ذہنی بیماریاں اور ندامتیں


ہمارے ہاں دو بڑے مسئلے ہیں۔ غربت اور مذہب کی غلط تشریح۔ غربت تو اللہ جانے کب کم ہو گی مگر مذہب کی قیادت جن لوگوں نے لے رکھی ہے وہ دنیاوی معاملات میں ذہنی طور پر پسماندگی اختیار کیے ہوئے ہیں، انہیں کسی بھی مسئلے کی حساسیت کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا جب تک کہ پانی سر سے نہ گزر جائے۔ ان دو مسئلوں کی وجہ سے پورا معاشرہ دو انتہاؤں میں بٹا ہوا ہے، ذہنی پسماندگی بڑھتی چلی جا رہی ہے، ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ذہنی مرض کو بیماری کے بجائے دیگر دقیانوسی عوامل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جیسے گزشتہ زندگی میں ان کے گناہ وغیرہ۔

جب بھی کوئی مریض ہمارے پاس آتا ہے تو وہ پہلے ہی مذہبی علاج کی توقع کے ساتھ آتا ہے، کئی بار تو میں نے بھی سوچا کہ ایک جھاڑو ساتھ رکھ لوں اور لگے ہاتھوں جھاڑ پھونک بھی کر ہی ڈالوں۔ مریض اکثر اس وہم اور احساس گناہ کے ساتھ آتا ہے کہ ہو نہ ہو اس نے یا اس کے باپ دادا نے کچھ ایسے گناہ کیے ہیں جن کی پاداش میں یہ ذہنی مسئلہ بغلگیر ہو گیا ہے یا پھر جنات نے گھر دیکھ لیا ہے ویسے تو جتنا ہمارے ہاں جنات کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے شاید پورے کرہ ارض پر اور کہیں نہ ہو۔

اوپر سے مکمل علاج بھی ان کو ایک ہی سیشن میں چاہیے۔ اب جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ ذہنی مریض فوراً ٹھیک کر دوں۔ یہ سوچ لوگوں کو ذہنی بیماریوں کے علاج سے روک دیتی ہے جو لوگ اس فیلڈ میں آتے ہیں ان میں سے بہت کم پریکٹس کی طرف آتے ہیں وجہ یہی سوچ اور رویہ ہے عوام کا۔ ہم دراصل امیون ہو چکے ذہنی بیماریوں سے، یہ برتھ مارک کی طرح ہمارے ساتھ چپکی رہتی ہیں نسل در نسل۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ جانے کتنے ہی انسانی معاشرے اور تہذیبیں وقت کی گرد میں گم ہو گئیں، کچھ اپنے ہی مکافات عمل کا شکار ہوئے اور کچھ آسمانی عذاب اور غضب خداوندی کی لپیٹ میں آئے، جب میں اپنے ارد گرد نظر ڈالتی ہوں تو ایک عجیب سا خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ دن بدن اس معاشرے میں جو بگاڑ سامنے آ رہے ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ انسانی رویوں کا خوفناک حد تک بگڑ جانا ہے۔ ایک ایسی اذیت جو ہر لمحہ کچوکے لگاتی ہو اور جس سے بچنے کی کوئی بھی صورت نہیں کیونکہ انسان کا دوسرے انسان سے تعلق انہی رویوں کی بنیاد پر مضبوط یا کمزور ہوتا ہے اور جب رویے اس قدر بگڑ جائیں کہ انسانی معاشرے پر جنگل کا گمان ہونے لگے تو اس سے بڑا عذاب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

ہماری ایشیائی کمیونٹی میں اول تو ذہنی امراض سے آگاہی نہیں اور اگر معلوم ہو بھی جائے کہ ذہنی مسئلہ ہے اور علاج سے ٹھیک ہو سکتا ہے تو ہمارے کلچر میں چیزوں کو چھپانے کا رواج ہے، ایشیائی لوگ ذہنی امراض کو چھپاتے ہیں ہمارے یہاں شرم کا تصور مغرب سے مختلف ہے بہت سے لوگ اس خوف کا شکار ہوتے ہیں کہ اگر انھیں نے اپنی بیماری کا اعتراف کر لیا تو انہیں کمزور شخصیت سمجھا جائے گا اور یہ بھی کہ کوئی ان سے شادی نہیں کرے گا۔

زبان بھی اس سلسلے میں ایک مسئلہ ہے کہ ڈپریشن کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے اور اس سے متاثرہ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ انھیں زندگی کے اتار چڑھاؤ سامنا ہے، لہٰذا ڈاکٹر کے پاس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں، یہ اعداد و شمار کرونا وائرس پھیلنے سے پہلے کے ہیں جبکہ اس وبا کے بعد ذہنی مسائل بہت بڑھ چکے ہیں۔

زندگی کے بدلتے طرز اور آرام پسندی نے انسانی بدن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس طرز زندگی نے جہاں جسم کو نقصان پہنچایا وہیں ہمارے معاشرتی رویوں خصوصاً خاندانی مسائل، معاشرتی ناہمواریوں اور غربت نے انسان پر بہت برا اثرا ڈالا ہے، اور یوں ذہنی مسائل دن بدن ایک عفریت کی صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات روز مرہ زندگی میں تشویش، غم یا خوف کی کوئی خاص یا ظاہری وجہ نہ ہونے کے باوجود دماغ میں کیمیکلز میں عدم توازن کے سبب بھی انسان ان سب کیفیات میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

ایسے موقعوں پر ماہر نفسیات سے کونسلنگ، ورزش، طرز زندگی میں تبدیلی اور سوچ کو مثبت رکھنے کی عملی مشقوں سے انسان پھر سے ہشاش بشاش ہو جاتا ہے یا پھر تجویز کردہ ادویات کے استعمال سے بھی عصبی کیمیائی مادوں کی مقدار میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں 85 فی صد تک افراد کو دماغی امراض کے کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں۔ اور پھر دماغی بیماری کو شرمندگی اور بدنامی سمجھا جانا مسئلہ کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

اس وقت ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن سب سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی وجہ سے خودکشی کی طرف رجحان بھی زیادہ دیکھنے میں آیا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں یہ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ اور اس کا برقت علاج نہ ہونے سے انسان کے دیگر اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں، مثلاً معدے کی خرابی، جوڑوں کی تکلیف، موڈ کی خرابی، نیند کا نہ آنا وغیرہ۔ غربت وتوہمات کی وجہ سے بہت لوگ ڈاکٹرز کے پاس بھی نہیں جاتے کچھ فیس نہیں دے سکتے تو کچھ ان بیماروں کو جادو نظر اور ڈرامہ قراردے دیتے ہیں۔ اس لئے ان مسائل پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق آدھے سے زائد ذہنی امراض چودہ سال کی کی عمر سے شروع ہوتے ہیں، جب جسم میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں، محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک فرد ذہنی امراض کا شکار ہے جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ذہنی مرض کو ایک عام بیماری ہی سمجھا جائے۔ جب ہمیں بخار ہوتا ہے یا پیٹ میں درد کی شکایت ہو تو کیا ہم صرف اپنی قوت ارادی سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں یا ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور دوا لیتے ہیں؟

اسی طرح مینٹل ہیلتھ ہے۔ اگر آپ اچھا نہیں محسوس کر رہے تو یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ سائیکالوجسٹ کے پاس جائیں۔ ورنہ یہ آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ذہنی امراض میں مبتلا شخص کو اس بات کا بھی بار بار احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کتنا نا شکرا ہے۔ ہاتھ پیر سلامت ہونے کے باوجود دنیا کی تمام نعمتیں ہونے کے باوجود وہ خوش کیوں نہیں ہے، افسردہ کیوں ہے۔ اس کو بار بار طعنے دے کر احساس جرم میں مبتلا کر دیا جاتا ہے، اور گوگل کے ذریعے دوائیں تلاش کی جاتی ہیں اور سیلف میڈی کیشن شروع ہو جاتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ذہنی امراض کے تدارک کے لیے علاج کے ساتھ عوام میں شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔ گو کہ آہستہ آہستہ لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا ہو رہی ہے مگر زیادہ تر لوگ اب بھی ذہنی امراض کاعلاج کرانے سے کتراتے ہیں۔ اور یہ بیماریاں تب تک رہیں گی جب تک لوگ علاج کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ جس طرح سے ذیابطیس ایک بیماری ہے اور بلڈ پریشر کا بڑھ جانا ایک بیماری ہے اسی طرح سے ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ذہنی بیماریوں کے مریض بھی ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں، تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments