انڈیا میں باپ بیٹے کی ہلاکت، عدالت کا قتل کے معاملے کی تفتیش کا حکم


مقامی میڈیا میں جب باپ اور بیٹے پر دورانِ حراست مبینہ تشدد کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں تو انڈیا بھر میں لوگوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

دونوں افراد کو گرفتار کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کو معطل دیا گیا ہے

انڈیا کی ایک عدالت نے تمل ناڈو میں ایک باپ اور بیٹے کی حراست میں مبینہ تشدد کی وجہ سے ہلاکت کے معاملے میں تین پولیس افسروں سے قتل کی تفتیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

پولیس اور حکومت پر اس معاملے میں پردہ پوشی کے الزامات کے دوران عدالت نے اس معاملے کی تفتیش کی ذمہ داری مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سی بی آئی کو سونپ دی ہے۔

58 سالہ پی جے راج اور ان کے 38 سالہ بیٹے بینکس کی پولیس حراست سے رہا ہونے کے دو دن بعد ہلاکت ہوگئی تھی۔

اسی بارے میں: انڈیا: مبینہ تشدد سے باپ، بیٹے کی ہلاکت، پولیس پر جنسی ایذا پہنچانے کا الزام

ان کے خاندان والوں کا الزام ہے کہ حراست کے دوران پولیس نے انہیں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔

جے راج کی بیٹی پرسس جے راج نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے مردہ بھائی کی جو حالت دیکھی تھی اسے وہ بیان بھی نہیں کر سکتی ہیں۔ ’پولیس سٹیشن پر متعدد پولیس والوں نے اس کو پیٹا۔ میرے بھائی کو اتنے برے طریقے سے مارا گیا کہ اس کو پہچاننا مشکل تھا۔ میں نے اپنے مردہ بھائی کی تصویر دیکھی ہے۔ وہ خون میں لت پت تھا۔ انھوں نے اس کو بری طرح پیٹا تھا۔‘

کورونا وائرس کی وجہ سے ریاست تمل ناڈو میں حفاظتی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ چند روز قبل ہلاک ہونے والے دونوں افراد، جے راج اور ان کے بیٹے بینکس، کو پولیس نے مقررہ وقت کے بعد دکان کھلی رکھنے پر گرفتار کیا تھا۔

باپ بیٹا رات بھر پولیس کی تحویل میں رہے جس کے دو دن بعد کچھ گھنٹوں کے وقفے سے دونوں کی موت واقع ہو گئی۔

مقامی میڈیا میں جب باپ اور بیٹے پر دورانِ حراست مبینہ تشدد کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں تو انڈیا بھر میں لوگوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

ریاستی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے ارکان احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے، تاجروں کی ایک نمائندہ تنظیم نے بھرپور انداز میں پولیس کی مذمت کی اور ایک مقامی عدالت نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا۔

دونوں کی موت کے بعد بینکس اور جے راج کے رشتہ داروں نے ستانکولم میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کے بقول دونوں کو پولیس کی حراست میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا

کورٹ نے اپنے حکم میں ہلاک ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ایک عینی شاہد خاتون کانسٹیبل کی جانب سے دیے گئے بیانات کا حوالہ دیا ہے۔

انڈیا میں حراست کے دوران پولیس کے ہاتھوں تشدد کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف 2019 میں پولیس کی حراست میں 1700 لوگ ہلاک ہوئے ہیں یعنی ہرروز تقریبا 5 لوگ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے ہیں لیکن پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کم ہی ہوتی ہے۔

اس معاملے میں عوام کے غصے اور احتجاج کے بعد ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سنوائی کی ہے اور مقدمے کی تفتیش کرنے کو کہا ہے۔

دونوں افراد کو گرفتار کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور ریاستی حکومت نے ہلاک شدگان کے لواحقین کو دس لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس واقعے کا شور سوشل میڈیا پر بھی سنائی دیا اور صارفین کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

عدالت نے کیا کہا؟

معاملے کی تفتیش کرنے والے مقامی مجسٹریٹ کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ تین اہم ملزمان انسپکٹر سریدھر، اور دو سب انسپکٹر راگھو گنیش اور بالا کرشنن کے خلاف ‘بظاہر’ قتل کا معاملہ لگتا ہے۔

مجسٹریٹ کی رپورٹ میں ایک خاتون کانسٹبل کا بیان بھی شامل ہے۔ وہ ستھنکلم کے اسی تھانے میں تعینات تھیں جہاں جے راج اور بینکس کو رکھا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم یہ بھی کہا ہے کہ ضلعی حکام خاتون اہلکار کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

عدالت نے ان پولیس اہلکاروں کو وارننگ بھی دی ہے جن کے بارے میں مجسٹرٹ نے شکایت کی تھی کہ انھوں تفتیش کے دوران تعاون نہیں کیا اور شواہد کو چھپانے اور ان سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی۔

مجسٹریٹ کا کہنا تھا کہ جس رات جے راج اور بینکس پر تشدد کیا گیا اس رات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو مٹا دیا گیا ہے۔

مجسٹریٹ نے اپنی شکایت میں یہ بھی کہا ہے کہ تھانے کے پولیس اہلکاروں نے وہ لاٹھیاں بھی ان کے حوالے کرنے سے انکار ک جس سے باپ بیٹے کی پٹائی کی گئی تھی۔

عدالت کا کہنا تھا ‘ان پولیس اہلکاروں کے اندر اتنی ہمت تھی کہ وہ ایک قانونی تفتیش میں رخنہ ڈال رہے تھے۔‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ معاملے کی آزادانہ اور شفاف تفتیش ہو۔

عدالت کے اس حکم کے بعد ریاستی حکومت نے معاملے کی تفتیش مرکزی تفتیش کاروں کو سونپ دی ہے۔

’ملزم پولیس افسر‘ کہاں ہیں؟

اس معاملے کی تین اہم ملزمان پولیس اہلکاروں کا پہلے تو تبادلہ کیا گیا تھا لیکن عوامی غم و غصے اور احتجاج کے بعد ان کو برطرف کردیا گیا ہے۔

پولیس

انڈیا میں پولیس کا پرتشدد رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے

اس عدالتی بیان کے بعد کہ تھانے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے مجسٹریٹ کی تفتیش میں تعاون نہیں کیا ریاستی حکومت نے 27 پولیس اہلکاروں کا تبادلہ کردیا تھا۔

ریاستی حکومت نے ان پولیس اہلکاروں کی جگہ 30 نئے پولیس والوں کو تعنیات کیا ہے۔

اس دوران ستھنکولم پولیس تھانے سے متعلق تحویل کے دوران تشدد کی متعدد شکایات سامنے آئی ہیں جن میں دو ایسی ہیں جن میں تحویل کے دوران ہلاکت کا الزام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp