زنا اور بلاسفیمی کے جھوٹے الزامات


کم عمری میں ہم نے دیکھا تھا کہ جب بھی مرد ذہانت اور پرفارمنس کے حساب سے عورت سے دب رہا ہوتا تھا یا کسی جھگڑے یا بحث میں کمزور پڑ رہا ہوتا تھا تو وہ ایک ہی ہتھیار استعمال کرتا تھا جو ہمیشہ کارگر ثابت ہوتا تھا اور وہ ہتھیار تھا، عورت کی کردار کشی۔ عورت کے بارے میں ایسے ایسے افسانے تراشے جاتے تھے کہ وہ بیچاری سہم کر خاموش ہو جاتی تھی۔ ضیا الحق کے زنا آرڈیننس نے تو اور قیامت ڈھا دی تھی کیونکہ اس میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں کوئی فرق نہیں کیا گیا تھا۔

اگر کسی عورت کا ریپ ہوتا تھا تو اسے ثبوت کے لئے چار گواہ لانے کو کہا جاتا تھا ورنہ عورت کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا تھا۔ پولیس بھی من مانے طور پر حدود قوانین کا استعمال کرتی تھی۔ اگر کوئی نوجوان جوڑا اپنی مرضی کی شادی کے لئے گھر سے نکلتا تھا تو لڑکی کے والدین لڑکے پر اغوا کا مقدمہ درج کرا دیتے تھے۔ پولیس اس جوڑے کو گرفتار کر کے اپنے طور پر حد جاری کر دیتی تھی۔

1994۔ 95 میں مرحومہ رشیدہ پٹیل کی تنظیم کے لئے میں نے کراچی جیل میں جا کے خواتین قیدیوں کی کہانیاں جمع کی تھیں۔ وہاں بہت سی خواتین حدود قوانین کے تحت جیل میں تھیں اور سب کا تعلق غریب طبقے سے تھا۔ زیادہ تر خواتین کی کہانی کچھ یوں تھی کہ پہلے شوہر نے زبانی طور پر تین دفعہ طلاق دی۔ عورت نے جا کے مولوی یا محلے کے کسی بزرگ سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں طلاق ہو گئی۔ اب کچھ عرصہ بعد جب اس عورت نے دوسری شادی کر لی تو پہلا شوہر کہیں سے نمودار ہو جاتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے تو طلاق نہیں دی۔

اب عورت کے پاس کوئی تحریری ثبوت تو ہوتا نہیں تھا۔ چنانچہ پولیس عورت اور دوسرے شوہر کو حدود قوانین کے تحت گرفتار کر لیتی تھی۔ سچی بات ہے مجھے تو اس سارے قصے میں وہ مرد سب سے زیادہ مظلوم لگتا تھا جسے دوسرا شوہر بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ آخر اس بیچارے کا قصور کیا تھا۔ اس نے شرعی طور پر ایک مطلقہ عورت سے شادی کی لیکن اسے جیل جانا پڑا اور پھر ان عورتوں کے جیل جانے پر تو ہم لوگ بجا طور پر بہت شور مچاتے تھے لیکن اس بیچارے مرد یعنی دوسرے شوہر کا کوئی نام بھی نہیں لیتا تھا کہ اسے کس جرم کی سزا ملی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ضیا الحق کے بنائے ہوئے قوانین کا بہت غلط استعمال ہوا۔

یہی معاملہ توہین مذہب کے قانون کے ساتھ ہوا۔ اسے لوگوں نے ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے استعمال کیا۔ 2018 میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی خصوصی کمیٹی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی وہی سزا دی جائے جو توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والے کو دی جاتی ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کی سزا کئی سال کی قید سے لے کر سزائے موت تک ہے۔ جب کہ جھوٹا الزام لگانے کی سزا پاکستان کے ضابطۂ تعزیرات کی دفعہ 182 کے تحت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ یا ایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔

کمیٹی نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ توہین مذہب کا مقدمہ درج کرانے والے کو پولیس اسٹیشن میں دو گواہ بھی پیش کرنا ہوں گے جو اس کے الزام کی تصدیق کریں۔ جمعیت علمائے اسلام فضل گروپ کے سینیٹر مفتی عبدالستار نے ان تجاویز کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر قوانین کا بھی تو غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ فرحت بابر کا کہنا تھا کہ ہم قانون میں تبدیلی نہیں کر رہے بلکہ اس کے غلط استعمال کو روکنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے ایک سال پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے تجویز پیش کی تھی کہ پارلیمنٹ کو اس قانون کو مضبوط بنانے کے لئے اس کے غلط استعمال یا جھوٹا الزام لگانے والے کے لئے بھی وہی سزا مقرر کرنی چاہیے۔

یہ تجویز اس پیٹیشن کے بارے میں آرڈر جاری کرتے ہوئے دی گئی تھی جو سوشل میڈیا سے توہین آمیز مواد کو ہٹانے کے بارے میں تھی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے آرڈر میں کہا تھا کہ اس قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے ناقدین اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کو ختم کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے استحصال کو روکا جائے۔ اس وقت معزز جج نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا تھا۔

وزارت داخلہ نے فروری میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان تجاویز میں توہین مذہب کے جھوٹے الزام کی سزا کو توہین مذہب کی سزا کے مساوی کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ یہ معاملہ عدالت کے سامنے سب سے پہلے لال مسجد کی شہدا فاؤنڈیشن لائی تھی۔ جس نے پانچ بلاگرز پر گزشتہ سال سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔ بہر حال ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ بلاگرز جو سال کے اوائل میں غائب کر دیے گئے تھے، توہین مذہب کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اور ایجنسی کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ اس مقدمے کے فیصلے میں جسٹس صدیقی نے بڑی تفصیل سے اس قانون پر ہونے والی تنقید کا ذکر کیا تھا۔ اور یہ بھی کہ کیسے ذاتی دشمنی کی بنا پر لوگ اپنے مخالفین کو توہین مذہب کے مقدمات میں گھسیٹتے ہیں۔

آسیہ بی بی اور مشال خان کے کیسز کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن وجیہہ الحسن کا کیس کم لوگوں کو ہی یاد ہو گا، اس شخص پر 1999 میں ایک وکیل اسمعٰیل قریشی نے توہین مذہب پر مبنی پانچ خطوط لکھنے کا الزام لگایا تھا۔ 2002 میں کمزور شواہد اور کمزور گواہی کے باوجود اسے دہری سزا سنائی گئی پاکستان ضابطہ فوجداری کی دفعہ 295 A کے تحت دس سال قید کی سزا اور 295 Cکے تحت موت کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزا لاہور کے ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ نے سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔

وجیہہ الحسن نے اگلے اٹھارہ سال جیل کی کال کوٹھری میں گزارے۔ توہین مذہب کے مرتکب کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ 25 ستمبر 2019 کو سپریم کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلے میں اسے کمزور اور ناکافی ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا۔ اسی بنا پر 2018 میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو رہا کیا تھا لیکن آج بھی بہت سے لوگ جیلوں میں جھوٹے الزامات کی بنا پر قید ہیں۔

کسی کے کردار پر الزام لگانا یا کسی پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانا قذف میں شمار ہو گا اور قذف بارہواں بڑا گناہ ہے۔
(شرک، یاسDespair، قنوط Despondence، Disregard of Allah ’s punishment، قتل، والدین کی نافرمانی، قطع رحمی، یتیم کی املاک غصب کرنا، Usury، Fornication، Sodomy کے بعد بارہواں بڑا گناہ قذف ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments