انڈیا چین کشیدگی: بندرگاہوں پر چینی اشیا پھنسی ہیں مگر نقصان کس کا ہے؟


ساری دنیا اس وقت کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہے۔ انڈیا میں بھی متاثرین کی تعداد میں زبردست اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف اب تک کوئی مؤثر دوا تو نہیں بنائی جا سکی ہے لیکن اس کے علاج یا علامات کا پتا لگانے میں تین چیزوں کا اہم کردار ہے: وینٹیلیٹر مشین، انفراریڈ تھرما میٹر اور آکسیمیٹر۔

ویسے تو یہ تینوں ہی طبی آلات انڈیا میں بنائے جاتے ہیں لیکن انھیں بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے پرزوں کی بڑی تعداد چین سے درآمد ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘چین اپنی ذمہ داری سمجھے اور ایل اے سی پر اپنی طرف جائے’

چین، انڈیا تنازع: لداخ کے خطے میں ایسا کیا ہے جو وہاں تنازعے کو منفرد بناتا ہے؟

چین کا مارشل آرٹ ٹرینرز کو تبت بھیجنے کا فیصلہ، انڈیا بھی ’جواب دینے کے لیے تیار‘

چین کے متعلق مودی حکومت کے بیانات میں اتنا تضاد کیوں

یہی وجہ ہے کہ اس وقت انڈیا میں میڈیکل آلات درآمد کرنے والی کمپنیوں کے علاوہ طبی کارکنان اور عوام کے ذہن میں بھی یہ سوال ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان جاری کشیدگی کے سبب کہیں ان اشیا کی قلت کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا؟

مئی کے پہلے ہفتے میں لداخ کے متنازع علاقے میں ایل اے سی پر انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور آخر کار 15 اور 16 جون کی درمیانی رات وادی گلوان میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان پر تشدد جھڑپ میں بیس انڈین فوجی ہلاک ہو گئے اور دیگر 76 زخمی ہو گئے۔ چین کی جانب سے ابھی تک ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اس واقعے میں ایل اے سی پر 45 سال بعد کسی دوسرے ملک کی فوج کے ہاتھوں انڈین فوجیوں کی جان گئی۔

اس کے بعد سے ہی انڈیا میں چین سے درآمد ہونے والی اشیا کے بائیکاٹ اور ان اشیا پر پابندی کے مطالبے بڑھنے لگے۔

انڈیا کی وفاقی حکومت نے ابھی تک واضح طور پر بائیکاٹ یا چین کے ساتھ تجارت میں کمی لانے جیسی کوئی بات نہیں کی ہے لیکن وزارت ریل اور وزارت ٹیلیکوم نے مستقبل میں چین سے درآمدات میں کمی کی جانب اشارہ کیا ہے۔

لیکن ‘فارمیکسِل’ یعنی انڈیا کی فارما ایکسپورٹ کونسل نے چین سے انڈیا پہنچنے کے بعد بندرگاہوں یا ہوائی اڈوں پر پھنسی اشیا اور کسٹم کلیئرینس کے انتظار میں میڈیکل آلات کی فراہمی میں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

میڈیکل آلات کا کردار

گذشتہ دو دہائیوں میں انڈیا اور چین کے درمیان تجارت تقریباً تیس گنا بڑھ چکی ہے اور اس میں ادویات اور میڈیکل آلات کا اہم کردار رہا ہے۔

چین سے درآمد ہونے والی ادویات پر انڈیا کا انحصار تو ہے ہی، اس کے علاوہ میڈیکل آلات کا بھی انڈیا کے بڑھتے ہوئے میڈیکل ٹورزم اور طبی سہولیات میں بڑا ہاتھ ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019 اور 2020 کے درمیان انڈیا نے چین سے 1,150 کروڑ رویے کی فارما سے منسلک اشیا درآمد کی تھیں جن میں ادویات بنانے کے خام مال کے علاوہ میڈیکل آلات بھی شامل تھے۔

حالانکہ انڈیا میں درآمد ہونے والے بڑے میڈیکل آلات میں زیادہ تر امریکہ سے آتے ہیں لیکن انڈیا میں ایسیمبل ہونے والے آلات میں استعمال ہونے والے چھوٹے پرزوں میں چین کا اہم کردار ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیکل آلات کی فراہمی کے لیے انڈیا کا چین پر اتنا زیادہ انحصار نہیں ہے جتنا ادویات بنانے کے خام مال میں ہے۔ لیکن پھر بھی انڈیا میں ایسیمبل ہونے والے میڈیکل آلات کے لیے ہارڈویئر چپس، مدر بورڈ یا ڈیجیٹل ایل سی ڈی یا ایل آئی ڈی سکرینز جیسی چھوٹی لیکن ضروری اشیا عام طور پر چین سے آتی ہیں۔

درآمدات موضوع فکر کیوں؟

طبی اشیا کی برآمد اور درآمد کا ادارہ ‘فارمیکسِل’ کے سربراہ دنیش دُوا کے مطابق ‘بندرگاہوں پر سست کلیئرینس کے سبب میڈیکل آلات کی ایک بڑی تعداد کے دیگر شہروں تک پہنچنے میں دیر ہو رہی ہے۔‘

ویسے تو انڈیا میں چینی اشیا کے بائیکاٹ سے متعلق آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن اس بارے میں بات کم ہو رہی ہے کہ اُس درآمد کا کیا ہوا جو گذشتہ مہینوں میں انڈیا کے چند بندرگاہوں تک پہنچ چکی ہے۔

چند بڑی فارما کمپنیوں نے نام نہ لیے جانے کی شرط پر بتایا کہ اگر چین سے انڈیا درآمد ہو چکی اشیا طویل عرصے تک کسٹمز کلیئرینس پر پھنسی رہیں گی تو نقصان چین کا نہیں انڈیا کا ہوگا۔

پہلی بات یہ کہ ضروری طبی اشیا ہسپتالوں یا ریٹیلرز تک پہنچانے میں دیر ہوگی، جو کہ مریضوں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔

دوسری غور کرنے والی بات یہ ہے کہ چین سے درآمد کرنے والے تاجر عام طور پر تقریباً 75 فیصد تک ایڈوانس رقم ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اشیا ڈلیوری کے لیے انڈیا پہنچتی ہیں۔ جتنی دیر ہوگی، انڈین کاروباریوں کو اتنا ہی نقصان ہوگا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں بینک گارنٹی کے ذریعے ‘لیٹر آف گارنٹی’ جاری ہوتا ہے۔ اور درآمد کو یک طرفہ طور ہر منسوخ کر دینے پر کریڈٹ ریٹنگ گر جاتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ چین سے انڈیا تک اشیا پہنچانے کا کرایہ بھی ایڈوانس دیا جاتا ہے۔

ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کورونا کا مقابلہ کرنے میں ضروری تین آلات یا ان کے پرزے کسٹم تک پہنچ چکے ہیں، تو دیر کس بات کی ہے؟

انڈیا میں شپنگ، ٹرانسپورٹ اور چھوٹے کاروباروں کے شعبے کے وفاقی وزیر نتن گٹکری نے وفاقی وزیر مالیات اور وزیر صنعت سے ‘انڈین بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے کنسائنمینٹز کو جلد از جلد کلیئر کرنے’ کی بات کہی تھی کیوں کہ اس سے انڈین کاروباروں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

انڈیا

لیکن سوال یہ ہے کہ کنسائنمینٹز بندرگاہوں پر آخر پھنسی کیوں ہیں؟ اور کلیئرینس میں دیر کی کیا وجہ ہے؟

ایک سینیئر کسٹمز اہلکار نے صرف اتنا بتایا کہ ‘سیکیورٹی سے متعلق چند پروٹوکالز ہیں جن پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔’

معاشی امور پر نظر رکھنے والی تنظیم ‘انویسٹریک گلوبل ریسرچ پرائیویٹ لمٹیڈ’ کے سی ای او وجے کمار گابا نے بتایا کہ ‘لوگوں کا دھیان چین سے آنے والی ان اشیا پر ہے جو غیر ضروری ہیں جیسے بچوں کے کھلونے، دیوالی کی لائٹیں اور سستے بیگ یا کپڑے۔’

ماہرین کا خیال ہے کہ چین سے آنے والی اشیا کے بندرگاہوں پر پھنسے ہونے کی دو وجوہات ہیں۔

چین کے ووہان شہر سے شروع ہونے والا کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا، اس لیے خام مال سمیت سبھی قسم کی اشیا کی جانچ ہو رہی ہے۔

حالانکہ حکومت نے اس بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا ہے لیکن آرٹیفیشل انٹیلیجینس اور انٹرنیٹ سیکیورٹی سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ چین سے انڈیا میں آنے والی الیکٹرانک اشیا کی مکمل تفتیش ہو رہی ہے تاکہ کسی قسم کے جاسوسی والے سافٹ ویئر انڈیا میں داخل نہ ہو سکیں۔

وجے کمار گابا کے مطابق ‘کسٹمز کلیئرینس کے دوران پہلے سیمپل ٹیسٹنگ ہوتی تھی۔ لیکن اب 100 فیصد مال کی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp