وزیر اعظم عمران خان ’مائنس ون‘ کا ذکر خود ہی کیوں کر رہے ہیں؟


عمران خِان

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان کی طرف سے ازخود ’مائنس ون فارمولے‘ کی باتیں کرنے پر سیاسی تجزیہ کار اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

تجزیہ کار حیران ہیں کہ وزیراعظم کو ہٹانے کا ذکر خود حکومت کی جانب سے کیوں کیا جا رہا ہے اور حزب اختلاف کہتی ہے یہ باتیں اپوزیشن کو نہیں بلکہ ’کسی اور‘ کو سنائی جا رہی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے 30 جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ اگر ان کو عہدے سے ہٹا کر مائنس ون فارمولے پر عمل درآمد ہو بھی گیا تو دیگر رہنما پاکستان تحریک انصاف کے ایجنڈے کو آگے لے کر چلیں گے۔

حزب اختلاف کی جماعتیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی، ملکی معیشت کی بد حالی اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی روزمرہ اشیا کی قیمتوں کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کے استعفے اور نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے اب اس نقطے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے کہ شاید عمران خان دنیا کے واحد وزیر اعظم ہیں جو خود ہی مائنس ون کی بات کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سہیل وڑائچ کا کالم: سلیکٹرز سے کون پوچھے؟

’فوج میرے ساتھ کھڑی ہے، کیونکہ میں کرپٹ نہیں ہوں‘

عمران خان: اپوزیشن کو کیسز ختم کرنے کی یقین دہانی کروا دوں تو حکومت کرنا آسان ہے

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کا کہنا ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف قومی اسمبلی میں جو قرارداد جمع کروائی گئی ہے اس میں اپوزیشن کے علاوہ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں اور خود پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی کے دستخط بھی موجود ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مائنس ون فارمولے کی بات وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کو نہیں سنائی بلکہ یہ بات ’کسی اور‘ کو سنائی گئی ہے۔

پارلیمان

انھوں نے کہا کہ جس طرح وزیر اعظم کہتے رہے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے تو وہ یہ بات اپوزیشن کو نہیں بلکہ ’کسی اور‘ کو سنا رہے ہوتے ہیں۔

خرم دستگیر نے کہا کہ ان کی جماعت ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی کی حمایت صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جب کہ قبل از وقت انتخابات کی یقین دہانی کروائی جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال کے ساتھ ساتھ اس بارے میں بھی فکر مند ہے کہ کہیں انڈیا لداخ میں چینی افواج کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی خفت کو مٹانے کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ نہ کر دے۔

اُنھوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس اگلے ہفتے متوقع ہے۔

بظاہر وزیر اعظم کی طرف سے مائنس ون فارمولے کی بات اس تناظر میں کی گئی ہے کہ ان کے بقول جتنے بھی مافیا ہیں ان میں سے زیادہ کی پشت پناہی حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت کر رہی ہے اور حکومت ان مافیاز کو بے نقاب کر رہی ہے اس لیے حزب مخالف کی جماعتیں مائنس ون فارمولے کی بات کرتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں چیف وہپ عامر ڈوگر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف عمران خان ہیں اور عمران خان ہی تحریک انصاف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کے پاس عمران خان کے علاوہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کوئی متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سوچ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جمہوری پارٹی میں اختلاف رائے ہونا معمول کی بات ہے۔

انھوں نے گفتگو کے دوران اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کی جماعت میں کوئی فاروڈ بلاک ہے اور کہا کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔

عمران خان (فائل فوٹو)

عمران خان آج کل نہ صرف پارلیمان کو وقت دے رہے ہیں بلکہ اپنے پارٹی اراکین سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں

عامر ڈوگر کی اس بات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی جماعت میں ایسے 22 ارکان کا گروپ ہے جو حکومت کی پالیسیوں اور پارٹی قیادت کی طرف سے انھیں اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ناراض ہیں۔

ان ناراض ارکان میں سے بھی اب کچھ ارکان میڈیا پر آکر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے صحافی شاکر سولنگی کے مطابق جب سے پی ٹی آئی میں اختلافات کی خبروں میں شدت آئی ہے اور حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے حکمراں جماعت سے دوری احتیار کر رہی ہیں اس کے بعد سے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو اتنا وقت دینا شروع کیا ہے جتنا انھوں نے اقتدار میں آ کر پارلیمنٹ کو نہیں دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم گذشتہ ایک ہفتے سے مسلسل پارلیمنٹ ہاؤس میں آ رہے ہیں اور وہ اپنے چیمبر میں اپنی جماعت کے ان ارکان اسمبلی سے مل رہے ہیں جن سے شاید انھوں نے گذشتہ دو برسوں میں ایک مرتبہ بھی ملاقات نہیں کی۔

تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ عمران خان نے مائنس ون فارمولے کی بات کر کے پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ کو بھی چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ ہٹانا چاہتے ہیں تو ایسا کر کے دیکھ لیں کیونکہ ان کے پاس ان کے علاوہ فی الحال اور کوئی آپشن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو سیاسی طور پر متحرک ہونے کے بارے میں ضرور کہا گیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں سے خود رابطے کرنا عمران خان کے مزاج کے خلاف ہے۔

طلعت حسین کا کہنا ہے کہ عمران خان خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں چاہے وہ کرکٹ کا میدان ہو یا سیاست کا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ دو برس کے دوران ملکی معیشت کا جو حال کیا ہے اور جس تیزی سے اس جماعت کی مقبولیت کا گراف گرا ہے اس کا عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم مزید دو سال اقتدار میں رہے تو انھیں خطرہ ہے کہ ان کی جماعت کو عوام پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp