کچھ تخلیقی عمل کے بارے میں


خلق کرنے /ہونے کا عمل ’تخلیقی عمل‘ ہے۔ کرنا شعور کے ساتھ جبکہ ہونا لاشعور کے ساتھ مشروط ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ شعور کے ساتھ لاشعور اور لا شعور کے ساتھ شعور نہیں ہوگا۔ انگریزی میں اسے ”کری ایٹو پراسیس“ کہتے ہیں۔ ’پراسیس‘ ابتدا سے انتہا تک کا دورانیہ ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز ابھی ’پراسس‘ میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ تیار ہو رہی ہے، تیاری کے مراحل میں اور مکمل نہیں ہوئی ہے۔

جب وہ مکمل ہو جائے گی تو سمجھیے، پراسس سے باہر آ گئی ہے۔ یوں تخلیقی عمل اختتام کو پہنچتا ہے۔ لکڑی سے کرسی بننے تک کا عمل ’کری ایٹو پراسیس‘ ہے۔ اس پراسس سے لکڑی خود کسی خودکار نظام کے تحت نہیں گزرتی، اس کو اس عمل سے گزارنے والا بڑھئی، کری ایٹر ہوتا ہے۔ ادبی فن پارہ بھی ’تخلیقی پراسس‘ سے گزر کر قاری تک پہنچتا ہے۔ اسے اس عمل سے گزارنے والا ’تخلیق کار‘ کہلاتا ہے۔ تخلیقی عمل کو جاننا دراصل اس پراسس کو جاننا، سمجھنا اور سمجھانا ہے، جس سے گزر کر تخلیق ’خلق‘ ہوتی ہے۔

اوپر کہا گیا ہے، خلق ہونے /کرنے کا عمل تخلیقی عمل ہے۔ یہ بات درست/معقول ہے، مگر انتہائی سادہ، اکہری، یک رخی اور سطحی ہے۔ تخلیقی عمل کے بارے میں کوئی بات یقینی، آخری اور حتمی نہیں کہی جا سکتی، اس لیے کہ یہ انفرادی عمل ہے۔ انفرادی عمل کے لئے کوئی ’تھیوری‘ پیش نہیں کی جا سکتی۔ تھیوری ان بنیادی اصولوں سے مکالمہ کرتی ہے، جو انفرادی نہیں ؛اجتماعی نوعیت کے حامل ہوں۔ تخلیقی عمل چوں کہ انفرادی مسئلہ ہے، اس لئے اس بارے کی جانے والی چند بنیادی گزارشات ضروری نہیں، مجموعی تخلیق کاروں کو محیط ہوں۔

تخلیقی عمل میں سب سے پہلے تخلیقی محرکات کو بیان کیا جاتا ہے۔ بعض ناقدین تخلیقی محرکات کو ہی ’تخلیقی عمل‘ سمجھتے ہیں، وہ سخت مغالطے کا شکار ہیں۔ تخلیقی محرکات، تخلیقی عمل کا صرف ایک پہلو ہیں اور وہ بھی تخلیقی عمل سے پہلے، کل تخلیقی عمل نہیں ہیں۔ تخلیقی عمل میں کئی عناصر مل کر کام کرتے ہیں، جن میں تخلیقی محرکات، تخلیق کے لئے سازگار ماحول، زبان کا وسیع نظام (جسے سوسیئر لاؤنج کا نام دیتا ہے ) ، تخلیق کار کا شعور، لا شعور اور اجتماعی لا شعور، تخلیق کار کا تجربہ، علم، قوت مشاہدہ، مطالعہ، تخیل اور تخیلاتی اپج، جذبہ احساس، ذوق جمال وغیرہ تخلیقی پراسس میں شامل ہیں۔ ان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیک وقت یہ سب تخلیقی عمل مین میں شامل بھی ہو سکتے ہیں، اور ان سے دوچند بھی۔ تخلیق فن کے کیا محرکات ہیں، مختلف نظریات ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں :

1۔ تخلیقی صلاحیت اکتسابی، وہبی ہے اور قدرت کی عطا کردہ ہے۔ (قدیم نظریہ فن)
تخلیقی صلاحیت کا یہ تصور ڈاکٹر وزیر آغا تسلیم کرتے ہوئے اس پر زور دیتے ہیں۔
2۔ فن کی تخلیق میں جنسی محرکات ہوتے ہیں۔ (فرائیڈ)
3۔ تخلیق فن، احساس کمتری کا مثبت اظہار ہے۔ (ایڈلر)
4۔ تخلیق فن میں اجتماعی لاشعور کا عمل دخل ہے۔ (ژونگ)
5۔ تخلیقی عمل کسی خارجی محرک (معاشرتی زندگی) سے مشروط ہوتا ہے۔ (جدلیاتی مادیت)
6۔ اعلیٰ فن پارہ شعوری اور لا شعوری دونوں قوتوں کے باہم ملنے سے وجود میں آتا ہے۔ (شیلنگ)
7۔ شعر کی تخلیق میں قصد یا ارادہ نہیں ہوتا۔ (ابن رشیق)
8۔ شعر فیضان رحمت ہے جو اہل دل کی طبیعت پر نازل ہوتا ہے۔ (محمد حسین آزادؔ)
9۔ شاعر ارادے سے مضمون نہیں باندھتا بلکہ خود مضمون شاعر کو مجبور کر کے اپنے تئیں اس سے بندھواتا ہے۔ (الطاف حسین حالیؔ)
10۔ تخلیقی عمل میں خیال اور لفظ ایک ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ ( کلیم الدین احمد )
11۔ تخلیقی صلاحیت وہبی ہے، اور تخلیقی عمل کسی خارجی محرک کے تحت شروع ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر وزیر آغا)

تخلیقی محرکات کے باب میں کم و بیش یہی نظریات بحث کا حصہ رہتے ہیں، ان سب کا تعلق بشمول ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں‘ تخلیقی عمل کی ابتدا کے ساتھ ہے۔ تخلیقی عمل، تخلیقی محرکات کے بعد میں شروع ہوتا ہے۔ اگر محرک تخلیقی عمل کا حصہ ہیں تو ان کو ہی تخلیقی عمل سمجھ لینا گمراہ کن ہے۔ جو لوگ تاریخی شعور رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ تاریخی واقعات خود بخود نہیں جنم لیتے بلکہ ان کے محرکات ہوتے ہیں۔ (یہی محرکات اسباب اور وجوہات ہوتے ہیں ) ۔

ان محرکات کے بعد واقعات شروع ہوتے ہیں۔ محرک کوئی ہو، اس کی حیثیت محرک کی ہے۔ ’کری ایٹو پراسیس‘ دراصل وہ لمحہ ہے، جس میں تخلیق کار، تخلیق کو وجود میں کے لئے سر گرم ہوتا ہے۔ لفظ ’سر گرم‘ سے مبادا غلط فہمی ہو، یہ آمد اور آ ورد دونوں کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی خارجی محرک سے یا بغیر محرک کے بے ساختہ وزن اور بحر میں ردھم کے ساتھ ’شعر‘ نازل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں تخلیق کہاں، تخلیق کار کی حیثیت کیا، اور خود تخلیقی عمل کی وضاحت کی کیا ضرورت رہ جاتی ہیں۔ اس گورکھ دھندے کو دیکھ کر تخلیقی عمل کی بحث کو لا حاصل قرار دینا تنقیدی رویہ نہیں ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کی بعض اعلیٰ درجے کے تخلیقات، خارجی محرک کے تحت وجود میں آتی ہیں۔

مجید امجد کی نظم ’آٹو گراف‘ خارجی محرک کے تحت وجود میں آئی۔ واقعہ یہ ہے، کرکٹ میچ سے باہر نوجوان خوب صورت لڑکیاں اپنی اپنی بیاض تھامے، حسرت بھری نگاہوں سے بڑی بے نیازی کے ساتھ کھلاڑیوں سے آٹو گراف لینے کی منتظر ہیں۔ کھلاڑی بھی بے نیازی اور غرور کے ساتھ ان کی بیاض پہ آٹو گراف (لکیر کھینچتے ہیں ) دیتے جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر شاعر احساس کمتری محسوس کرتا ہے۔ اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ خارجی محرک حقیقی ہے یا شاعر کی ذہنی اختراع ہے۔

واقعہ پیدا کرنا، مناظر متشکل کرنے، وہاں کی صورت حال کو دیکھنا، محسوس کرنا اور پھر ایک تخلیق پیش کرنا، اس بات پر دال ہے کہ نظم کا خارجی محرک موجود ہے، چاہے وہ حقیقی ہے یا فرضی۔ مگر ہر تخلیق کار کے ہاں اس محرک کے تحت تخلیق پیش کرنا انفرادی عمل ہے۔ واقعہ ایک پیش کش الگ الگ۔ مزید یہ کہ موضوع، جذبہ، خیال، تاثر، فکر، مشاہدہ اور بسا اوقات تخیل بھی یکساں ہو سکتا ہے، مگر اس کی پیش کش تخلیقی عمل کے ساتھ ایک ہی طرز پر نہیں ہو سکتی، الگ الگ ہو گی۔

تخلیقی محرک سے نکل کر ہم تخلیقی عمل کی ترف آتے ہیں۔ تخلیق کار زبان کے وسیع نظام (لانگ) سے لفظوں کا انتخاب کرتا ہے۔ منتخب لفظوں کا استعمال تخلیقی شعور کے تحت ہوتا ہے۔ زبان کے اس وسیع نظام سے تخلیق کار جو تخلیق (پارول) پیش کرتا ہے، وہ اس کی انفرادی کوشش ہوتی ہے۔ اب اس کوشش کو توارد خیال کیا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اس کوشش کے بہتر، کم بہتر اور زیادہ بہتر ہونے کا تعلق تخلیق کار کے علم، مطالعہ، تجربہ، مشاہدہ، تربیت، ریاضت اور روایت سے آگاہی میں مضمر ہے۔ علم سے یہاں مراد معلومات نہیں کہ محض اس بنیاد پر اعلیٰ تخلیق نہیں پیش کی جا سکتی۔ ایک فن پارہ میں جس قدر لفظ کم مکرر ہوں گے، وہ فن پارہ اس قدر پختہ اور تخلیقی ہوگا، بشرطیکہ تخلیق کار کے ہاں تخلیقی اپج بدرجہ اتم موجود ہو۔

تخلیقی عمل میں شعور، لاشعور اور اجتماعی لا شعور، علم، تجربہ، مشاہدہ اور مطالعہ برابر شریک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود تخلیق تخلیق کار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ غزل کے ایک شعر کے بعد تخلیق کار اس بحر اور قافیہ (اگر ردیف ہے تو اس کا بھی) کا پابند ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کسی حد تک نظم اور افسانہ بھی اپنے آغاز اور وسط کے زیر تخلیق کار کو انجام کا پابند کرتے ہیں۔ جس قدر کوئی فن پارہ طویل اور بڑھتا جائے گا اسی قدر فن پارہ ربط، تسلسل، فنی تقاضوں اور توجہ کا متقاضی ہوتا جائے گا۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تخلیق کے آغاز کے بعد وہ برابر اختتام/ انجام تک تخلیق کار کو متاثر کرتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تخلیق خود خلق ہوتی جاتی ہے، یعنی جن خیالات کو تخلیق کار لیے بیٹھا ہوتا ہے، ان میں سے بہت رہ جاتے ہیں، جو اس کے خیال میں نہیں ہوتے، وہ تخلیق میں شامل ہو جاتے ہیں۔ دوران تخلیق لکھے کو کاٹنا، کاٹ کر لکھنا اور لکھنے کے لئے سوچنا ’تخلیقی عمل‘ میں شمار ہوتا ہے۔ خیال سے انتخاب لفظ، انتخاب لفظ سے لکھنے اور لکھنے سے انجام فن پارہ تک کا سارا عمل ’تخلیقی عمل‘ ہے۔

بقول ڈاکٹر وزیر آغا تخلیقی عمل کا اختتام اس وقت ہوتا ہے، جب تخلیق کار کہتا ہے ’اب ٹھیک ہے‘ ۔ تخلیق کا پہلا قاری خود تخلیق کار ہوتا ہے۔ وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے بعد تخلیق، تخلیق کار سے الگ ہو کر قاری کے رحم و کرم پر ہو جاتی ہے۔ اب اس کو پڑھنا، سمجھنا، پرکھنا، ڈی کوڈ کرنا قاری پر منحصر ہے اور اگر وہ قاری نقاد ہے تو اس کا آگے سمجھانے یا بیان کرنے ’تخلیق مکرر‘ کے ذریعے ممکن ہے۔ قاری/نقاد دوران قرات تخلیق کو سمجھنے کے لئے اس تخلیقی عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا جس سے گزر کر تخلیق قاری تک پہنچتی ہے۔

تخلیق کی فنی حیثیت کچھ بھی ہو، پرلطف ہو یا نہیں، وہ تخلیقی عمل سے گزر کر ہی سامنے آتی ہے۔ تخلیقی عمل کا دورانیہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ تخلیق، تخلیق کار کے وجود میں پک کر جنم لے تو ممکن ہے وہ زیادہ پختہ ثابت ہو، تاہم یہ کوئی اصولی بات نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کاٹ چھانٹ کا عمل اور توارد جتنا گہرا ہوتا جائے گا اس قدر تخلیقی عمل کمزور پڑتا جائے گا۔ اس بات کو یہ کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے کہ کاٹ چھانٹ کے بعد بھی ایسے فن پارے موجود ہیں، جو گہرے تخلیقی عمل کے بعد بھی وجود میں نہیں آ سکے۔

تخلیقی عمل اپنی اصل میں لا شعوری عمل ہوتا ہے، مگر شعور سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار کا اجتماعی لا شعور بھی اثر کر رہا ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران چند مسائل و مشکلات سے بھی تخلیق کار کو گزرنا پڑتا ہے۔ اردگرد کا ماحول، ذاتی تعصبات، ترجیحات، سماجی اور دیگر قوتیں، کم تخلیقی صلاحیت اور چند دیگر مسائل شامل ہیں۔ تاہم یہ بات زور دے کر کرنے کی ہے کہ تخلیقی وصف وہبی ہے، مگر اسے تربیت، ریاضت اور اکتساب سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

ایک بات یاد رہے کی تخلیقی عمل پر تخلیق کار مکمل قادر نہیں ہے، اور جس طرح کوئی تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل پر قادر نہیں بعینہ قاری/نقاد کے لئے تخلیقی عمل سمجھنا اور سمجھانا آسان نہیں ہے۔ ایک وقت میں لکھی ایک تخلیق کار کی دو نظمیں فنی پختگی میں برابر نہیں ہو سکتی ہیں۔ ثابت ہوا تخلیق کار خود تخلیقی عمل پر قادر نہیں، اگر کوئی قادر ہوتا تو اس کے لکھے تمام فن پارے برابر ہوتے۔ اس نقطہ پر پہنچ کر تخلیق کار کے مطالعہ، مشاہدہ، علم، تربیت، ریاضت، تجربہ اور روایت سے آگاہی پر سوال اٹھ جا تا ہے۔ اگر سب کچھ اس کے پاس ہے تو اس کے ایک وقت میں لکھے دو فن پارے برابر کیوں نہیں ہیں۔ چاہے دونوں جتنے بھی خیال اور فن کے اعتبار سے پختہ کیوں نا ہوں ایک بہتر اور دوسرا زیادہ بہتر ضرور ہوگا۔

تخلیق، تخلیقی زبان کے استعمال سے وجود میں آتی ہے۔ مصنف کے بعد وہ قاری کے ہاتھ میں آتی ہے، جہاں ’ڈی کوڈنگ‘ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ تخلیق سے لطف اندوزی اس کی بہتر تفہیم سے ہی ممکن ہے۔ تخلیقی عمل میں تخلیق کا رکے ہاں اظہار اور ابلاغ دونوں برابر توجہ کے حامل ہونے چاہئیں۔ کسی ایک کی کمزوری دوسرے کو غالب ہونے کا موقع سے سکتی ہے۔ وہی تخلیق کامیاب ہو جس میں اظہار اور ابلاغ دونوں کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ ایک جینوئن تخلیق کار کے لئے تخلیقی عمل سمجھنا اضافی عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments