آئین و آمریت کی جنگ کا ایک باب


جنرل ضیا الحق انتیس مئی انیس سو اٹھاسی کی سہ پہر کو اپنے سٹاف افسر جنرل رفاقت سے کاغذ اور قلم لانے کو کہا۔ کاغذ قلم دیا گیا تو جنرل نے اپنے ہاتھوں سے دو احکامات لکھے۔ پہلا حکم یہ تھا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا حکم یہ تھا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انتہائی عجلت سے ان احکامات پر مشتمل ایک رسمی ڈرا فٹ تیار کیا گیا، جس کو پریس کے سامنے پیش کرتے ہوئے جنرل ضیا نے کہا کہ انہوں نے جمہوری حکومت کو بہت آزادی دے رکھی تھی، مگر وہ اپنا کام کرنے میں ناکام رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایڈمنسٹریشن چلانے کے اہل ہی نہیں۔ میں ان کو بار بار یاد دہانی کرواتا رہا، لیکن یا تو وہ کسی چیز کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے یا وہ کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ وہ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کرنے اور امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میری مسلسل کوشش کے باوجود وہ اپنی کارکردگی میں کوئی بہتری لانے میں بھی ناکام رہے۔ اس لیے میں نے اپنی آئینی اختیار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس اختیار کے تحت میں وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو فارغ کرتا ہوں، اور اسمبلیوں کو تحلیل کرتا ہوں۔

یہ اعلان کرنے کے بعد جنرل ضیا نے رسمی اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا، جس کا پہلا نقطہ یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے قومی اسمبلی تشکیل دی گئی تھی وہ پورا نہیں ہوا۔ دوسرا یہ کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور جائیدادوں کا نقصان ہوا ہے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کے شہریوں کی زندگی، جائیداد، عزت اور سیکورٹی غیر محفوظ ہے، اس کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان اور ملک کی سالمیت شدید خطرے میں ہے۔

چوتھا یہ کہ عوامی اخلاقیات اتنی گر چکی ہے کہ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان حالات میں میری رائے میں حکومتی معاملات کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا سکتا، اس لیے عوام سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے میں جنرل ضیا الحق اسلامک ریپبلک آف پاکستان کے آئین کے آرٹیکل اٹھاون دو بی کے تحت حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئیے قومی اسمبلی کو فوری طور پر تحلیل کرتا ہوں، اور اس کے ساتھ کابینہ بھی ختم کی جاتی ہے۔

جنرل ضیا کو اٹھاون ٹو بی کا یہ اختیار انیس سو پچاسی میں آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ملا تھا۔ صدر کی طرف سے آئین کے آرٹیکل اٹھاون کے استعمال کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں ایک اور آئینی مقدمہ کا اضافہ ہوا، جسے حاجی سیف اللہ بنام فیڈریشن آف پاکستان کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ میں نے گزشتہ کالموں میں اس طرح کے آئینی مقدمات پر کالموں کی سیریز میں مولوی تمیزالدین کیس، دوسو کیس، عاصمہ جیلانی کیس، بیگم نصرت بھٹو کیس اور ان کے مضمرات کا جائزہ لیا تھا۔

آج بات ہو رہی ہے حاجی سیف اللہ کیس کی۔ حاجی سیف اللہ کیس کو اس کے درست سیاق و سباق میں سمجھنے کے لیے اس کیس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ پس منظر یہ تھا کہ جنرل ضیا کے اقتدار پر قابض ہونے کے فوراً بعد ملک میں مارشل لا کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جد و جہد شروع ہو چکی تھی۔ یہ جد و جہد آگے چل کر ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کر گئی، جسے ایم آر ڈی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تحریک میں کئی قسم کی جماعتیں شامل تھیں، لیکن اس تحریک میں کلیدی کردار پیپلز پارٹی، اور بائیں بازو کی دیگر جماعتیں ادا کر رہی تھیں۔

تحریک کے زور پکڑنے اور عوام کی بے چینی بڑھنے کی رپورٹوں سے جنرل ضیا کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اس شکل میں اس نظام کو زیادہ عرصہ تک نہیں چلا سکتے۔ چنانچہ انہوں نے ایک ایسے نظام کے بارے میں غور و فکر شروع کر دیا، جس کے تحت ان کی طاقت اور تمام تر اختیارات کو چھیڑے بغیر یہ تاثر دیا جائے کہ ملک میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے اور عوام کو اقتدار میں شریک کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا۔ کمیشن نے نئے نظام کے قیام کے لیے جو سفارشات پیش کیں وہ یہ تھیں کہ ملک میں پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام حکومت قائم کیا جائے۔ اس نئے صدارتی نظام کے تحت پارلیمنٹ کے اختیارات کو مکمل طور پر محدود کیا جائے۔ اور یہ کہ ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے جائیں۔ نئے نظام کے قیام سے پہلے جنرل ضیا کی حکومت کو عوام کی نمائندہ ثابت کرنے کے لیے ایک ریفرینڈم کروایا گیا۔ اس ریفرینڈم میں یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے لوگ اسلامی نظام کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں؟

اس سوال کے نہ میں جواب دینے کے امکانات کم تھے۔ جبکہ ہاں کی صورت میں اس کا یہ مطلب نکالا گیا کہ عوام ضیا الحق کی حمایت کرتے ہیں اور وہ صدر پاکستان ہیں۔ جہاں تک ریفرینڈم کے اعتبار کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تو ایک طرف خود الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ اس ریفرینڈم میں زبردست دھاندلی اور بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ مگر طے شدہ ایجنڈے کے مطابق اگلے قدم کے طور پر پچیس فروری 1985 کو ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گے۔

اور اس کے بعد مارچ میں 1973 کے آئین کی بحالی کا آرڈر جاری کیا گیا۔ اس آرڈر کے تحت آئین میں موجود کئی دفعات کو تبدیل کر دیا گیا یا ان کو معطل کر دیا گیا۔ آئین کو منسوخ تو نہیں کیا گیا لیکن اس کی اہم دفعات کو معطل کر دیا گیا۔ دھاندلی زدہ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ معرض وجود میں آئی اس میں وزارت عظمی کے لیے محمد خان جونیجو کو چنا گیا۔ محمد خان جونیجو کا انتخاب پیر پگاڑا کی سفارش پر کیا گیا، مگر انتخاب کے فوراً بعد محمد خان جونیجو اور ضیا الحق میں سخت اختلافات شروع ہو گئے۔

آگے چل کر ان اختلافات کو بڑھانے میں دو تین بڑے واقعات نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک یہ کہ محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا کی پالیسی کے بر عکس ملک سے ایمرجنسی قوانین کو ختم کر کے پریس اور میڈیا کو آزادی دینے کی کوشش کی۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے جنرل ضیا کی واضح ہدایات اور مخالفت کے باوجود جنیوا معاہدہ تسلیم کر لیا اور اپنے وزیر خارجہ یعقوب خان کو ہدایت کی کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کر دیں۔ تیسری بڑی وجہ اوجڑی کیمپ کا واقعہ تھا، جس کی جنرل ضیا کی مرضی کے خلاف انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

جونیجو نے افغانستان کے ایشو اور فارن پالیسی پر ایک کانفرنس بھی منعقد کروائی، جس میں اس نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور پیپلز پارٹی کو بھی مدعو کیا۔ یہ اختلافات اس حد تک بڑھے کے ضیا نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آرڈر جاری کر دیا۔ اس آرڈر کو آگے چل کر عدالت میں چیلنج کیا گیا، جس میں عدالت نے اسمبلیوں کی تحلیل کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا، مگر اسمبلیوں کو بحال کرنے سے انکار دیا۔ آگے چل کر صدر کی طرف سے اٹھاون بی کے تحت اسمبلیوں کی برطرفی کا سلسلہ مزید شت اختیار کر گیا، اور اس سلسلے میں کئی کیس سامنے آئے، جن کا احوال آئندہ کالموں میں پیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments