سیکولرازم اور لبرل ازم کا ایک مختصر تعارف


اٹھارہ اکتوبر 2015 کے دن پاکستان علما کونسل کے زیراہتمام فاروق ؓ و حسینؓ امن کانفرنس میں محرم میں علمائے کرام نے باہمی اتحاد سے فساد اور تصادم کرانے والی قوتوں کو ناکام بنانے کی خاطر حکم لگایا کہ تمام مکاتب فکر کو ”اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں“ کے ضابطے پر عمل کرنا ہوگا۔

”اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں“ کا اصول سیکولرازم کی سادہ ترین تعریف ہے۔ یعنی ریاست کا ہر شہری، اپنے مذہب و مسلک پر کاربند رہے اور دوسرے کے مذہب و مسلک میں دخل اندازی نہ کرے۔ یہ ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت دینے سے بچاؤ کا ایک سمجھوتہ ہے، جس کی عدم موجودگی نے انسانی تاریخ میں قتل و غارت کو جنم دیتے بارہا دیکھا ہے۔ مولوی عبدالحق اردو میں سیکولرازم کا ترجمہ لادینیت کر گئے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ایتھیزم کا ترجمہ انہوں نے کیا کیا ہو گا۔ بہرحال، عربی میں اس کا ترجمہ ”علمانیہ“ کیا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ علم، یعنی نالج سے نکلا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ عالم یعنی دنیا سے ماخوذ ہے، یعنی ایک ایک طرف دین کا معاملہ ہے اور دوسری طرف دنیا کا۔ لیکن اس کی تفہم یہی کی جاتی ہے کہ یہ پرامن انداز سے امور زندگی چلانے سے متعلق ایک علم ہے۔

لبرل ازم کو زندگی کی کئی جہتوں پر منطبق کیا جاتا ہے۔ یہ آپ کو آزادی اظہار بھی دیتا ہے۔ پریس کی آزادی بھی دیتا ہے۔ اپنے مذہب پر چلنے کا تحفظ بھی دیتا ہے۔ فری مارکیٹ کو بھی یقینی بناتا ہے۔ شہری اور نجی حقوق بھی دیتا ہے۔ کیا ان میں سے ہم کسی چیز کو اپنے دین کے خلاف پاتے ہیں؟ یاد رہے کہ آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں ہے مقدس شخصیات کی توہین کی جائے بلکہ ہر ریاست اپنے سماج کی حساسیت کے پیش نظر کچھ معاملات پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔

ایسی چیزوں کو لبرل ازم پر چلنے والی اقوام بھی ہیٹ سپیچ کے نام پر روکتی ہیں۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کی نسل کشی کا معاملہ ایک مثال ہے۔ بہت سی جگہوں پر قانون اور مقامی اخلاقیات اس کی تردید سے بذریعہ قانون روکتی ہیں۔ یعنی لبرل ازم پر چلتے ہوئے ایسے قوانین بنائے جا سکتے ہیں جو کہ آزادی اظہار کی کچھ حدود مقرر کر دیں۔ لبرل ازم میں آزادی اظہار کا مطلب ہے کہ آپ لڑائی جھگڑے کی بجائے دلیل سے بات کریں۔ ہر ایک کو اپنا موقف دینے کی آزادی حاصل ہے۔ اپنا موقف دیں، دوسرے کا سنیں، اور جس کی دلیل بھاری ہو گی اس کا موقف وزن رکھے گا۔

لیکن اس کا فائدہ کیا ہے؟ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کیوں سیکولرازم اور لبرل ازم کا بڑا حامی ہے؟ وجہ یہی ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان وہاں اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اس کے خلاف قوانین بننے سے روک سکتے ہیں۔ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہ سکتے ہیں۔ اگر غیر مسلم ممالک سے لبرل ازم اور سیکولرازم ختم ہو جائے تو مسلمان نہ تو تبلیغ کر پائیں گے اور نہ وہاں ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزار پائیں گے۔ اسلام محض موجودہ دور کے مسلم اکثریتی علاقوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔ اس معاملے میں اندلس پر عیسائی قبضے کے بعد کے ماحول سے ہمیں ایک مثال مل جاتی ہے۔ اگر کوئی دلیل سے بات کرے، تو پھر ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں ہر دلیل کا جواب موجود ہے۔ لفظ آیت کا مطلب ہی نشانی ہے۔ تو پھر ہم کیوں کر اس بات سے گھبراتے ہیں کہ دلیل کی جنگ میں ہم ہیٹے رہیں گے؟ دوسری طرف قرآن و حدیث میں ہمیں دوسروں کے معبودوں اور مقدس ہستیوں کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے، یعنی ہیٹ سپیچ کو ناپسند کیا گیا ہے۔

فری مارکیٹ کا مطلب ہے کہ فراہمی اور ضرورت کے تناظر میں پیدوار چلے۔ جس چیز کی ضرورت زیادہ ہو گی، اس کی قیمت زیادہ ہو گی۔ حکومت اس پر کم سے کم کنٹرول رکھے گی لیکن یہ چیز یقینی بنائے گی کہ چند افراد حصول زر کی خاطر مصنوعی صورت حال پیدا مت کریں اور قیمتوں میں من مانی کمی بیشی کریں۔

پریس کی آزادی، اور جمہوریت کا فائدہ ہمیں یہ ہوتا ہے کہ وہ حکمران کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ آمریت کی راہ پر مت چلے اور اپنے عوام کو جوابدہ ہو۔ عوام کو جوابدہی تو خلافت راشدہ کا ایک وصف تھی جس میں ایک عام آدمی بھی خلیفہ وقت کا دامن پکڑ کر اس سے سوال کر سکتا تھا۔

شہری اور نجی حقوق میں بھی ہر فرد کو اپنی زندگی آزادی سے گزارنے کا حق دیا جاتا ہے اور اسے غلامی سے بچایا جاتا ہے۔ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جائیداد رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔ زندگی کا حق دیا جاتا ہے۔ حاکم وقت کے جبر، اور بے وجہ کی قید و بند سے تحفظ دیا جاتا ہے۔ ہاں جہاں وہ دوسرے افراد کی زندگی کو متاثر کرتا ہے، وہاں متفقہ علیہ اجتماعی تحفظ کے قوانین اسے روکتے ہیں۔ لبرل ازم حکومتی جبر کے خلاف ابھرا، اور یہ حکومتی جبر کے خلاف ایک عام شہری کو تحفظ دینے کے لیے ہی کارآمد ہے۔ یہ حکمرانوں کو آمریت سے روکتا ہے اور عام افراد کو طاقت دے کر ان کو ظلم و جبر سے بچاتا ہے۔

سیکولرازم اور لبرل ازم کا نام سن کر ہی ان کے خلاف بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ یہ کیسے اور کیوں ابھرے۔ ان کے مقاصد کیا ہیں۔ کیا یہ انسانیت کے لیے اچھے ہیں یا برے ہیں۔ ان سوالات کا جواب اپنے علم کی بنیاد پر دینے کی صلاحیت پیدا کریں اور پھر ان کے بارے میں حکم لگائیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments