیکھو وہ 16 برس کا ہو چکا ہے اور موبائل کی وجہ سے سماجی رابطوں تک اس کی کی رسائی ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب اس کی شخصیت کو ایک سمت دی جائے اور یہ سمت کتاب سے بہتر اور کوئی نہیں ہے۔ جو میں اس کی کتاب دوستی کی بات کر رہا ہوں یہ تو ابتدا ہے اس سمت کی جس کو میں نے اپنے ذاتی مطالعے سے حاصل کیا۔ مجھے امید ہے کہ کچھ سالوں کے مطالعے کے بعد اس مطالعے کا compound Effect آئے گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ نہ صرف میرا بیٹا اس علم دوستی کے تحفے کی تعریف کرے گا بلکہ اس کی بنیاد پر خوب ترقی کرے گا۔ علم دوستی اور کتابوں سے لگاؤ اس کی قیمتی ترین متاع ہوگی جو کہ اس سے کبھی کوئی چھین نہیں سکے گا۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments