انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی: لاکھوں فالوورز والے سوشل میڈیا سٹارز کا مستقبل ڈانواں ڈول


Geet

گیت کے تین چینلز پر ایک کروڑ سے زیادہ فالوورز ہیں

پیر کی شام تک گیت کا ای میل ان باکس ایسے پریشان کُن پیغامات سے بھر چکا تھا جو پورے انڈیا سے ان کے چاہنے والوں نے انھیں بھیجے تھے۔

اپنے پہلے نام سے مشہور ’گیت‘ کہتی ہیں کہ جب انڈین حکومت نے چین کی بنی ہوئی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک سمیت 59 مختلف ایپس کو یہ کہہ کر بند کرنے کا فیصلہ کیا کہ یہ قومی سلامتی کو خطرہ ہے، تو وہ حیران رہ گئیں۔

گیت خود ایک وکیل ہیں۔ وہ ٹک ٹاک پر انڈیا کی معروف ترین شخصیات میں سے ایک ہیں جہاں وہ اپنے چاہنے والوں کو نہ صرف امریکی لہجے میں انگریزی بولنا سکھاتی ہیں بلکہ انھیں رشتوں، تعلقات اور زندگی کے دیگر مسائل کے بارے میں مشورے دیتی ہیں۔

اُن کے ٹک ٹاک کے تین چینلز کو ایک کروڑ سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں۔

گذشتہ ایک سال سے گیت روزانہ کم از کم 15 ویڈیوز اپنے چینلز پر اپ لوڈ کرتی ہیں۔ یہ ویڈیوز مختصر دورانیے کی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بڑا گھر نہ مہنگے کپڑے، مگر ٹک ٹاک پر وائرل

مودی نے سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین کو ڈرا دیا

انڈیا نے ٹِک ٹاک سمیت 59 چینی موبائل ایپس پر پابندی لگا دی

اکثر اوقات گیت دن میں اپنے فون اور کیمرے کی مدد سے 120 ویڈیوز تیار کرتی ہیں اور باقی وقت اپنے سکرپٹ کو بہتر بنانے اور ویڈیو ایڈٹ کرنے میں لگاتی ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں تو بالکل سکتے میں ہی آ گئی جب میں نے یہ خبر سنی۔ ٹک ٹاک تو میری زندگی ہے، میری نوکری ہے۔‘

ٹک ٹاک.

انڈیا میں ٹک ٹاک کے 20 کروڑ صارفین ہیں

گیت کی طرح ان کے فینز بھی اُتنے ہی حیران تھے۔ ایک نے پوچھا ’مجھے انگریزی کون سکھائے گا؟‘ دوسرے نے سوال کیا ’میری ہمت اب کون بندھائے گا؟‘

انڈیا میں سستی موبائل سروس اور بڑی تعداد میں نوجوان آبادی کی وجہ سے ٹک ٹاک وہاں بے حد مقبول ہو گیا اور صرف تین سال میں انڈیا میں اس ایپ کے 20 کروڑ سے زیادہ صارف ہو گئے ہیں۔

ٹک ٹاک میں فلٹرز، موسیقی اور ہیش ٹیگز کی مدد سے ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور اس کا استعمال نہایت آسان ہے۔

لیکن جہاں ایک جانب ان ویڈیوز کی مدد سے انڈین صارفین رقص، ہنسی مذاق اور غیر سنجیدہ قسم کی ویڈیوز بناتے ہیں وہیں دوسری جانب کئی ایسے صارفین بھی ہیں جو اسی ایپ پر نفرت انگیز مواد سے بھرپور ویڈیوز بھی بنا رہے ہوتے ہیں۔

بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ویڈیو بناتے بناتے صارفین زخمی ہو گئے اور کچھ کی تو موت ہو گئی۔ اس کے علاوہ چند جرائم پیشہ عناصر نے ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنائیں تو پولیس نے ان کی مدد سے اُن کا سراغ لگا لیا۔

مصنف امیت ورما جو خود بھی ٹک ٹاک چینل چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’کئی ایسے لوگ جن کو مرکزی میڈیا میں جگہ نہیں ملتی وہ ٹک ٹاک کو استعمال کر رہے ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ خواتین بھی دکھا رہی ہیں کہ انھیں کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بڑے تخلیقی لوگوں کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔‘

صارفین

گیت نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی ایک ٹک ٹاک سٹار کے طور پر گزاریں گی۔ انڈیا میں پیدا ہونے والی اور پھر امریکی شہر سیئیٹل میں بڑی ہونے والی گیت نے انجنئیرنگ اور وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پھر دہلی منتقل ہو گئیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ غریب طبقے کے بچوں کے ساتھ سماجی کام کر رہی تھیں جب انھوں نے گذشتہ سال فروری میں اپنا ٹک ٹاک چینل شروع کیا۔

’میں جو اصل زندگی میں کام کر رہی تھی وہی میں نے ٹک ٹاک کے ذریعے بھی شروع کر دیا۔ اب میری ایک ویڈیو بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچتی ہے اور میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔‘

گیت نے بتایا کہ اُن کو فالو کرنے والوں کی بڑی تعداد کم عمر لوگوں کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی لوگ چاہتے ہیں کہ وہ انھیں امریکی لہجہ میں انگریزی بولنا سکھائیں۔ گیت کے زبان سکھانے والے چینل کو 60 لاکھ سے زیادہ افراد فالو کرتے ہیں۔

اس چینل میں ان کی بنائی ہوئی ایک ویڈیو میں گیت اپنے صارفین کو جوتیوں کی مختلف اقسام کے نام بتاتی ہیں۔

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں وہ اپنی والدہ کے تلفظ کو درست کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اور ایک ویڈیو میں وہ سات مختلف طریقوں سے ’ہیپی برتھ ڈے‘ کہنا سکھاتی ہیں۔

اپنے باقی دو چینلز پر وہ کم عمر لوگوں کو رشتوں اور تعلقات کے بارے میں بتاتی ہیں اور مشورے دیتی ہیں۔

Geet

’مجھے سب سے زیادہ سوالات آتے ہیں کہ اگر بریک ایپ ہو جائے یعنی کسی کے ساتھ رومانوی تعلق حتم ہو جائے تو کیا کیا جائے اور اس دکھ اور درد سے کیسے نمٹا جائے۔ دوسرا سب سے زیادہ پوچھنے والا سوال ہوتا ہے کہ اگر میرا ساتھی مجھے وقت نہیں دے رہا ہو تو کیا کریں۔ شادی شدہ صارفین اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے سوالات کرتے ہیں۔‘

گیت کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک کی مدد سے کئی لوگوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ ’میرے کئی ایسے دوست ہیں جن کا روزی روٹی کمانے کا مرکزی ذریعہ ٹک ٹاک ہے۔ البتہ مجھے صرف اس بات کی خوشی ہے کہ لوگ میرے کام کو پہچانتے ہیں۔‘

دہلی میں اووبر ٹیکسی چلانے والے ایک ڈرائیور نے انھیں پہچانا اور درخواست کی کہ وہ ان کے فون پر ان کے بیٹے کے لیے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کریں جو پڑھائی پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔

ایک مرتبہ وہ شاپنگ کر رہی تھیں جب کسی نے ان کو روک پر پوچھا کہ ’کیا آپ وہی ہیں جو لوگوں کو ٹک ٹاک پر انگریزی زبان بولنا سکھاتی ہیں۔‘

گیت کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک نے ان کی اپنی زندگی بھی بدل دی ہے۔

ان کو دس سال کی عمر میں کمر میں چوٹ لگ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو گئیں اور وہیل چیئر استعمال کرنے پر مجبور ہو گئیں۔

’یہ بہت مسابقتی پلیٹ فارم ہے۔ آپ ہر طرح کے لوگوں کو ٹک ٹاک استعمال کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور صارفین کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ وہ کس کی ویڈیو دیکھ رہے ہیں۔‘

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے وہ اور ان کے صارفین دونوں ہی بہت پریشان ہیں۔

وائرس کے پھیلنے سے قبل مارچ میں وہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ سیئیٹل چلی گئی تھیں اور وہاں سے ویڈیوز بنا رہی ہیں۔ تاہم گیت نے کہا کہ ’یہ ایک مشکل وقت ہے۔‘

اور پیر کو یہ مشکل مزید بڑھ گئی۔ اس خبر کے بعد گیت ٹک ٹاک پر گئیں اپنے صارفین کو تسلی دینے کے لیے۔

’ہمت نہ ہاریں۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ انتظار کریں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ معاملہ حل ہو جائے گا اور ہم پھر ملاقات کریں گے۔ امید کا دامن نہ چھوڑیں اور کوئی جذباتی قدم نہ لیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp