کیا برونو پہلا شہید سائنس تھا؟


“میں سزا سنتے ہوئے اتنا نہیں ڈر رہا جتنا تم مجھے سزا سناتے ہوئے ڈر رہے ہو۔”

یہ تھے وہ الفاظ جو برونو کی زبان سے اس وقت ادا ہوئے جب 8 فروری 1600ء کو اسے روم کی مذہبی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ اس کے بعد 17 فروری کو روم کے مرکزی چوک میں اسے مادرزاد حالت میں بلی کے ساتھ باندھ کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ برونو پر فیض صاحب کا یہ مصرع صادق آتا ہے:

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔

اس بہیمانہ سلوک کے باوجود فلسفہ اور سائنس میں برونو کے مقام کے متعلق بہت کچھ اختلاف رائے موجود ہے۔ سائنس کے تاریخ نگاروں میں ایک بہت اہم نام فرانس کے الکساندر کوئرے کا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ برونو کے افکار کی جرات اور ان کی اساس و بنیاد کو ہلا دینے کی صلاحیت حیران کن ہے۔ وہ دنیا اور طبعی حقیقت کے روایتی تصور کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ اسے صحیح معنوں میں انقلابی تبدیلی کہا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ برونو کی مقبولیت کا سورج اس کی شہادت کے کئی صدیوں بعد طلوع ہوا۔ انیسویں صدی میں اطالوی قوم پرستوں نے اسے قومی ہیرو قرار دیا اور اس کے مجسمے ایستادہ کیے گئے۔ اسی صدی میں مذہب اور سائنس کے مابین نزاع و تصادم کی بات کو فروغ ملا تو اس کے نتیجے میں برونو کو پہلا شہید سائنس قرار دینے کا رواج شروع ہوا۔

جورڈانو برونو 1548ء میں نیپلز کے نزدیک نولا نامی قصبے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے حالات کچھ زیادہ معلوم نہیں لیکن پندرہ سال کی عمر میں وہ نیپلز میں ایک ڈومینیکن خانقاہ میں داخل ہو گیا۔ وہاں اس نے قرون وسطیٰ کے فلسفے، بالخصوص ٹامس ایکوائنس کے فلسفے کی تعلیم حاصل کی جس کا تعلق اسی خانقاہ سے رہا تھا۔ 1576 میں اس نے خانقاہ کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ اس کے کچھ عقائد پر اعتراض کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے آورہ گردی شروع کر دی۔ وہ روم سے جنیوا چلا گیا، وہاں سے فرانس اور فرانس سے انگلینڈ چلا گیا جہاں اس نے آکسفرڈ یونیورسٹی میں کچھ لیکچر بھی دیے۔ قیام انگلستان کے دوران میں اسی کی سر فلپ سڈنی سے دوستی رہی۔ انگلستان سے وہ واپس فرانس اور وہاں سے جرمنی چلا گیا۔

برونو نے اپنی تمام کتابیں 1582 سے 1591 کے درمیان تصنیف کیں۔ وہ لاطینی اور اطالوی دونوں زبانوں میں تحریر پر قدرت رکھتا تھا۔ فلسفی ہونے کے علاوہ وہ شاعر بھی تھا۔

سن 1591 میں جب برونو ابھی فرینکفرٹ میں تھا تو اسے ایک اطالوی ارسٹوکریٹ جووانی موچینیگو کا خط ملا جس میں اسے وینس آنے کی دعوت دی گئی تھی تاکہ وہاں کی اشرافیہ اس کے علم سے استفادہ کر سکے۔ اس دعوت پر برونو وینس چلا گیا اور اس نے موچینیگو کو تعلیم دینا شروع کی لیکن بہت جلد ان کے تعلقات میں درہمی پیدا ہو گئی۔ 23 مئی 1592 کو موچینیگو نے اس کے خلاف ایک تحریری درخواست احتساب عقاید کی عدالت میں دائر کر دی۔ اس درخواست کے دائر ہونے پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس کا اٹلی واپس آنا اس کی طبیعت کی سادگی پر دلالت کرتا ہے۔ جو شخص اپنی شائع ہونے والی تحریروں میں مسیح کو میگس (Magus) کہہ چکا ہو اور قدیم مصر کے ساحرانہ مذہب کو مسیحیت سے بہتر قرار دے چکا ہو اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے تھی کہ وہ احتساب عقائد کی عدالت کے دائرہ اختیار میں بازپرس سے محفوظ رہ سکے گا۔

مورس فینوکیارو نے برونو پر عاید کیے گئے الزامات کی ایک فہرست اپنے مضمون

‘Philosophy versus Religion and Science versus Religion: the Trials of Bruno and Galileo, in “Giordano Bruno: Philosopher of the Renaissance”, edited by Hilary Gatti. 2002.

 میں بیان کی ہے۔ ان میں چند ایک یہ تھے: (1) کیتھولک عقیدے، چرچ اور اس کے عہدے داران کے خلاف منفی گفتگو کرنا؛ (2) تثلیث، مسیح کی الوہیت اور خدا کے بشکل انسانی ظہور کے متعلق فاسد عقاید رکھنا؛ (3) مسیح کی حیات و وفات کے متعلق غلط آرا رکھنا؛ (4) عشائے ربانی کے موقع پر اشیا کے اپنی حالت تبدیل کرنے سے انکار؛ (5) متعدد دنیاوں کے وجود اور ان کے ازلی ہونے کا اقرار کرنا؛ (6) تناسخ ارواح کا عقیدہ رکھنا؛ (7) ساحرانہ فنون کو درست سمجھنا اور ان کی پریکٹس کرنا؛ (8) والدہ مسیح، مریم مقدس، کی بکارت کا انکار کرنا؛ (9) جنسی لذات اور گناہوں کا ارتکاب کرنا؛ (10) چرچ کے فاضلین پر ناروا تنقید کرنا؛ (11) اس بات سے انکار کرنا کہ گناہ مستوجب سزا ہیں، (12) یہ کہ وہ پہلے بھی احتساب عدالت کو مطلوب تھا، وغیرہ وغیرہ۔

برونو کے مقدمے کی فائل گم ہو چکی ہے کیونکہ روم پر حملے کے بعد نپولین ویٹیکن کا بہت سا ریکارڈ اپنے ہمراہ لے گیا تھا جو بعد ازاں ضائع ہو گیا۔ چنانچہ اب مقدمے کی روداد کو وثوق کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ البتہ مارچ 1598 میں احتساب عدالت کے پراسیکیوٹر نے مقدمے کی کارروائی کا ایک ملخص تیار کیا تھا جو باقی رہ گیا ہے، اور 1942 میں شائع ہو چکا ہے۔ اس سے ہمیں مقدمے کے بارے میں کافی اہم معلومات ملتی ہیں۔ فینوکیارو نے الزامات کی فہرست اسی ملخص سے تیار کی ہے۔

مقدمے کی ابتدا وینس کی عدالت میں ہوئی لیکن بعد ازاں اسے روم بھیج دیا گیا جہاں وہ آٹھ سال تک جیل میں پڑا رہا۔ روم کی عدالت کا سربراہ کارڈینل رابرٹ بےلارمینے تھا۔  مقدمے کے دوران میں برونو نے اپنے ‘ملحدانہ’ عقائد سے توبہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی لیکن بےلارمینے کا اصرار تھا کہ وہ اپنے تمام فلسفیانہ خیالات سے بھی رجوع کا اعلان کرے لیکن ان خیالات سے برونو نے رجوع کرنے سے انکار کر دیا اور ان کا دفاع کیا کہ وہ کسی طرح بھی بدعت کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس بنا پر احتساب عدالت نے اسے موت کی سزا سنا دی۔

برونو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کے ظالمانہ ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اس کو سزائے موت سنائے جانے کی حقیقی وجہ کیا تھی۔ اس باب میں فلسفہ اور سائنس کے تاریخ نگاروں میں اختلاف رائے موجود ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اسے کوپرنیکس کے نظریے کی حمایت کرنے پر سزا دی گئی، اس لیے وہ جدید سائنس کا پہلا شہید تھا۔ دوسری رائے کے مطابق اس کا سبب اس کی مذہبی بدعقیدگی اور ملحدانہ خیالات تھے۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ اس سزا کا باعث اس کے فلسفیانہ خیالات تھے۔

سن 1964 میں مس فرانسس ییٹس کی برونو پر کتاب Frances Yates, Giordano Bruno and the Hermetic Tradition  شائع ہوئی جو خاصی تہلکہ انگیز ثابت ہوئی۔ ییٹس کی تحقیق کے مطابق سترھویں صدی میں برونو کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جہاں کہیں اس کا تذکرہ ہوا بھی ہے وہ بالکل منفی انداز کا ہے اور اسے ایک جادوگر قرار دیا جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں جان ٹولینڈ نے اس کے افکار کی ڈی ازم کے پیروکار کے طور پر تعبیر کی۔ انیسویں صدی میں اس کو از سرنو دریافت کیا گیا۔ اس کی تحریروں کی زمانہ حال کے تقاضوں کے مطابق تشریح کی گئی اور اسے جدید سائنس اور کوپرنیکس کے نظریے کی حمایت کرنے کی بنا پر شہید قرار دیا گیا۔

فرانسس ییٹس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ برونو پر مقدمہ اس کے فلسفیانہ خیالات یعنی لامتناہی کائنات، متعدد عوالم اور زمین کی حرکت کو تسلیم کرنے کی بنا پر نہیں چلایا گیا بلکہ اس کی اصل وجہ اس پر جادوگر ہونے کا الزام تھا اور اس کے علاوہ قدیم مصری مذہب اور ہرمسیت کو مسیحیت پر ترجیح دینا اور بہتر کہنا تھا۔ یہ کہانی اس ملخص سے ہی رد ہو جاتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ اس کے مقدمے میں سائنسی اور فلسفیانہ سوالات کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی۔

جورجو ڈے سانٹلانا (Giorgio De Santillana)  سائنس کی تاریخ لکھنے والوں میں ایک بہت بلند مقام رکھتا ہے۔ اس نے بھی ییٹس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے موقف کی تائید کی ہے کہ برونو کو کسی طور پر جدید فکر آزاد اور سائنسی ترقی کا پہلا شہید قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ پیشوائیت کے خلاف لوگوں کا تراشیدہ افسانہ ہے۔

مورس فینوکیارو کا نام گیلی لیو پر ہونے والی تحقیق میں بہت اہم ہے۔ اس نے اوپر مذکورہ مضمون میں برونو اور گیلی لیو کے مقدمات کا تقابل کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ برونو کا مقدمہ مذہب بمقابلہ فلسفہ تھا اور گیلی لیو کا مقدمہ مذہب بمقابلہ سائنس تھا۔

فینوکیارو اور مس ییٹس دونوں کا زیادہ انحصار مقدمے کے ملخص پر ہی ہے لیکن دونوں نے اس دستاویز سے مختلف نتائج اخذ کیے ہیں۔ ییٹس کے برخلاف فینوکیارو کا اصرار ہے کہ سزا کا اصل سبب لامتناہی کائنات کا نظریہ اور انسانی روح کی بابت برونو کے خیالات تھے کیونکہ جو الزامات مذہبی نوعیت کے تھے ان پر برونو نے معافی مانگنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا لیکن وہ فلسفیانہ خیالات سے رجوع کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ اس کا موقف تھا کہ ان کو کبھی بدعت قرار نہیں دیا گیا۔

 فینوکیارو کی رائے کو تسلیم کرنے میں مجھے اس بنا پر تامل ہے کہ برونو کے متعلق آخری بات جو وثوق سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنی کسی بھی رائے سے رجوع کرنے سے انکار کر دیا تھا، لہٰذا مقدمہ کے دوران میں اگر کبھی اس نے کسی بات پر معافی مانگنے پر آمادگی کا اظہار کیا بھی تھا تو اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔

برونو پر تحقیق کرنے والوں میں ایک اور بڑا نام ہلری گیٹی (Hilary Gatti)  کا ہے۔ اس کے نزدیک برونو کو سزا کوپرنیکس کے نظریے کی حمایت اور اس کی حقیقت پسندانہ تعبیر کرنے کی بنا پر سنائی گئی تھی۔ گیٹی کے نزدیک برونو سولھویں صدی کا ایک ممتاز کوپرنیکی فلسفی تھا۔ یہ برونو کی ذہانت کا کمال تھا کہ اس نے اسی وقت جان لیا تھا کہ کوپرنیکس کی کتاب کا پیش لفظ اس کا اپنا لکھا ہوا نہیں ہے۔ اس بات کا انکشاف کافی دیر بعد ہوا تھا کہ یہ پیش لفظ کوپرنیکس کے دوست اوسیآنڈر کا لکھا ہوا تھا۔ اس پیش لفظ میں اس نے بیان کیا تھا کہ سورج کو مرکز قرار دینا اور زمین کا سورج کے گرد گردش کرنا محض ایک ریاضیاتی مفروضہ ہے نہ کہ حقیقت کا بیان۔

 برونو زمین کی گردش کو تسلیم کرنے کے باوجود سورج کو کائنات کا مرکز تسلیم کرنے سے انکاری تھا کیونکہ اس کے نزدیک کائنات لامتناہی ہے، اس لیے اس کا کوئی مرکز نہیں۔ کوپرنیکس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ ریاضی پر کچھ زیادہ ہی فریفتہ تھا اور طبعی فلسفے کی طرف اس کا زیادہ رجحان نہیں تھا۔ چنانچہ اسے گلہ یہ تھا کہ کوپرنیکس نے اس بات کو زیادہ حصر سے بیان نہیں کیا کہ اس کا نظریہ کائناتی حقیقت کی درست ترجمانی کرتا ہے۔

پروفیسر گیٹی کی تحقیق، علمیت اور جانفشانی کے باوجود اس کے نتائج تحقیق کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برونو کے فلسفے میں مجموعی طور پر کوپرنیکس کے نظریے کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سن 1600 تک رومن کیتھولک چرچ کو کوپرنیکس کے نظریے پر کوئی بڑا اعتراض نہیں تھا، بلکہ بعض لوگ کوپرنیکس کے نظریے کی تعلیم بھی دے رہے تھے۔ مزید براں اگر کوپرنیکس کی حمایت وجہ ہوتی تو پھر گیلی لیو کبھی سخت سزا سے نہ بچ پاتا کیونکہ اس نے تو تجربی دلائل سے کوپرنیکس کے نظریے کو تقریباً برحق ثابت کر دیا تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ برونو کو کوپرنیکس کے نظریے کی حمایت کی وجہ سے سزا سنائی گئی تھی اور وہ پہلا شہید سائنس ہے۔

تمام گفتگو سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اگر برونو کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا نہ رکھا جاتا تو اس کے فلسفیانہ افکار کی بس اتنی سی اہمیت ہوتی کہ کسی تفصیلی تاریخ فلسفہ میں اس کا بھی ذکر آ جاتا۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی تاریخ فلسفہ میں برونو کا ذکر کرنا ہی پسند نہیں کیا اور فلسفیانہ خیالات کے اعتبار سے سولھویں صدی کو بالکل بنجر قرار دیا ہے۔ البتہ اس کی مظلومانہ موت نے اسے ہیرو بنا دیا۔ اس موقع پر عزیز دوست باصر سلطان کاظمی کا شعر یاد آ رہا ہے:

قیس پر ظلم تو ہوا باصر

پھر بھی ماتم زیادہ ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments