اسپینوزا! ایک دھتکارا ہوا فلسفی


1492 میں فرڈیننڈ نے غرناطہ کو فتح کر کے جہاں ایک طرف مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم کیا تو دوسری طرف یہودیوں کو حکم دیا کہ یا وہ عیسائیت قبول کر لیں یا ملک چھوڑ دیں۔ یہودی ملک چھوڑ کر مختلف ممالک کا رخ کرنے لگے ان میں سے ایک گروہ ہالینڈ پہنچا جس میں اسپینوزا خاندان بھی تھا۔ ہالینڈ میں یہودیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا اور ان کو اپنی عبادت گاہ بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ 70 سال بعد دوسری عبادت گاہ کے لئے مالی امداد بھی دی گئی۔

اسی عبادت گاہ کا ایک ہونہار شاگرد بینڈکٹ اسپینوزا تھا۔ اپنی باقاعدہ تعلیم کے علاوہ اسپینوزا نے جب عیسائیت کا مطالعہ شروع کیا تو اس کے دماغ نے کچھ شکوک اور دلچسپیوں کو جنم دیا جن کو اصل رنگ میں سمجھنے کے لئے اسپینوزا نے لاطینی زبان سیکھی اور پھر عیسائیت کے علاوہ دنیا جہان کا فلسفہ اور ادب چھان مارا۔ اسی دوران اسپینوزا نے کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا جس سے عیسائیت اور یہودیت کے بنیادی عقائد کو ٹھیس پہنچی۔

یہودی جو عیسائیوں کے احسان مند بھی تھے اسپینوزا کی اس حرکت کے شدید مخالف ہو گئے۔ اس دور میں کسی بھی مجرم کو برادری اور ملک سے نکال دینے کا ایک طریقہ رائج تھا جس کے تحت تمام لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور اسپینوزا کے خیالات تمام لوگوں کو سناے گئے جو کہ سب کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ تمام بزرگ اور دور اندیش لوگ اسپینوزا کی ذہانت اور وسیع مطالعہ سے آگاہ تھے اس لئے اسپینوزا کو یہ پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اپبے خیالات کی تردید کر دے تو نہ صرف اس کو معاف کر دیا جائے گا بلکہ ایک بہت بڑی رقم کا وظیفہ بھی دیا جائے گا۔

اسپینوزا نے انکار کر دیا جس کے بعد تمام مجمع کے سامنے اسپینوزا کی تضحیک کی گئی اور برادری سے نکالنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی شخص نہ اس سے بات کر ے نہ اس کو پناہ دے، نہ اس کی کوی بات سنے، نہ ہی اس کی کوی تحریر پڑھے اور اب اس سے کسی شخص کا کوی رابطہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسپینوزا جس کی عمر ابھی 23 سال تھی اور جو پہلے ہی اپنے عقائد ٹوٹ جانے پر افسردہ تھا اب اس بدنام تنہائی کو گلے لگائے گھوم رہا تھا۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے دنیا کا بد ترین مرتد کہنے لگی۔ ایک دن اس پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں بمشکل وہ جان بچا پایا، خنجر کا زخم گردن پر لئے اس نے شہر سے بہت دور کسی گھر میں نوکری کے عوض پناہ ڈھونڈی اور اپنا نام باروک اسپینوزا سے تبدیل کر کے بینڈکٹ اسپینوزا رکھ لیا۔ اس نے چار کتابیں لکھیں لیکن اپنی زندگی میں صرف ایک ہی کتاب شائع کروا سکا اور اس کتاب کی خرید و فروخت پر بھی شہری انتظامیہ نے پابندی لگا دی، لیکن اس کے باوجود اس کی کتاب ہاتھوں ہاتھ بکی اور اہل نظر لوگوں میں مقبول ہو گئی جس کے بعد اسپینوزا کے علمی کاموں کی طرف دنیا متوجہ ہوئی اور اس کی دانش کی قائل ہونے لگی اور اس کو بہت سے لوگوں کی طرف سے وظائف اور عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن اس نے سب ٹھکرا دیا اور ایک کمرے میں لکھتے پڑھتے عمر گزاری اور محض 44 سال کی عمر میں فلسفہ پہ اپنے گہرے نقوش چھوڑ کر 1677 میں دنیا چھوڑ گیا۔

اسپینوزا جس کے کام پر کتابیں لکھی گئیں اس کا احاطہ ایک یا چند کالموں میں ناممکن ہے اس لیے اس کی ایک دو باتیں یاد کیے لیتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ بائبل اور ایسی دیگر مذہبی کتابوں کی زبان دانستہ طور پر تمثیلی اور استعاروں سے لبریز رکھ کر پڑھنے والوں کو ایک ایسے خدا کا تصور دیا جاتا ہے جو طاقتور، معجزوں اور کرامات سے بھرپور ہے اور وہ جب حرکت میں آتا ہے تو کائنات کے قدرتی عمل کو سبوتاژ کر دیتا ہے لہٰذا مذہبی کتابوں کا یہ تمثیلی لہجہ استدلال کے بجائے تصورات کو بڑھاوا دیتا ہے۔

جبکہ اسپینوزا کے مطابق خدا اور قدرتی عمل ایک ہی ہیں، اس سے مراد یہ کہ قدرت کے عالمگیر قوانین اور خدا کے ابدی احکامات ایک ہی چیز ہے۔ خدا اسباب کی لڑی ہے، تمام اشیا کی بنیادی شرط ہے، دنیا کا قانون اور ڈھانچہ ہے اور لا تعداد صفات کا مجموعہ ہے۔ تمام قوانین اور تمام اسباب کے مجموع کا نام خدا کا ارادہ ہے اور تمام فہم و فراست کا مجموع خدا کا فہم ہے۔ خدا کے فہم سے اسپینوزا کی مراد زمان و مکان میں پھیلی کامل ذہنیت یعنی وہ شعور جس نے دنیا کو جلابخشی۔

ریاست اور سیاست کے بارے میں بھی اسپینوزا کے خیالات بہت واضح تھے، اس کے مطابق ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کو مکمل آزادی دے، ان میں نہ کسی خوف کو جنم لینے دے اور نہ ہی ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر مشین بنا دیا جائے۔ ان کی ذہنی نشونما اور آزادی اظہار کے آگے کوی رکاوٹ نہ ڈالی جائے بلکہ لوگوں کے افکار کو پھلنے پھولنے دیا جائے اور یہ سب ان کو اعلیٰ تعلیم اور بہتر سہولیات کے ساتھ دیا جائے، ایسا کرنے سے شہریوں کے دل میں ریاست کا احترام اجاگر ہو گا اور وہ قانون کی پابندی کو خوشی سے ادا کریں گے۔ جبکہ جبر اور پابندی شہری کو نافرمانی پر اکساتی ہے۔ اسپینوزا نے جمہوریت کو بہتر نظام حکومت کہا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس نظام میں زیادہ تر اوسط درجے کی صلاحیت کے افراد آگے آ تے ہیں اوراگر ایسے افرادہی آتے رہیں تو یہ سلسلہ آگے چل کر ایک مخصوص ٹولے کے اقتدار یا شخصی اقتدار میں بدل جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اسپینوزا کا فلسفہ دیگر دقیق معملات کا انتہائی خوبصورتی سے احاطہ کرتا ہے جس میں نیکی، بدی اور علم پر اس کے خیالات قابل ذکر ہیں اور جن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو اچھی خاصی ریاضت اور مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ اسپینوزا کی تعریف اس کے بعد آنے والے ہر بڑے فلسفی اور قابل ذکر ادیبوں نے کی۔ عظیم شاعر گوئٹے نے اس کی کتاب ”اخلاقیات“ پڑھنے کے بعد کہا یہ وہ شاہکار فلسفہ ہے جس کی تمنا میری روح کر رہی تھی۔

ہیگل نے اسپینوزا کے فلسفہ پر تنقید بھی کی لیکن اس بات کا اعتراف کیا کہ ”فلسفی بننے سے پہلے اسپینوزا کو سمجھنا ضروری ہے“ ۔ ورڈز ورتھ نے اپنی شاعری میں اسے خراج تحسین پیش کیا، شیلے نے اس کی کتاب کا ترجمہ کیا اور بائرن نے اس کا دیباچہ لکھا۔ ہالینڈ جہاں اس کو رسؤا کر کے برادری سے نکال دیا گیا اس کے شہر ہیگ میں 200 سال کے بعد اس کی یاد میں ایک شاندار برسی منائی گئی جس میں دنیا بھر کی علمی اور دیگر اہم شخصیات نے ذاتی یا تحریری شرکت کو ایک اعزاز سمجھا اور سب نے شاندار الفاظ میں نہ صرف اس کو یاد کیا بلکہ اعتراف کیا کہ 200 سال پہلے پیش آئے واقع میں اسپینوزا راست پر تھا اور اس کو نکالنے والا معاشرہ باطل پر تھا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments