کیا مائنس ون کے ساتھ ایک پیج سے بھی گلو خلاصی ہو گی؟


مائنس ون کی بات چوبارے چڑھ چکی ہے یعنی ہر زبان پر ایک ہی بات ہے کہ حکومت ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اور کسی قابل ذکر تبدیلی کے بغیر موجودہ انتظام کا چلنا ممکن نہیں رہا۔ یوں تو مائنس ون سے مراد کسی ایک شخص کی روانگی ہو سکتی ہے لیکن پاکستانی سیاسی تناظر میں جب مائنس ون کا ذکر ہوتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے دن گنے جاچکے ہیں۔ عمران خان نے گزشتہ روز بجٹ منظوری کے بعد کامیابی کے جوش میں اپنے مائنس ون ہونے کی تردید کرکے قیاس آرائیوں کو ہو ا دی ہے۔ سیاسی زائچے بنانے والے اس تردید کو ممکنہ تبدیلی کے امکان کی تصدیق سمجھ کر خوشی سے نہال ہورہے ہیں۔

عمران خان کو گمان ہے کہ چونکہ انہیں دوسری دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے مایوسی کے بعد اقتدار تک پہنچنے میں مدد فراہم کی گئی تھی، اس لئے اب ملک میں ان کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ لہذا تبدیلی یا ان کی علیحدگی کی بات کرنے والے افواہیں پھیلانے اور سازشیں کرنے میں مصروف ہیں تاکہ انہیں سیاسی طور پر عاجز کرنے کیا جاسکے۔ اس بیان کے دو پہلو ہیں۔ پہلا تو یہ کہ کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا ۔ اس لئے عمران خان یا کوئی بھی دوسرا شخص اگر کسی بھی تناظر میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا تو اسے اس غلط فہمی سے باہر نکل آنا چاہئے۔ اس بیان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ملک کا وزیر اعظم اور حکمران پارٹی کا سربراہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اقتدار میں رہنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس کا متبادل موجود نہیں ہے تو اسے اس کی طاقت یا اہمیت کی بجائے کمزوری سمجھنا چاہئے۔ یعنی موصوف خود یہ اعتراف کررہے ہیں کہ اس میں قیادت کرنے اور ملک کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہے اور وہ کسی بھی بحران پر کامیابی سے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بس مجبوری کے عالم میں اسی وزیر اعظم پر ’گزارا‘ کیا جائے گا۔

یہ بیان یا تاثر اس لحاظ سے بھی معنی خیز ہے کہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر وزیر اعظم بننے والا شخص جب اپنا متبادل نہ ہونے پر خوش ہوتا ہے تو آخر کون سی ایسی قوت کا حوالہ دے رہا ہوتا ہے جو اس کا متبادل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی؟ اسے تو ایوان میں اپنے حامیوں کی اکثریت پر بھروسہ ہونا چاہئے۔ خاص طور سے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود بجٹ کو منظور کروانے کے بعد انہیں کون سی غیر موجود قوت کے متبادل تلاش نہ کرنے کی مجبوری میں اپنی کامیابی دکھائی دیتی ہے؟ اس نکتہ کو سمجھ لیا جائے اور اس کی تفہیم عام کی جاسکے تو عمران خان اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے علاوہ ملک کو بھی متعدد مسائل سے بچا سکتےہیں۔ اب انہیں اس بات پر یقین کرلیناچاہئے کہ صرف پارلیمنٹ کا اعتماد ہی انہیں کسی بھی شناسا یا انجانی مشکل سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ وزیر اعظم کو اس وقت اپوزیشن سے واقعی کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن حکمران جماعت اور اس کے حلیف مختلف مطالبے اور شکایات سامنے لارہے ہیں۔ عمران خان مجبوری کے عالم میں ان لوگوں کی ہمہ قسم خواہشات پوری کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

اگر ان کا متبادل ہی موجود نہیں ہے تو پھر وہ کس خوف میں اپنی پارٹی اور شریک اقتدار جماعتوں کے ناراض ارکان کو منت سماجت سے اور بہلا پھسلا کر ساتھ رکھنے پر مجبور ہیں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ غیر مرئی طاقت بھی اسی وقت کسی وزیر اعظم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے یا کرسکتی ہے جب اسے ایوان میں اکثریت حاصل ہو۔ اکثریت کی تائید سے محروم ہونے والا وزیر اعظم کسی کا بھی چہیتا نہیں رہتا۔ اسی لئے وزیر اعظم کو اعتماد اور اناپسندی کے باوجود یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اپوزیشن سے خواہ انہیں کیسے ہی اختلاف کیوں نہ ہوں، یہ لوگ بھی عوام کے نمائندے ہیں اور لوگوں کے ووٹ لے کر ہی پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں۔ انہیں احترام دینا دراصل ان لاکھوں ووٹروں کو احترام دینا ہوگا جنہوں نے اپوزیشن پارٹیوں کو ووٹ دے کر انہیں اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کے اس طریقہ کار کی ایک رمز یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم اگر اپوزیشن سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھتا ہے تو اس کی اپنی پارٹی یا حمایت کرنے والی جماعتوں کے لوگ کسی بحران یا ناراضی کی صورت میں اسے بلیک میل نہیں کرسکتے۔ ایسے موقع پر اپوزیشن کے ارکان جمہوریت کے نام پر دیوار سے لگائے گئے وزیر اعظم کو بچانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عمران خان کو تو اس پہلو کا بخوبی اندازہ ہونا چاہئے۔ 2014 میں جب انہوں نے اپنے ’سیاسی کزن‘ علامہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو ان دونوں کو یہ کارنامہ سرانجام دینے پر آمادہ کرنے والی قوتیں وہی تھیں جنہوں نے عمران قادری کو بھائی بھائی بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ نواز شریف نے ’خفیہ قوتوں‘ کے اس وار کو پارلیمنٹ کی حمایت سے ہی ناکام بنایا تھا۔ تین برس بعد جب انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ پانامہ پیپرز سے اٹھنے والے طوفان میں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو ڈھال بنانے کی بجائے ، اپنے خلاف کرلیا ۔ اس طرح جو عناصر 2014 کے دھرنے میں ان سے نجات حاصل نہیں کرسکے، وہ جے آئی ٹی اور عدلیہ کے راستے سے انہیں معزول کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ نواز شریف کی مثال دینا یوں اہم ہوجاتا ہے کہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کی جاسکے۔

عمران خان اگر پارلیمنٹ میں وسیع تر احترام حاصل کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں کریں گے تو ان کی اپنی صفوں میں انتشار پیدا ہونے پر اپوزیشن وزیر اعظم کی شکست میں مقدور بھر کردار ادا کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تواتر سے اس کا اعلان بھی کرتی رہتی ہیں۔ عمران خان کو اس سیاسی مخالفت کو چیلنج سمجھنے کی بجائے، دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا موقع بنالینا چاہئے۔ انہیں اس گمراہ کن گمان سے باہر نکل آنا چاہئے کہ اگر وہ پانچ برس تک برسر اقتدار رہے تو اپوزیشن لیڈر کرپشن کے الزام میں طویل سزائیں کاٹ رہیں ہوں گے اور 2023 میں ان کا مد مقابل کوئی نہیں ہوگا۔ اتنی لمبی چھلانگ لگانے سے پہلے زاد راہ کا اہتمام کرلینا ضروری ہے۔ جمہوریت کے اس سفر میں پارلیمانی تعاون سے بڑھ کر کوئی چیز کسی لیڈر کی طاقت نہیں ہوسکتی۔ ہر طرف سے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا کر اس کے جانے کی بات کی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارکردگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار پارلیمنٹ سے کہیں اور منتقل کردیا گیا ہے۔ عمران خان اس اختیار کو پارلیمنٹ میں واپس لا کر اپنی کرسی مضبوط کرسکتے ہیں ۔ پھر انہیں مائنس ون کی تردید یا یہ اعلان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس لئے ان کے اقتدار کو خطرہ نہیں۔

جمہوریت میں متبادل قیادت کا موجود رہنا باعث پریشانی نہیں بلکہ راحت و کامرانی ہوتا ہے۔ یہ امر عمران خان یا کسی بھی دوسرے جمہوری لیڈر کے لئے باعث افتخار نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی اس کا متبادل نہیں ہے۔ یہ اعتراف دراصل جمہوری تقاضے پورے کرنےاور کسی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے لائن آف کمانڈ استوار کرنے کے اصول سے متصادم ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو اسی لئے یرغمال بنا لیا جاتا ہے کیوں کہ سیاسی جماعتوں کو ذاتی ملکیت بنا لیا گیا ہے۔ فرد سے وابستہ سیاسی جماعت کسی منشور یا مقصد کے لئے کام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ پھر پارٹی لیڈروں کی کل بھاگ دوڑ اپنی قیادت کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے۔ ایسے میں مقاصد نعرہ بن جاتے ہیں اور انہیں ایک ہی ہدف پورا کرنے کا سبب بنا لیا جاتاہے۔ اور وہ کسی ایک فرد کی سیاسی طاقت کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ عمران خان اگر واقعی جمہوری طریقے سے تبدیلی لانے کے دعویدار ہیں تو وہ اس بات پر ’خوش‘ کیسے ہوسکتے ہیں کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ایک سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کرنے والے جمہوری لیڈر کی سب سے بڑی ناکامی تو یہی ہوگی کہ ان کے سیاسی منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والی ٹیم ہی موجود نہ ہو۔ یہ حقیقت تو ان کے لئے پریشانی اور شرمساری کا سبب ہونا چاہئے۔ ا س میں اپوزیشن کی ہزیمت کا پہلو کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو وزیر اعظم کی شکست ہے۔

بدقسمتی سے عمران خان نے جمہوری طریقوں اور اداروں کو اپنی طاقت سمجھنے کی بجائے اس سفر کو مشکل بنانے والے عناصر کو اپنی سیاسی کامیابی کا سبب سمجھ رکھا ہے۔ یہ آپشن اختیار کرنے پر انہیں مسلسل ’نامزد‘ کی پھبتی بھی سننا پڑتی ہے اور اقتدار سے محرومی کا خوف بھی موجود رہتا ہے۔ بظاہر سول ملٹری تعاون کو ایک پیج کی سیاست کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن ایک منتخب لیڈر اپنی کامیابی کے لئے عسکری قیادت کا محتاج ہو کر وسیع تر عوامی مفاد کے لئے کوئی ٹھوس کام نہیں کرسکتا۔ سول ملٹری تعاون ملک کے آئینی انتظام کا جزو لاینفک ہے۔ اس کے تحت عسکری قیادت منتخب لیڈر کےزیر فرمان رہتی ہے۔ اسے اگر ایک پیج کی سیاست کہا جائے گا تو اس پیج پر سول قیادت کی بالادستی اور مکمل اختیار کے علاوہ کوئی دوسرا اصول درج نہیں ہوسکتا۔

جناب وزیر اعظم ایک پیج کی بجائے آئینی کتاب کو اپنی طاقت بنائیں۔ یہ کتاب انہیں پارلیمنٹ کا راستہ دکھائے گی ۔ اور بتائے گی وہاں بیٹھنے والا ہر شخص عوام کا نمائیندہ ہونے کی حیثیت میں قابل احترام ہے۔ آئین کی یہی کتاب اپوزیشن کو بھی نام نہاد ایک پیج پر جگہ پانے کی حرص میں وزیر اعظم کو دھکا دینے کے طریقہ سے باز رکھے گی۔ پاکستان کے مسائل گوناگوں ہیں۔ کوئی ایک پارٹی یا فرد انہیں حل کرنے کے قابل نہیں ہے لیکن درست راستہ اختیار کرکے اس بحران سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مائنس ون فارمولا، نظریہ ضرورت اور ایک پیج کی سیاست کو بیک وقت مسترد کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments