اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر تنازع: مندر کی تعمیر اسلام مخالف یا جناح کے خواب کی تعبیر


اسلام آباد

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک ہندو مندر کے لیے جگہ مختص کیے جانے کے چند روز بعد ہی اس پراجیکٹ میں مشکلیں آنے لگی ہیں۔ جامعہ اشرفیہ نامی معروف مدرسے کے ایک مفتی نے اس کے خلاف فتوی دیا ہے اور ایک وکیل نے اس کی تعمیر روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی ہے۔

جناح کا خواب

23 جون کو انسانی حقوق کے پارلیمانی سیکریٹری لال چند ملہی نے اس مندر کے لیے منظور شدہ زمین پر ایک سادہ سی تقریب کے دوران تعمیراتی کام کا افتتاح کیا۔

2017 میں مقامی ہندو کونسل کو یہ جگہ مختص کی گئی تھی تاہم تعمیر اس لیے شروع نہیں ہو سکی تھی کیونکہ ہندو برادری کے پاس اس کے لیے وسائل موجود نہیں تھے۔ اب وزیراعظم نے تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے دس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔

لال چند ملہی نے اس موقعے پر اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ’کئی صدیوں میں یہ اسلام آباد میں بننے والا پہلا مندر ہو گا۔ حکومت نے چار کنال جگہ مختص کی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔‘

جیسے ہی اعلان کیا گیا اس مقام پر چار دیواری کی تعمیر شروع کر دی گئی۔

پارلیمانی سیکرٹری لال چند مالی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد ہندو پنچایت اس مقام پر ایک بڑا کمپلیکس بنانا چاہتی ہے جس میں مندر، آخری رسومات کے لیے انتظام کی جگہ، لنگر خانہ، اور کمیونٹی کے استعمال کے کمرے ہوں۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق اس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 50 کروڑ روپے درکار ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہندو پنچایت نے اپنے پیسوں سے چار دیواری بنانا شروع کر دی ہے کیونکہ حکومتی پیسے آنے میں وقت لگے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’اس ملک میں کئی مذاہب کے لوگ ہیں، اور پاکستان کے ہر شہری کا دارالحکومت اسلام آباد پر برابر کا حق ہے۔ اسی لیے یہ اقدام علامتی طور پر اہم ہے کیونکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام جائے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے دیگر اقلیتوں بشمول مسیحی اور پارسی برادری کے لیے قریب میں ہی 20، 20 ہزار مربع فٹ جگہ مختص کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے جیسا کہ ’قائداعظم محمد علی جناح کا خواب تھا۔‘

اسلام آباد

پرانا مطالبہ

پاکستان میں تقریباً آٹھ لاکھ ہندو بستے ہیں جن کی اکثریت سندھ کے اضلاع عمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص ہے۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔

اسلام آباد ہندؤ پنچایت کے سابق صدر پرتم داس ان افراد میں سے ہیں جو سنہ 1973 میں تھرپارکر سے اسلام آباد آئے تھے۔

’میں یہاں آنے والوں میں سے چند پہلے افراد میں سے ایک ہوں۔ میں تب آیا تھا جب یہ شہر چھ سال پرانا تھا۔ اب یہاں ہندو آبادی کافی بڑھ گئی ہے۔‘

اسلام آباد کے علاقے سیدپور میں ایک چھوٹا سا مندر تھا جس کی اس وقت تعمیرِ نو کی گئی جب اس علاقے کو قومی ورثہ قرار دیا گیا۔ یہ ایک علامتی عمارت تھی جو کہ یہاں کی ہندو برادری کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا تھی۔

پرتم داس بتاتے ہیں کہ ’برادری کے لیے اپنی رسومات کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ہمارے پاس آخری رسومات کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہمارے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں تھا جہاں ہم دیوالی یا ہولی منا سکتے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے اخرکار ہماری سُن لی۔‘

کرشنا کمپلیکس کے خلاف فتویٰ

اسلام آباد

لاہور کی جامع اشرفیہ دیوبندی مکتبہ فکر کا ایک مدرسہ ہے جو کہ فیروز پور روڈ پر قائم ہے۔ یہ سنہ 1947 میں بنایا گیا تھا اور یہاں سے ہزاروں دیوبندی سکالر فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہے۔

مدرسے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عالم مفتی محمد ذکریا گذشتہ دو دہائیوں سے مدرسے سے وابستہ ہیں۔

اپنے فتوے میں مفتی محمد ذکریا نے کہا ہے کہ اسلام کے مطابق اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال اور انھیں قائم رکھنا جائز ہے تاہم نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے اپنے فتوے کے لیے تاریخی مثالیں بھی دیں ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مفتی محمد ذکریا نے کہا ہے کہ انھوں نے یہ فتویٰ شہریوں کے سوالات کے جواب میں دیا ہے۔

’ہم لوگوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں مطلع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم خود سے کچھ نہیں بناتے۔ میرے خیال میں اسلامی ریاست میں نئے مندروں کی تعمیر غیر اسلامی ہے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر حکومت آپ کی نہیں سنتی تو کیا آپ کچھ کریں گے تو انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں کہ ہم حکومت کو مجبور کر سکیں۔ ہم تو صرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔ مذہب کے لحاظ سے ہم نے اپنا کام کر دیا ہے۔‘

جامع اشرفیہ کے ترجمان مولانا مجیب الرحمان انقلابی نے بی بی سی کو بتایا کہ فتوے کا مقصد کسی کے ساتھ محاذ آرائی کرنا نہیں ہے، یہ صرف شہریوں کے مذہبی سوال کا جواب ہے۔

قانونی رکاوٹیں

اسلام آباد میں ایک وکیل نے بھی حکومت کی جانب سے مندر کے لیے زمین دینے پر اور تعمیراتی کام روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

درخواست گزار چوہدری تنویر ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے نے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر کے سیکٹر ایچ نائن میں مندر کی تعمیر کے لیے جو اراضی فراہم کی گئی وہ غیر قانونی ہے۔

انھوں نے کہا کہ متعقلہ ادارے کی طرف سے نہ صرف غیر قانونی طور پر مندر کی تعمیر کے لیے اراضی فراہم کی گئی بلکہ اس کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے فنڈر بھی جاری کیے گئے۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں ہندؤں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

تاہم عدالت نے سی ڈی اے کے حکام سے کہا ہے کہ اگلی پیشی پر آ کر وہ ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کے حوالے سے اپنا جواب جمع کروائیں۔

سیاسی ردعمل

پاکستان اسمبلی کے سپیکر اور ملک کے سینیئر سیاستدان پرویز الہی نے بھی اس مندر کی تعمیر کی مخالفت کی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر نا صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ ریاستِ مدینہ کے بھی خلاف ہے۔

انھوں نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام نے مکہ فتح کے بعد 360 بُت تباہ کیے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اور ان کی پارٹی نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ صرف تعمیر شدہ مندروں کو ہی چلایا جانا چاہیے۔

بطور وزیراعلیٰ پنجاب انھوں نے کٹاس راج مندر کی تعمیرِ نو کا حکم بھی دیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اُن کے دور حکومت میں ملک میں اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp