نفسیات، پاکستان اور کرپشن


آپ نے سیاستدانوں اور دنیا کی دیگر اہم شخصیات کے نفسیاتی تجزیے ضرور پڑھے ہوں گے۔ ماہرین نے ھٹلر، مسولینی، اسٹالن اور صدام حسین کی شخصیات کے معرکۃالآرا تجزیے تحریر کیے ہیں۔ ان ماہرین میں ایرک فرام اور ہنری مرے جیسے ماہرین شامل ہیں۔ اس ضمن میں چند ماہرین کے تازہ تجزیے بھی شامل کیجیے۔ ہندوستان کے معروف ماہر نفسیات اشیش نندی نے نریندرا مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین کے انٹرویوز کے بعد اپنے تجزیے تحریر کیے تھے۔ ان کی رائے میں نریندرا مودی تحکم پسند Authoritarian شخصیت کی ایک کتابی تصویر ہیں۔ ذہنی صحت کے شعبے کے ایک امریکی ماہر جسٹن فرینک نے تین امریکی صدور بش جونیئر، بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نفسیاتی تجزیے تین کتابوں میں تحریر کئے ہیں۔ اشیش نندی اور جسٹن فرینک کے تجزیوں میں فرق یہ ہے کہ نندی صاحب کا تجزیہ نریندرا مودی سے بالمشافہ ملاقات کے بعد لکھا گیا تھا جبکہ جسٹس فرینک کے تجزیئے ان معلومات کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں جن تک ہر خاص و عام کو عموماً رسائی ہوتی ہے۔

ٹرمپ پر لکھی گئی کتاب Trump on the couch فرینک کی گزشتہ دو کتابوں کے مقابلے میں خاصی مقبول ہوئی اور اخبارات نے کثرت سے اس کتاب پر لکھے گئے تبصروں کو شائع کیا۔ اقبال دیوان صاحب نے اپنی ایک تحریر میں مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل مرحوم کے بارے میں یہ لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کے صدر داؤد کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں اُنہیں اس لیے شامل رکھا تاکہ وہ سردارداؤد کا نفسیاتی تجزیہ کرسکیں۔ بڑی شخصیات کے نفسیاتی تجزیہ کو اصطلاحاً سائیکالوجیکل پروفائل کہا جاتا ہے۔ ایسی شخصیات ظاہر ہے حامیوں اور مخالفین میں گھری رہتی ہیں۔ ایسے پروفائل ان شخصیات کے بارے میں دونوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن کا اسی طرح کا ایک پروفائل امریکی سی آئی اے نے تیار کیا تھا۔ (سی آئی اے اس ضمن میں سب سے معروف یا بدنام ایجنسی کہی جاسکتی ہے)۔

جمہوری ممالک میں ایسے پروفائل عوام کی مدد کے لیے بھی لکھے جاتے ہیں تاکہ درست امیدوار کے چناؤ انہیں میں آسانی ہو۔ ہو سکتا ہے پاکستان کے پاور سینٹر آج بھی یہ کام کرتے ہوں لیکن اقبال دیوان صاحب کی تحریر سے پہلے مجھے اس طرح کی کسی کوشش کا علم نہیں تھا۔ مجھے یہ علم تو ضرور ہے کہ سیاست کے علاوہ کھلاڑیوں، مجرموں اور طلباء کے بھی پروفائل تیار کیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں شریک امیدوار اور فوج میں بھرتی کے لیے جانے والے بھی نفسیاتی آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ چونکہ یہ ٹیسٹ بہت ہی بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں اس لئے ان کی مدد سے تیار ہونے والی رپورٹ کو پروفائل شاید نہ کہا جا سکے۔

کیا پاکستان میں اعلیٰ شخصیات کے نفسیاتی پروفائل تیار ہوتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات میرے لیے زیادہ اچھنبے کا باعث ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ پروفائل اور ان کے مقاصد یقیناً عوام سے مخفی رکھے جاتے ہوں گے۔

اگر آپ نندی صاحب کی کاوش کو ایک طرف رکھیں اور تیار کیے کیے گئے دیگر نفسیاتی پروفائل دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ کسی بھی شخصیت کی ہسٹری، والدین، اس کے خاندانی حالات، بچپن، لڑکپن، جوانی، تعلیم، اس کی بول چال، تعلقات، پبلک پرفارمنس، الفاظ کا چناؤ، لہجے کے اتار چڑھاؤ، گفتگو کے موضوعات اور اس طرح کے کئی عوامل کے گہرے مطالعے سے اخذ شدہ نتائج پر مبنی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں علم کے کئی شعبوں پر کام ہونا باقی ہے وہاں اس طرح کے نفسیاتی پروفائل پر بھی کام بھی نہیں ہو سکا۔ ایسا نہ ہو سکنے میں جہاں ماہرین نفسیات کی کوتاہی ہوگی وہاں ہمارے سیاسی کلچر میں برداشت کا فقدان بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ رہا ہوگا۔

آپ کسی سیاسی رہنما کا پروفائل لکھ کر دیکھئے باوجود اس کے کہ یہ ایک علمی کام ہے مگر سیاسی رہنما کی کسی کمزوری پر لکھنا اپنے آپ کو گالیوں کی باڑھ پر رکھنے کے مترادف ہے۔ اس کام کے نہ ہو سکنے کی ایک اور اہم وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ سیاسی رہنماؤں کی شخصیت کا تجزیے کا یہ کام بھی دیگر اور تجزیوں کی طرح پاکستان میں “سینئر تجزیہ نگاروں” نے سنبھال لیا ہے۔ علم نفسیات کے بارے میں ویسے بھی ایک عام خیال یہی ہے کہ کامن سینس سے زیادہ اس علم کے دامن میں اور کچھ نہیں ہے اور کامن سینس ظاہر ہے ہر کسی کے پاس ہوتی ہے۔

اگر آپ نے اس تمہید سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ طالب علم کسی سیاسی رہنما کا پروفائل لکھنے جا رہا ہے تو معافی چاہتا ہوں آپ غلطی پر ہیں۔ اس تحریر کا مقصد ان نفسیاتی عوامل کا جائزہ لینا ہے جو پاکستان کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے کے ذمہ دار قرار دیئے جا سکتے ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم کرپشن ختم کرنے کے واحد نعرے پر الیکشن جیت کر حکومت میں آئے ہیں۔ وہ جب سے سیاست میں ہیں انہوں نے پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ پاکستان میں (صرف) سیاستدانوں کی کرپشن کو قرار دیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا 2013 کے الیکشن تک انہوں نے کبھی بھی اپنی کامیابی کے بارے میں بلند و بانگ دعوے نہیں فرمائے تھے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں کرپشن کے خلاف ان کی مہم میں وہ طاقت نہیں تھی جو پیپلز پارٹی اور اس کے بعد نون لیگ کے ادوار حکومت میں دیکھنے کو ملی۔ کیا سبب ہے کہ کرپشن کے خلاف نعروں کا روئے سخن صرف سیاستدانوں کی جانب ہوتا ہے؟ اور جب ایسا ہوتا ہے تو ان نعروں کو عوامی پذیرائی کس بنیاد پر ملتی ہے؟ میں اقتصادی امور پر معلومات کے حوالے سے بالکل کورا ہوں۔ پاکستان کے اقتصادی اشاریے، ان میں اتار چڑھاو، پاکستان پر مجموعی قرضوں اور ان کا جی ڈی پی کے ساتھ تناسب۔۔۔ یہ سب اس طالب علم کے علم و فہم سے ماورا امور ہیں لیکن لیکن یہ بات بہرحال سامنے کی ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی صورتحال کی جو تصویر میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے رکھی گئی وہ انتہائی مبالغہ آمیز تھی۔

آپ کو یقیناً یاد ہوگا پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی کرپشن کے تخمینے بھی لگائے گئے تھے۔ میں اپنی بے بضاعتی اور کم علمی کو روتا رہا مگر مجھے کوئی یہ نہ بتا سکا کہ یہ تخمینے کس نے کن معلومات کی بنیاد پر لگائے ہیں۔ ان تخمینوں میں پاکستان کرپشن کے جس درجے پر فائز دکھایا جا رہا تھا اس سے ذہن میں یہ سوال لازمی طور پر ابھرتا تھا کہ خدا معلوم اتنی پھیلی ہوئی کرپشن سے نجات کیسے ملے گی لیکن لیکن پھر ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ صرف 90 دن میں ملک اقتدار کے اعلیٰ مناصب پر ہونے والی کرپشن سے پاک ہوجائے گا۔ کرپشن کے تخمینے اور اس سے نجات کے بیان کردہ طریقے دونوں نہ صرف انتہائی مبالغہ آمیز تھے بلکہ ناقابل یقین حد تک غیر حقیقی لگتے تھے۔ مگر اس سب کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان باتوں پر یقین کرلیا بلکہ بہت سے پیش کیے جانے والے اعدادوشمار اور کیے جانے والے وعدوں کے غلط ثابت ہو جانے کے بعد بھی وہ ان پر تاحال یقین رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم اس سوال پر غور کریں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوتا مختلف نظریات اور معلومات کو بلا غوروفکر اور بلا تحقیق مان لینا اور پھر ان نظریات اور معلومات کے غلط ثابت ہو جانے کے بعد بھی ان پر یقین کیے جانا۔۔۔۔ یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدام حسین کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا الزام مغرب میں سکائی اور فوکس نیوز نے امریکی اور برطانوی حکومتوں کے ایماء پر لگایا تھا۔ کولن پاول کا سلامتی کونسل میں ایک گمراہ کن خطاب بھی آپ کو یاد ہوگا جس میں انھوں نے ناقابلِ یقین حد تک غلط بیانی سے کام لیا۔ بعد میں انہوں نے اس کذب بیانی کا اعتراف کیا۔۔ ان کے اس خطاب کو عراقی مندوب نے اسی وقت نہ صرف غلط قرار دیا بلکہ غلط ثابت بھی کیا۔ لیکن مغرب میں عوام کی اکثریت صدام حسین پر لگنے والے الزامات پر یقین لاچکی تھی۔ گو یہ یقین اب مضمحل ہو چکا مگر مسلمانوں اور دہشت گردی کے مابین جو تعلق عراق کی جنگ سے پہلے قائم کیا گیا تھا وہ آج بھی عوام کے ذہنوں میں موجود ہے۔ بعینہٖ یہی تعلق پاکستان میں کرپشن اور سیاستدانوں کے درمیان استوار کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔ اب واپس اس سوال کی جانب لیے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟

دنیا کے ان ممالک (چند استثناؤں کے ساتھ) جہاں نوآبادیاتی نظام موجود رہا ہے کے باشندوں میں اپنے حکمرانوں اور حکومتوں کی جانب محبت اور نفرت Love Hate کا ملا جلا رویہ موجود ہے۔ برصغیر پر برطانوی تسلط کے نتائج ہمارے سامنے ہیں مگر ان نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں۔۔ نوآبادیاتی نظام کے اثرات کا مطالعہ پاکستان میں گنے چنے افراد نے کیا ہے لیکن ہندوستان کے ماہرین کا گراں قدر کام اس ذیل میں ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستانی ماہرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ نوآبادیاتی نظام ہر صورت میں برصغیر کے عوام کے لئے نقصان کا سبب بنا۔ برطانوی راج چونکہ مغل سلطنت کے خاتمہ کا سبب بنا تھا اس لیے برصغیر کے مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ نوآبادیاتی نظام کے اثرات کا جائزہ لیتے مگر ایسا نہ ہوا۔ ان کے برعکس یہ کام گریندرو شیکھر بوس، اشیش نندی اور سشی تھرور جیسے لوگوں نے کیا۔

نو آبادیاتی نظام کے منجملہ دیگر نقصانات میں سے ایک حکمرانوں اور عوام کے مابین استوار ہونے والا بیک وقت محبت اور نفرت میں گندھا تعلق تھا۔ نو آبادیاتی نظام میں عوام نے حکومت کو کبھی اپنا نہیں سمجھا۔ انہوں نے حکومت کو بیرونی حکومت سمجھ کر اپنے آپ کو حکومت اور حکومتی اداروں سے الگ سمجھا اور الگ رکھا۔ آزادی کے بعد یہی رویہ اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں موجود رہا۔ حکومت اور حکومتی ادارے عوام کے لئے لیے بیرونی حکمرانوں کی مانند ہی رہے۔ آپ نے پاکستان میں مظاہرین کو حکومتی املاک کا نقصان کرتے دیکھا ہوگا۔ ٹریفک سگنلز، پولیس کی گاڑیاں، دفاتر اور ٹرانسپورٹ جو بھی مظاہرین کی زد میں آجائے پرایا مال سمجھ کر وہ اسے اپنے غصے کا نشانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب انہی مظاہرین کے دیئے گئے ٹیکس کی رقوم سے تعمیر ہوتے ہیں۔ لیکن عوامی نفسیات میں حکمران غاصب ہیں اور ان کی ہر شے غصب شدہ ہے اور اور غصب شدہ شے کی بربادی میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیئے۔ حکومت کی جانب ہمارا یہ عمومی رویہ نوآبادیاتی نظام کی باقیات میں سے ایک ہے۔ ہم نے چونکہ نو آبادیاتی نظام کی باقیات کا مطالعہ نہیں کیا اس لیے نہ تو یہ رویہ ہماری سمجھ میں آ سکا اور نہ اس کی اصلاح ہو سکی۔ اس ذہنی حالت کو ذہن میں رکھیے جو حکومت اور حکمران کی مخالفت اور مغائرت سے عبارت ہے اور ذرا ایک درسی بات دیکھیے۔

نفسیات کے طلبہ کو لیون فیسٹنگر Leon Festinger کا دیا گیا ایک نظریہ پڑھایا جاتا ہے جسے اس نے Cognitive  dissonance  کا نام دیا تھا اس نظریہ کے مطابق اگر فرد کے مختلف نظریات میں تضاد ہو تو یہ تضاد فرد کے لئے نفسیاتی الجھنوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ان نفسیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے فرد اس تضاد سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر پر میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ مغرب کے بارے میں ہمارے معاندانہ رویے کے باوجود مغرب میں رہنے کو ترجیح دینا ایک نفسیاتی کشمکش کا سبب بنتا ہے اور اب یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ مغربی اقدار کو برا سمجھنے کے باوجود مغرب میں قیام پذیر رہنے والے افراد نہ تو یہاں خوش رہتے ہیں اور نہ ہی ہہاں بہتر کارگزاری دکھا پاتے ہیں۔ ۔۔۔ جب انسان کے نظریات میں تضاد ہوگا تو نتیجہ نفسیاتی الجھن اور بری پرفارمنس کی صورت میں ہی نکلے گا۔ مغربی اقدار کو برا سمجھنے والے مغربی سازش کی ہر تھیوری پر دل و جان سے یقین کرنے پر ہمیشہ آمادہ و تیار رہتے ہیں۔

ہر حکمران اور حکومت کو غیر سمجھنے کا رویہ رکھنے والے ہر حکمران کو اپنا دشمن سمجھنے پر آسانی سے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کے خلاف ہر جھوٹی سچی کہانی پر یقین دلانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ صرف ایک پیغام کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ پیغام عوام کے دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے۔۔۔۔ جو حکمران کو پہلے ہی دشمن سمجھتا ہو، اپنی پسماندگی، غربت اور تباہ حالی کا زمہ دار سمجھتا ہو تو ایسے کو اگر کوئی کرپٹ بھی کہہ دے تو ماننے سے وہ کیونکر انکاری ہوگا۔

یہاں پاکستان کے حوالے سے ایک اور سوال پر غور فرمائیے۔ کرپشن کے الزامات صرف جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومتوں پر ہی کیوں لگے؟ کسی فوجی حکمران نے کبھی ان الزامات کا سامنا نہیں کیا۔ کیا فوجی حکمران کرپٹ نہیں تھے یا انہوں نے کرپٹ افراد کی سرپرستی اور پشت پناہی نہیں کی؟ لیکن اس کے باوجود ان پر کبھی کرپشن جیسے الزامات نہیں لگے۔۔۔۔۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔۔۔۔۔ اپنے مستقبل کے بارے میں باندھی جانے والی مسلمانوں کی امیدوں کا تجزیہ فرمائیے۔۔۔ دلی کے لال قلعہ پر لہراے جانے والا پاکستانی پرچم، مسئلہ کشمیر کا فوجی حل، جہاد اور غزوہ ہند ۔۔۔۔ مسلمانوں کی امیدوں کا محور ہیں۔ ان امیدوں کے سائے میں جب صدام حسین، اسامہ بن لادن اور ملا عمر جیسے لوگ راتوں رات ہیرو بن جائیں تو پاک فوج کے سپہ سالار کیسے غلط ہو سکتے ہیں۔ فوجی حکمران ہمارے اجتماعی شعور میں کرپشن کے الزامات کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔ وہ آج ہماری سلامتی اور ہمارے روشن مستقبل کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے تابناک خوابوں کے امین ہیں۔ اگر ہم نے انہیں بھی کرپٹ سمجھ لیا تو مستقبل کی امیدیں کس سے باندھی جائیں گی۔لہذا یہ ضروری ہے کہ فوجی حکمرانوں کی غلطیاں بھی جمہوری حکومتوں کے کھاتے میں ڈال دی جائیں۔۔۔۔ سقوط ڈھاکہ اور کارگل کی لڑائی اس کی مثالیں ہیں۔

انتخابات کے نتیجے میں حکومت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے جب عوام کے اجتماعی شعور میں موجود حکومت کے بارے میں محبت اور نفرت کے اس ملے جلے رجحان اور رویہ کو نہیں سمجھیں گے تو نتیجہ بالآخر ایک دن ان کے اپنے خلاف نکلے گا۔ جب وہ خود حکومت میں آئیں گے تو عوام کا جو رویہ گزشتہ حکمرانوں کے بارے میں تھا وہی رجحان اب انکا رخ کرے گا۔ ایک ہنی مون کے وقفے کے بعد ہائے ہائے کے نعرے اسی شدت سے ان کے خلاف لگیں گے جس شدت سے انہوں نے دوسروں کے خلاف لگائے اور لگوائے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments