اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق


یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان اتنے کمزور ہیں کہ ایک مندر بننے سے یا کسی کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے سے خطرے میں پڑ جائیں گے اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہم نے بھی اسی مذہبی اور سیاسی آزادی کے لیے 73 سال پہلے ہزاروں جانیں قربان کر کے ایک زمین کا ٹکرا علیحدہ کرایا تھا اور آج ہم وہی سلوک غیر مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔

میرا علماء اور لوگوں سے سوال ہے کہ غیر مسلم علاقوں میں کافروں کی زمین اور ٹیکس کے پیسے سے بننے والی مسجدیں کیا جائز ہیں اور کیا ان میں عبادت کرنا جائز ہے اور بالفرض اگر غیر مسلم ممالک ہماری عبادت گاہوں کو ناجائز قرار دے کر تعمیرات کی اجازت نا دیں تو؟

فان قبلوا الذمة فاعلمہم ان لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین ”(بدائع الصنائع، ج: 6، ص: 62 )
اگر وہ ذمہ قبول کر لیں، تو انھیں بتا دو کہ جو حقوق و مراعات مسلمانوں کو حاصل ہیں، وہی ان کو بھی حاصل ہوں گی اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہیں وہی ان پر بھی عائد ہوں گی۔

ایک اور واقع کا ذکر کروں گی:
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن بصری سے اس سلسلے میں ایک استفتاء کیا تھا:
”ما بال الخلفاء الراشدین، ترکوا اہل الذمة، وماہم علیہ من نکاح المحارم، واقتناء الخمور و الخنازیر“

کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سور کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دیا۔

جواب میں حضرت حسن بصری نے لکھا:
”انما بذلوا الجزیة لیترکوا وما یعتقدون، وانما انت متبع لا مبتدع“

انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیا ہے کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ کا کام پچھلے طریقے کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا ”
(اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: 11 )

ہمیں دماغ کھول کر یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے غیر مسلم (خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ) انہیں اسلام جینے کا اور عبادت کا اتنا ہی حق دیتا ہے جتنا مسلمان اور مومن کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments