جسٹس ارشاد حسن کا دعویٰ پارسائی


ہم نے بھی کیا نصیب پایا ہے۔ اقوام عالم میں رواج ہے کہ کسی بھی شعبے کا نامورفردعہد رفتہ کی داستان تحریر کرتا ہے اور نئی نسل ان کے تجربات سے مستفید ہوتی ہے۔ مملکت خداداد میں مگر گنگا الٹی بہتی ہے۔ از خود فیلڈ مارشل اور قوم کی رہنمائی پر مامور ایوب خان اقتدار کے نصف النہار پر تھا تو قوم کو اپنی عظمت سے آگاہ کرنے کے لئے ”ماسٹرز“ کو فرینڈز لکھتا رہا۔ بین الاقوامی تعلقات یا سیاسیات کے کسی استاد کی صحبت میں کچھ وقت گزارا ہوتا تو وہ یہ وہم دور کر دیتا کہ ریاستوں کے مابین دوستی نام کی کسی چیز کا وجود ہوتا ہے۔ باہم مشترک مفادات ہوتے ہیں جو ریاستوں کوایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا کرتے ہیں۔ شکم پرور سیاسی بہروپیوں کے ہمراہ پارلیمنٹ کے سامنے کھڑا ہوکربندوق کی طاقت سے عوامی رائے کو یرغمال بنانے والے مشرف کو بھی دانشوری کا زعم تھا۔ قوم کی خوش نصیبی کہ غاصب کے سامنے کلمہ حق کہنے والے مٹھی بھر مجاہدوں نے اس کی زندگی میں ہی ”سب سے پہلے پاکستان“ کے نمائشی نعرے کی حقیقت بیان کردی۔ ایک کتاب جنرل مشرف کے یارغار جنر ل شاہد عزیز نے بھی لکھ رکھی ہے لیکن ہماری خوش نصیبی کہ قوم نے اس کا کوئی خاص اثر نہیں لیا۔

کتابیں تو اپنے لال حویلی والے شیخ رشید اور ملتان کے مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی لکھ رکھی ہیں۔ سیاسی اتھل پتھل کے باعث ان دونوں سیاستدانوں کی کتابیں تاریخ میں اہم حوالے قرار پائیں گی۔ ممکن ہے سیاسی سجدہ سہو کے بعد مخدوم جاوید ہاشمی ایک اور کتاب بھی لکھیں جو ملک میں جاری سیاسی دور پر ایک اور تاریخی دستاویز ثابت ہو۔ ضیاء الحق اچھے رہے جو اس جھنجھٹ سے دورخود کو قوم کی نشاۃ ثانیہ کی بحالی میں مصروف رکھا تاآنکہ فرشتہ اجل نے اچک نہ لیا۔

مملکت پاکستان کو درپیش ایک حادثے کے ہنگام قوم کو انصاف کی فراہمی پر مامور ایک قاضی نے بھی ”ارشاد نامہ“ جاری کیا تھا۔ خیر گزری کہ تاریخ کے طالب علموں کے ہاں اس کی کوئی ساکھ نہیں۔ قبلہ عرفان صدیقی نے روزنامہ جنگ میں ان دنوں کا احوال تحریر کیا ہے جب دنیا ایک نئے عزم کے ساتھ اکیسویں صدی کا آغاز کرنے جا رہی تھی۔ ایسے میں مملکت خدادا د پررہنمائی کے خبط میں مبتلا سازشیوں کا ایک ٹولہ اقتدار پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے میں مصروف تھا۔ دستور کے تحت انصاف کی فراہمی کے عظیم منصب پر فائز ارشاد حسن خان نامی فرد اس ٹولے کا حصہ تھا۔ آج یہ ارشاد حسن خان اس قدر تنہا ہے کہ بائیس کروڑ نفوس کے اس ملک میں اسے بائیس ایسے فرد میسر نہیں جو اس کے اجلے کردار کی گواہی دے سکیں۔

تاریخ کا بہی کھاتہ کھول کر جن پنوں کو عرفان صدیقی صاحب نے کھول کر قوم کے سامنے رکھا ہے وہ ارشاد حسن خان صاحب کو بہت ناگوار گزرے ہیں۔ جواب دعویٰ میں تاریخی ریکارڈ ”درست“ رکھنے کے لئے ارشاد حسن خان صاحب شکوہ کنا ں ہیں کہ ان کی کردار کشی کی گئی۔ یہ ان کا عرفان صدیقی صاحب سے ذاتی شکوہ ہے لیکن طالب علم ان کی جرات رندانہ پر حیران ہے۔ فرماتے ہیں ”ٹیک اوور ہو چکا تھا، حکم امتناعی نہیں دیا جاسکتا تھانہ ہی فوج کے اقدام کو ریورس جا سکتا تھا۔ معترضین انصاف کریں کون ایسا تیس مار خان ہو سکتا تھا جو مارشل لا کو غیر قانونی قرار دے دیتا۔ کیا یہ توقع ہو سکتی تھی کہ مشرف سمیت کوئی جرنیل فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتا؟ مختلف فیصلہ سے ملک و قوم غیر متوقع مصیبت اور عدم استحکام میں مبتلا ہو جاتے“ ۔

سقراط تاریخ میں امر اس لئے ہوا کہ اس نے سچ کی سر بلندی کے لئے زہر کا جام پیا، تاویل تو وہ ارشاد حسن خان سے کہیں بہتر گھڑ لیتا۔ حضور والا، تاریخ کے دھارے کو الٹا بہانے کا فرض تو آپ کو سونپا ہی نہ گیا تھا۔ آپ کافرض تو فقط اتنا تھا کہ حق اور باطل کو الگ الگ بیان کردیتے۔ اس کے نتیجے میں کچھ بھی ہوتا لیکن آپ تاریخ میں کہیں بلند مقام پر فائز ہوتے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے قبر میں جانے سے پہلے اس قدر ظرف تو پیدا کیا کہ ایسا کرنے سے نوکری زد میں آتی تھی، شکم پر ضرب پڑتی تھی۔ ارشاد حسن خان یہ بھی نہ کر سکے۔

فرماتے ہیں ”مشرف کو تین سال اقتدار پر قابض رہنے اور آئین میں ترمیم کا اختیار دینے کا فیصلہ اکیلے ارشاد حسن خان کا نہیں بلکہ ایس ایم ظفر اور پٹیشنر خالد انور کی مشاورت میں لارجر بنچ نے کیا“ ۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس سے بری مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ ایس ایم ظفر اور خالد انور کے پیچھے چھپنا ممکن نہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ تب منصفی کا جبہ پہنے مقدس ہستیوں نے جنرل مشرف نامی سائل کو وہ بھی عطا کیا جو اس کی دعاؤں میں بھی شامل نہ رہا تھا۔

طالب علم کا سوال یہ بھی ہے کہ دستور پارہ پارہ ہونے سے بڑا سانحہ کیا ہو سکتا ہے جو اس قوم پر گزرنا تھا؟ پاکستانی قوم پر اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی تھی کہ ایک غاصب نے حق حکمرانی ان کے منتخب نمائندوں سے چھین کر اپنے بوٹوں تلے دبا لیا۔ پارلیمنٹ کی بساط لپیٹی جا چکی تھی، قوم کا منتخب وزیراعظم پابند سلاسل تھا۔ دستور کواقتدار کی ہوس کے تعفن زدہ چیتھڑے میں لپیٹ کر ویرانے میں پھینک دیا گیا تھا۔ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ نمو پاتے جمہوریت کے پودے کو مسل کر ریت میں دفن کر دیا گیا تھا۔ ترقی کی شاہرا ہ پر خاردار تاروں کی دیواریں کھڑی کی جا چکیں تھیں۔ اس سے بڑھ کر کون سی ابتلا اس قوم پر نازل ہونا تھی؟ اکیسویں صدی میں جمہور کا راستہ روکنے سے بڑاعدم استحکام اور کیا ہو سکتا ہے؟

ارشاد حسن خان فرماتے ہیں انہوں نے ”قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز رہنے کی پیش کش ٹھکرا کر ملک و قوم اور آئین و جمہوریت کے بہترین مفاد میں چیف الیکشن کمشنر بننا گوارا کیا۔ اس کے نتیجے میں قوم نے دیکھا کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہوئے اور فوج بیرکوں میں چلی گئی۔ عوام کو آمر سے نجات کے لئے کوئی تحریک نہ چلانی پڑی اور نہ ہی کوئی خون خرابہ ہوا“ ۔ خدا غریق رحمت کرے علامہ طالب جوہری نے شاید ایسے ہی حالات کی منظر کشی کو فرمایا تھا۔

اول اول علم فقط اک نقطہ تھا
آخر آخر جہل بنا تاویلوں سے

ایک ادنیٰ طالب علم بھی جسٹس ارشاد حسن خان کی اس تاویل کو بہ سہولت تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے۔ مقام حیرت ہے جو شخص ملک میں جمہوریت کی راہیں مسدود کرنے والوں کے خلاف اپنا قلم نہ چلا سکا وہ قومی مفادات کے تحفظ کے لئے مسیحائی کا دعویدار ہے۔ غور فرمائیے اس آئین کی بات کی جارہی ہے، جو بوٹوں تلے روند دیا گیا اور ایک سرکاری ملازم کے سات نکا ت اس آئین سے مقدم ٹھہرے ہیں۔ اس جمہوریت کی بات کی جارہی ہے جس کے زیرسایہ ”منتخب نمائندے“ ایک وردی پوش کو دس بار ریاست کا صدر منتخب کرانے کے دعوے کرتے رہے۔

یہ اسی صدر کی بات ہو رہی ہے جو عوام کے نمائندوں کے اقتدار میں آتے ہی چھ حرفی لفظ مواخذہ سنتے ہی کان لپیٹ کر چل دیا تھا۔ قوم کو خون خرابے سے بچانے کے دعویدار ارشاد حسن خان سے طالب علم کا سوال ہے کہ ڈمہ ڈولا سے لے کروکلا تحریک میں جھلسائے جانے والے قوم کے بیٹوں کا خون کن ہاتھوں پر تلاش کیا جائے؟ بارہ مئی دوہزار سات کے دن کراچی کی سڑکوں پر گاجر مولی کی طرح کاٹی گئی خلق خدا کا خون کس کی گردن پر ہے؟ پرائی جنگ میں غیروں کا مہرہ بن کر ملک و قوم کوخاک و خون میں غرق کرنے کا گناہ کس کے سر پر ہے؟ بلا شبہ اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ارشاد حسن خان کا بھی ہے۔

خاکسار کی ارشاد حسن خان سے گزارش ہے وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی پیروی کا دعویٰ چھوڑ دیں۔ قائد اعظم کا پیرو کار صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو اس ملک میں جمہوریت، دستور اور انسانی حقوق کی سربلندی کا علم بردارہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments