عزیز احمد کے ناول ’آگ‘ میں سلگتا ہوا کشمیر


ایک جہنم وہ ہے جو افلاطون کے بیان کردہ عالم امثال میں ہے اور جو ہمارے اجتماعی لاشعور سے منعکس ہوتا ہوا ہمارے شعوری تصورات میں مبہم طور پر موجود رہتا ہے۔ مختلف اقوام کی اساطیر سے لے کر الہامی کتب تک جابجا اس جہنم کا بیان نافرمانی کے مرتکب لوگوں کے لیے سامان عبرت کے طور پر موجود ہے۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے اریب قریب دانتے نے ”ڈیوائنا کامیڈیا“ میں اپنے پر بہار تخلیق کے زور پر اس کی نقشہ بندی کرنے کی فن کارانہ کاوش بھی کررکھی ہے۔

سو ایک جہنم وہ ہے جو نادیدہ ہے اور ایک جہنم وہ ہے جو عافیت کدوں میں چھپی مجہول انسانیت کو بہ نظر تحقیر دیکھتا ہواہماری آنکھوں کے عین سامنے ہے۔ اس جہنم سے بلند ہوتے شعلے اور اس میں جرم ضعیفی کی سزا پاتے انسان ٹی وی سکرینوں اور اخباروں کی سرخیوں کے ذریعے ہر روز ہماری انسانیت کو پکارتے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ اور واللہ! جہنم بھی ایسا کہ اس کے حسن کو دیکھ کر جنت بھی شرماجائے۔

کشمیر جس کے ملکوتی حسن پر شعرا کا تخیل مچل مچل اٹھتا ہے فلسطین کے بعد دوسری سرزمین ہے جس میں جذبہ آزادی کو دبانے کے لیے آگ دہکائی گئی ہے اور اس کا ایندھن وہ جوان ہیں جن کے ہونٹوں پر حرف انکار اور دلوں میں آزادی کی نیلم پری رقصاں ہے۔ وہ اطاعت کرنے اور سرجھکا دینے سے انکاری ہیں سو بدلے میں اکھنڈ بھارت کے پجاریوں نے ان پر اپنی ہی زمین تنگ کردی ہے اور ان کے قبرستانوں کو وسیع کر دیا ہے۔

تین دہائیوں میں ستر ہزار قبریں اور ٹارچر سیلوں کی پتھریلی دیواروں سے سرٹکراتی لاتعداد چیخیں آزادی کی کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔ فلسطین میں بھی جانے کتنے قبرستان آباد ہیں اور جانے کتنے زندان خانوں میں ہڈیوں کے کڑکنے کی صدائیں منجمد ہیں لیکن ان ہر دو جگہوں پر ظلم کی قہرمانی آزادی خواہوں کے جذبہ حریت کو دبانے میں بری طرح ناکام رہی ہے کیونکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جذبہ آزادی کو دبایا تو جاسکتا ہے اسے تسخیر نہیں کیا جاسکتا۔ سو جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں پر چلنے والے، اپنی آنکھوں میں پیلٹ گنوں کے چھرے لیے آزادی کی اس منزل کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں جو، کوئی کچھ بھی کرلے، بہرحال ان کا مقسوم ہے۔

کشمیر کی جدوجہد آزادی نہ تو پانچ اگست 2019 کے روز سیاہ رونما ہونے والا اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ ہے نہ اس کی روداد کو گزشتہ تین دہائیوں تک محدود کیا جاسکتاہے۔ کشمیر میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات میں سے ہر واقعہ اس بڑے الاؤ کا انگارہ ہے جو اکبر بادشاہ کی جانب سے کشمیر کی آزادی کو چھین لینے کے بعد سے دلوں میں روشن ہونا شروع ہوگیا تھا اور جو کبھی زیر زمین اور کبھی برسرزمین رہ کر اپنی تپش سے بانہال، ہمالیہ اور قراقرم کو دھکاتا رہا ہے۔

کشمیر کے زبانی اور تحریری ادب میں ہزار سالہ معلوم تاریخ کی کروٹیں موجود ہیں لیکن یہ ادب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس کے علاوہ اردو میں اقبال سے حفیظ جالندھری اور مابعد تک کشمیرکے حسن کے قصیدے ہی نہیں ملتے بلکہ کشمیریوں کی مفلسی اور زبوں حالی کی تصویری جھلکیاں بھی ملتی ہیں خاص طور پر اقبال نے کشمیر نژاد ہونے کے تئیں جس دردمندی کے ساتھ روح آزادی کشمیر کی بات کی ہے وہ آج بھی دلوں کو گرماتی ہے لیکن جب کشمیر کے آلام کی فنی و تخلیقی سطح پر تصویر کشی کی بات کی جاتی ہے تو اردو فکشن خاص طور پر ناول نے با العموم اس سے اغماض برتا ہے۔

اگر ہم کسی دور کی صداقتوں کو پانا چاہیں یا کسی جگہ برپاہونے والے انسانی تماشے کی گہرائی میں اترنا چاہیں تو لامحالہ ہمیں اس حوالے سے لکھے گئے ناول کی جانب پلٹنا پڑے گا کیونکہ ناول ہی ایک ایسی صنف ہے جو دور جدید کے رزمیہ کو لے کر چلتی ہے کیونکہ اس میں تہذیبی اور معاشرتی وسعتوں اور پیچیدگیوں کو تمام تر تضادات کے ساتھ اپنے اندر سمیٹنے کی فطری قوت موجود ہوتی ہے۔ سو ہم کشمیر کی صورتحال بھی سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں پر نہیں چھوڑ سکتے، ہمیں بہرحال اس تمام تر صورتحال کے جامع ادراک کے لیے بحیثیت صنف ناول کی ورق گردانی کرنا ہوگی۔

اردو ناول کو وجود میں آئے ڈیڑھ سو سال ہونے کو آئے ہیں لیکن آج بھی ہمارے پاس لے دے کر صرف دو ناول ہیں جن میں خاص طور پر کشمیر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک کرشن چند ر کا ’شکست‘ اور دوسرا عزیز احمد کا ’آگ‘ ہے۔ کشمیر ی عوام کی بدترین غربت، سماجی پسماندگی اور استحصال دونوں کا موضوع ہے مگر الگ الگ انداز میں۔ ’شکست‘ میں کشمیر کی معروضی صورتحال کا ذکر کم اور کرشن چندر کی مخصوصی انقلابی رومانویت زیادہ ہے۔

یوں بھی اس کا بنیادی موضوع کشمیر کی سیاسی و سماجی صورتحال بجائے ہندو سماج میں ذات پات کے سفاکانہ نظام کے تحت انسانوں کی اونچ نیچ ہے اور پھر اس کے مرکزی کردار بھی منفعل اور عمل کی قوت محروم ہیں۔ اس طرح لے دے کر ہمارے پاس ایک ہی ناول ’آگ‘ ہے جس میں نہایت شعوری طور پر کشمیر کی صورتحال کو تاریخی تناظر اور انسانی عمل کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پروفیسر عزیز احمد ( 1978۔ 1914 ) قبل از تقسیم اردو فکشن کے ارتقائی دور کی ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ وہ اردو کے رجحان ساز ناول نگار کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ا ن کے ناولوں کی خاص بات ان کی علمیت میں سے جنم لینے والا سیاسی و سماجی شعور اور فنی پختگی ہے۔ ان کا کمال ہی یہ ہے کہ انہوں نے تقسیم سے قبل کے ادبی منظر نامے میں اردو ناول کے رجحانات کو نئے ذائقوں سے روشناس کرایا تھا۔ عزیز احمد نے ’آگ‘ کے علاوہ ’گریز‘ اور ’ایسی بلندی ایسی پستی‘ جیسے کامیاب ناول لکھ کر اردو ناول میں قابل قدر اضافے کیے ہیں (میں نے دانستہ طور پر ’ہوس‘ ، مرمر اور خون ’اور‘ شبنم ’کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ خود بھی کھلی جنسیت پر مبنی اپنے ان کمزور ناولوں کے ذکر سے شرماتے تھے ) ۔

ناولوں کے علاوہ انہوں نے‘ خدنگ جستہ ’اور‘ جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ’جیسی یادگار طویل کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ انہیں تیس کی دہائی میں نظام حیدر آباد کی بہو شہزادی در شہوار کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت میں اس کے جلو میں گرمیاں گزارنے کے لیے کشمیر جانے کا موقع ملا۔ یہ یادگار سفر ہی ان کے سب سے موثر ناول‘ آگ ’کی تخلیق کا باعث بنا۔

پروفیسر عزیز احمد نے اپنے قیام کے دوران کشمیر کو ایک لاتعلق سیاح کی تماش بین نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ایک ناول نگار کی نگاہ سے دیکھا اور پھر اپنے ناول کا مواد حاصل کرنے کے لیے وہ مزید دو مرتبہ کشمیر گئے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ انہوں نے جہلم کے کنارے ایک دکان دیکھی جس کے باہرموٹے الفاظ میں ”خواجہ غضنفر اینڈ سکندر جو“ لکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے دکان میں جاکر وہ سب کچھ دیکھا جس کی تفصیل ناول میں موجود ہے۔

یوں ناول کے مرکزی کردار محض ان کے تخیل سے برآمد نہیں ہوئے بلکہ برسرزمین حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ وہ خود کشمیری نہیں تھے لہٰذا انہوں نے کشمیر کی حقیقی روح کو پانے کے لیے بہت محنت کی تاکہ کہیں بھی تصنع کی پرچھائیں تک نہ پڑے۔ اس دوران انہوں نے کشمیر کے سیاسی و سماجی معاملات کو باریک بینی سے دیکھا، اس کے تضادات اور تناقصات کو سمجھا اورایک ناول نگار کی حیثیت سے صورتحال کا تجزیہ کیا اور ان سب کا حاصل 1942 میں ایک ناول ’آگ‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس سے پہلے وہ ’گریز‘ جیسا کامیاب ناول لکھ چکے تھا۔

’آگ‘ کے دو حصے ہیں ؛ شنیدہ اور دیدہ۔ انہوں نے اس ناول میں کشمیر کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی صورتحال کو ہندوستان کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں لکھا ہے۔ یہ ناول 1918 سے 1924 کے درمیانی عرصے کا احاطہ کرتا ہے۔ یہی وہ عرصہ ہے جو کشمیر کی سیاسی تاریخ میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیر کی غلامی اور کشمیریوں کے خلاف ہونے والی ننگی جارحیت کے تمام تانے بانے اسی دور کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

پروفیسر رالف رسل جوبرطانیہ کے قیام کے دوران عزیز احمد کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ اپنے ایک مضمون ”عزیز احمد، جنوبی ایشیا، اسلام اور اردو“ میں ’آگ‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

”جس چیز کی عزیز احمد کے ناول ’آگ‘ میں کمی نہیں ہے وہ ہے جنوبی ایشیا کی حقیقتوں کی صاف اور واضح تصویروں کی گیلری کا ہونا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مغرب کی مثبت اقدار کو اپنے اندر سمونے کے باوجود اپنی مقامی روایت کے ساتھ تعلق منقطع نہیں کیا تھا۔“

کشمیر کا مسئلہ چالیس کی طوفانی دہائی کے بعد پیش آنے والے مسائل میں سب سے سنگین انسانی مسئلہ ہے جس کے بارے میں ارون دتی رائے اپنے ایک مضمون میں اس خوف کا اظہار کرچکی ہیں کہ اگر اس مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو اس کا حتمی نتیجہ برصغیر میں ایٹمی تباہی کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ کشمیر میں 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں ہونے والی سیاسی جدوجہد نے مستقبل میں کشمیرکی سیاست کا رخ متعین کر دیا تھا۔ عزیز احمد کا ناول ’آگ‘ اسی دور کا احاطہ کرتا ہے اور اس دور کی واضح تصویریں ہمیں کہیں اور نہیں صرف ’آگ‘ میں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یوں کہ 220 کے لگ بھگ صفحات میں کشمیر کی روح سمٹ آئی ہے۔

’آگ‘ میں سیاسی، تہذیبی اور سماجی صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کہانی جو خاندان کی تین نسلوں کے گرد تانا بانا بنتی ہے۔ اس خاندان کا سربراہ ملک التجار، سرخیل سوداگراں، خواجۂ بازارگاں، خواجہ قالین فروشاں قسم کا ایک چرب زبان کشمیری تاجر خواجہ غضنفر جو ہے۔ پیسے اورجنسی ہوس کا مارا غضنفر جواس مہاجنی نظام کا نمائندہ ہے جس نے کشمیر کو بدترین افلاس اور پسماندگی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا۔ پیسے کا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ وہ کسی بھی طرح کی انسانی اخلاقیات پر یقین رکھتا ہے لہٰذا خواجہ غضنفر جواپنے قالین، نمدے اور جواہرات کے زیادہ سے زیادہ دام کھرے کرنے کے لیے گاہک کے مذہبی و سماجی رجحانات کے مطابق اپنا بیانیہ بدل لیتا ہے۔

اپنی چرب زبانی سے کمائی دولت کی چمک سے وہ ’زون‘ جیسی چاند چہرہ عورتوں کے جسموں کو اپنے تصرف میں لاتا ہے (کشمیری زبان میں ’زون‘ کا مطلب چاند ہے ) ۔ اور جب ’زون‘ کا ناکام عاشق اور اس کا بدصورت کزن رمضانا اس کا جسم حاصل ہونے کی آخری امید گنوا چکنے کے بعد ’چاند‘ پر تیزاب پھینک کر اسے جھلسا دیتا ہے تو خواجہ غضنفر جو کا دروازہ بھی اپنی ’ماشوک‘ پر ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے۔

چونکہ کشمیر کی طرح ہم نے کشمیر پر لکھے اس لاجواب ناول کو بھی بھلادیا ہے، اس حد تک شاید بہت سے ایسے قاری بھی ہوں جو اس ناول سے ہی بے خبر ہوں لہٰذا ہمیں مضمون کی درست تفہیم کے لیے بہ امر مجبوری ناول کی کہانی کو اقتباسات کے ساتھ بیان کرناپڑے گا۔

ناول کے پہلے حصے ’شنیدہ‘ کی ابتدا میں ناول نگار ہمیں بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں کے کشمیر سے تعارف کراتا ہے۔ ناول کے آغاز میں ایک تجارتی قافلہ ہے جو کشمیر اور لداخ کی سرحد پر واقع ساڑھے گیارہ ہزار فٹ بلند درہ زوجی لا میں برفباری اور ایوالانش میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ قافلہ خواجہ غضنفر جو کے لیے لداخ، تبت، کاشغر اور یارقند سے قالین، نمدے اور قیمتی جڑاؤ زیورات کوڑیوں کے مول خرید کر لارہا ہے تاکہ خواجہ غضنفر جو ان چیزوں کو اپنی جہلم کے تیسرے پل کے قریب واقع دکان میں منڈلاتی ادھیڑ عمر میموں، پنڈتانیوں اور راجوں مہاراجوں کو کئی گنا زیادہ دام پر بیچ کر اپنی بزنس ایمپائر کو مستحکم کرسکے۔

اولین باب میں ہم زوجی لا میں برفانی طوفان کی خوبصورت منظر نگاری کے دوران ایک جانب کشمیر کے لداخ، چین اور وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی و سیاسی روابط سے بھی روشناس ہوتے ہیں تو دوسری جانب ہمیں بلند سلسلہ ہائے کوہ کی وادیوں میں پھیلی ہولناک غربت اور کسمپرسی سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ ناول نگار زوجی لا درے سے ہمارا تعارف یوں کراتاہے :

”اس راستے سے انسان آئے، مہاجنی نظام آئے، سامراج آئے، جراثیم آئے، قالین آئے، نمدے آئے، تعصبات آئے۔ اس انسان اور حیوان کے ساتھ جو آیا کرتا ہے، سب آیا۔ یہ ساڑھے گیارہ ہزار فیٹ اونچا درہ زوجی لا، یہ ہمالیہ کی پاک پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ۔“

خواجہ غضنفر جو کی بزنس ایمپائر جن پایوں پر کھڑی ہے ان میں ایک ریاست کشمیر کی اشرافیہ ہے جو شدید منافقت، کام چوری اور عوام دشمنی سے اپنی طاقت کشید کرتی ہے، دوسرا پایہ دوسرے تیسرے درجے کے انگریزوں اورہندوستانی ریاستوں کے نمائشی راجوں مہاراجوں پر مشتمل ہے جن کے پاس لٹانے کو دولت بہت ہے جبکہ ایک اور پایہ رجبا نانبائی جیسے انسانی شرف سے عاری کرداروں نے اپنے کمزور کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔

رجبا نانبائی اپنی بیوی زون کو خواجہ غضنفر جو کے پاس اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ میرا کدل میں ایک اور دکان کھول سکے۔ اور ستواں ناک، بڑی بڑی چمکدار آنکھوں اور انگاروں کی طرح دہکتے ہونٹوں والی زون جس کے جوؤں سے بھرے میلے پھیرن کی جگہ اگر اسے ”کاڑھے ہوئے سلمہ ستارے کے کام کی پشواز پہنادی جاتی تو وہ کسی راج کی مہارانی معلوم ہوتی“ لیکن وہ رجبا کے لیے محض ایک جسم ہے جسے بیچ کر وہ اپنا کاروبار بڑھا سکتا ہے۔ یوں رجبا نانبائی خواجہ غضنفر جو کا ہی سایہ ہے البتہ دونوں میں فرق دولت کی مقدار کا ہے جو ان کی قسمتوں کا تعین کرتی ہے۔

جو خاندان کی دوسری پیڑھی کا نمائندہ خواجہ سکندر جو ہے۔ یہ اپنے باپ کا ہی پرتو ہے لیکن قدرے نئے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ یہ 1918 کا ذکر ہے کہ اس زمانے کی مسلم اشرافیہ کے رواج کے مطابق غضنفر جو اپنے اکلوتے بیٹے کو تعلیم یافتہ اور ایک انگریزی خواں مسلم اشرافیہ کا نمائندہ بنانے کی غرض سے خود علی گڑھ چھوڑ کر آتا ہے۔

اس زمانے میں غضنفر جو کا کاروبار خوب چمک رہا تھا۔ اسے تعلیم یافتہ نہیں کاروباری بیٹا چاہیے تھا۔ تعلیم تو آدمی کو ضائع کردیتی ہے۔ لالہ خوشحال چند کا بیٹا ایم اے کرنے کے بعد ”عدم تعاون تحریک میں ضائع ہوگیا تھا“ ۔

جب سکندر جو علی گڑھ کی تعلیم اور تربیت پاکر اپنے لوکیل میں واپس آتا ہے تو لوگ حیران ہوکر ایک کلین شیو نوجوان کو دیکھتے ہیں جو سرج اور ٹویڈ کے سوٹ پہنے رکھتا ہے اور پورے کشمیر میں اس جیسا فیشن ایبل اور کوئی نہیں ہے۔ وہ داڑھی منڈوانے اور سوٹ پہننے جیسی ”کافرانہ عادات“ تو اپنالیتا ہے لیکن قدامت کے ساتھ وابستگی کے اظہار کے لیے وہ سر پر استرخانی سمور کی ٹوپی پہننے رکھتا ہے۔ اس کا باپ اسی پر خوش ہے کہ ”لاکھ سوٹ پہنے وہ مسلمان تو معلوم ہوتا ہے اور خواجہ غضنفر جو کے قلب کو اس سے بڑی طمانیت تھی۔“

سکندر جو اپنے باپ کی کھڑی کی ہوئی بزنس ایمپائر کے لیے زیادہ کارآمد تھا کہ اب وہ گوری میموں اور گورے صاحبوں کے ساتھ زیادہ روانی کے ساتھ ”یس میم۔ ۔ ۔ نو میم“ کر سکتا تھا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث وہ کشمیر کی ہندو اور مسلم اشرافیہ نیز ریاستی اشرافیہ کے ساتھ بھی زیادہ سہولت کے ساتھ تال میل بنا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وراثت میں ملی ہوئی Lust بھی اس میں فراواں تھی جس نے آگے چل کر سکندر جو کی تشکیلی ساخت میں بہت اہم کردار ادا کرنا تھا۔

جو خاندان میں دولت اور عورت کے جسم کی ہوس ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ اگر باپ کے کھیلنے کے لیے زون کی صورت میں ایک خوبصورت کھلونا موجود تھا تو بیٹے نے اسی زون کی بیٹی فضلی کو اپنے لیے چن لیا تھا۔ فضلی جو سکندر کے خادم خاص امدو کے الفاظ میں ”نطفہ ناتحقیق“ تھی اور اپنی ماں سے دس گنا زیادہ حسین تھیں، نفسیاتی وجوہات کی بنا پر سکندر جو جیسے ”پرنس“ سے نفرت کرتی تھی۔ کہانی میں صراحت سے تو نہیں بتایا گیا لیکن قاری فضلی کے لاشعور میں داخل ہوکر جان سکتا ہے کہ سکندر جو سے اس کی بظاہر ناقابل فہم نفرت کے عقب میں یہ خوف بھی موجود ہے کہ کہیں اس کے ہاتھوں وہ اس جیسے کسی انجام کا شکار نہ ہو جائے جو اس کی ماں زون کا ہوا تھا۔

ناول نگار ہمیں واضح طور پر تو نہیں بتاتا لیکن قاری خود جان سکتا ہے کہ فضلی کے پاس اپنی نفرت کے کئی جواز موجود تھے، سب سے مضبوط جواز یہ تھا کہ وہ اس شخص کا بیٹا تھا جس کی وجہ سے اس کی ماں کا چاند چہرہ بھیانک ہوا تھا اور دوسرا یہ بھیانک امکان کہ، اگرچہ یہ واضح نہیں، لیکن وہ سکندر کے باپ کی بیٹی یعنی اس کی بہن بھی ہو سکتی ہے دوسری جانب فضلی کی نخوت اور نارسائی سکندر جو کی ”مردانگی“ اور ”کارپوریٹ انا“ کے لیے تازیانہ بن چکی تھی۔

فضلی کی نفرت سکندر جو کے لیے کتنی بھی جنوں خیز ہو لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ فضلی ایسی برفانی چوٹی ہے جسے دولت کی رعد سے پگھلایا جاسکتا ہے اور پھر وہ امدو کی امداد سے ”چار سو روپے نقد اور سونے کے کنوراج اور تالارز“ کی حدت سے اپنی سہاگ رات سے اگلی رات کواس برف زار کو پگھلانے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ دولت سے ہر جذبے کو رام کیا جاسکتا ہے چاہے وہ خالص نفرت ہی کیوں نہ ہو۔

علی گڑھ کی تعلیم ہرجگہ اس کے کام آ رہی تھی۔ فضلی سے فراغت پانے کے بعد اب اس کے سامنے باپ کی بزنس ایمپائر کی جڑیں دور تک پھیلانے کا چیلنج درپیش تھا۔ یوں اس نے ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی سال بہ سال اپنی دکان کی برانچیں کھولنا شروع کردیں جس کے بعد دھن ٹوٹ کر ان پر عاشق ہوگیا۔ سب سے پہلے ادھیڑ عمر انگریز طوائف مسز ایشلے، پھر فضلی اور پھر چل سو چل ہر طرح کی ادھیڑ عمر میمیں اور میلے کچیلے چاند چہرے سکندر جو کو دعوت مبارزت دینے کے لیے تیار تھے اور وہ ہاتھ میں چاندی کا عصا تھامے ہر چوٹی کو سر کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ یوں دولت اور نسوانی جسم ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے رہے اور جو خاندان اپنی دوسری پیڑھی میں نئی منزلیں سرکرتا گیا۔

اس خاندان کی تیسری پیڑھی انور جو سے منسوب ہے۔ اس پیڑھی تک پہنچتے پہنچتے کہانی بیسویں صدی کی تیسری سے چوتھی دہائی میں داخل ہو رہی ہے۔ انورجو بہت سے حوالوں سے اپنے باپ اور دادا سے مختلف ہے۔ وہ بدلے ہوئے کشمیر کا نوجوان ہے جو ایک جانب اپنے باپ کے جنسی ایڈونچرز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے دوسری جانب وہ کشمیر کے سیاسی مستقبل کے لیے پریشان ہے۔ اور پھر وہ شیخ عبدالرحمن (شیخ عبداللہ) کی نیشنل کانفرنس کی کانگریس نوازی کو مسترد کرتے ہوئے مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستگی کا علم اٹھالیتا ہے۔

انور جو کے ہوش سنبھالنے سے بہت پہلے ہی کشمیر پر صدیوں سے طاری سرد انجماد میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ ڈوگرہ راجاؤں نے بہت مدت تک بزور طاقت کشمیر کو ارد گرد کی دنیا حتیٰ کہ ہندوستان میں رونما ہونے والی سیاسی کروٹوں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ لیکن اب معاملات ڈوگرہ حکومت کی دسترس سے نکل رہے تھے۔ ایک جانب کشمیر کی وادی میں بیداری کی زیر زمین لہریں تھیں جو کبھی کبھارزلزلے بپا کرنے کا باعث بن رہی تھیں۔

ان میں ایک زلزلہ 1924 میں سرینگر کے قریب سلک فیکٹریوں کے پانچ ہزار مزدوروں کی غیر انسانی سلوک سے نجات کے لیے کی جانے والی ہڑتال بھی تھی۔ اس ہڑتال پر ڈوگرہ فوج نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہڑتالی مزدوروں پر فائر کھول دیا تھا جس کے نتیجے میں بہت سی جانیں چلی گئیں۔ اس پر شاید کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار غم اور غصے کی شدت سے لوگ باہر نکل آئے جنہیں بہت اطمینان سے گھیر کر شکار کیا گیا۔ یوں 1924 کا سال کشمیر کی بیداری کا عنوان بن گیا۔ اور جب کشمیر بیدار ہونا شروع ہوا تو کشمیر کے عام لوگوں کی ذہنی یبوست کی علامت اور صاحب لوگوں کے ازلی خادم ”الف لیلیٰ کے حجام کی اولاد شعبانا ہانجی کے جوان بیٹے ممداکا مغز خراب ہوگیا“ ۔

دوسری جانب ایک اور آگ تھی جو روس میں اشتمالی انقلاب آنے کے بعد شمال کی جانب سے لپکتی چلی آ رہی تھی۔ روسی انقلاب کے لیڈر لینن نے مسلمانوں کے نام ایک پیغام جاری کیا تھا جس میں مساوات اور برابری اور مذہبی رواداری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس پیغام میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے علیحدگی اور حق خود ارادیت کا وعدہ بھی شامل تھا۔ جب سکندر جو دولت کے بل پر فضلی کے حسن کو تسخیر کر رہا تھا عین اس وقت ترکستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں کی کمیونسٹ پارٹیاں مسلمان مزدوروں پر اعتماد کی قراردادیں پاس کررہی تھیں اور اپنے دروازے سرخ فوج پر کھول رہی تھیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں مہاجنی نظام اپنی قدیم عادتیں چھوڑنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہا تھا:

”ایک جانب سمر قند و بخارا کی کف خاک انگڑائی لے رہی تھی تو دوسری جانب سری نگر کی چاندی فضلی اور اس کی بہنوں کی آبرو اور خدوخال پر نثار ہو رہی تھی“ ۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور آگ بھی تھی جو ہندوستان کی سمت سے کشمیر کی جانب بڑھ رہی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کی سیاسی نقشہ بندی میں تغیر رونما ہوچکا تھا۔ اپنی سب سے منافع بخش نوآبادی پر برطانوی راج کی گرفت کمزور پڑچکی تھی اور ان کی غلام جنتا کئی طرح کے دھڑوں میں منظم ہو رہی تھی:

”جنوب میں دوسری قسم کی ہلکی ہلکی آگ پھیلتی جارہی تھی۔ جلیانوالہ باغ میں انسان گھٹنوں اور کہنیوں پر رینگے اور ان پر آگ برسی اور پھر ہوتے ہوتے ملک میں آگ لگ گئی، لگتی گئی اور پھیلتی گئی اور اس لگتی اور بجھتی ہوئی آگ کے خاکستر میں اپنوں نے اپنوں کو بھون بھون کر کھانا شروع کر دیا۔ اسی آگ کی چنگاریاں پیر پنجال کی سفید مانگ پر بھی پڑیں اور صدیوں کی سردی پگھلنے لگی“ ۔

شمال اور جنوب کی سمت میں آنے والی آگ کشمیر کے اپنے اندر راکھ میں خفتہ چنگاریوں کو بھڑکاتی ہوئی غضنفر جو کی دکان تک بھی پہنچ چکی تھی:

”اور واقعتاً کشمیر میں آگ کے سوا اور ہے کیا۔ ۔ ۔ کیا یہ آگ مہاجنی نظام اور جاگیرداری نظام کو نہ جلائے گی؟ ہر طرف آگ ہی آگ؛ بھوک کی آگ، چنار کی آگ، لالے کی آگ اور بیماریوں کی آگ“ ۔

تاہم کشمیر میں بھوک، استحصال اور غلامی سے ایندھن پاتی آگ کے شعلے پوری طرح بھڑکنے میں البتہ ابھی نصف صدی کا عرصہ باقی تھا۔

کہانی اب ’شنیدہ‘ سے بڑھ کر ’دیدہ‘ میں داخل ہوچکی ہے۔ ناول کے اس دوسرے حصے میں ناول نگار نے اپنے براہ راست مشاہدات قلم بند کیے ہیں۔ اس حصے میں کشمیر کے بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں واضح ہل چل دکھائی دے رہی ہے اور کرداروں کی شکل و صورت بھی واضح تر ہوگئی ہے۔ اس حصے میں ناول نگار نے کشمیر کو باقی ہندوستان کی سیاسی کروٹوں کے تناظر میں زیادہ صاف طور پر دکھایا ہے۔ یہاں ہمیں کشمیری اشرافیہ کی صف بندی بھی ملتی ہے اور اس دور کی کشمیری صحافت کے رجحانات اور اخبارات کی سیاسی و گروہی وابستگیوں سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

ہمیں بہت تفصیل سے اس دور کے کشمیر کے بالائی طبقے کا آپس میں گٹھ جوڑ دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے کاروباری اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ اس طبقے میں ہمیں صرف غضنفر جو اور سکندر جو ہی نہیں دکھائی دیتے بلکہ ہمارا سامنا صفدر جنگ ایسے سر سے پا ؤں تک انچ انچ درباریوں سے بھی ہوتا ہے جو ہندوستانی ریاستوں اور ڈوگرہ حکمرانوں کے لیے دلالی کا کام کرتے ہیں اور خوبصورت نسوانی جسموں اور زرومال کی صورت میں صلہ پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں میر جمن سروش جیسے درباری شاعر بھی دکھائی دیتے ہیں جو بیسویں صدی میں بھی قصیدہ گوئی کے فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جن کی شاعری کی معراج یہ ہے :

راجہ نے مجھ کو حاجب ایواں بنادیا
چمکا کے شعر مطلع دیواں بنادیا

’آگ‘ میں ظہری صاحب جیسے موقع پرست اشراف کی غلیظ منافقت سے بھی ہماراواسطہ پڑتا ہے جو جب تک بے روزگار ہوتے ہیں جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور جب ان کا منہ موتیوں سے بھردیا جاتا ہے تو اپنی لکھی ہوئی شاعری تک ضائع کردیتے ہیں کہ کہیں ان سے بغاوت کی بو نہ سونگھ لی جائے۔

کشمیر میں ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو کشمیر میں سیاحت کی غرض سے یا حکومت ہند کی جانب سے وہاں استعماری بندوبست کو نک سک سے درست رکھنے کے لیے تعینات گورا صاحبوں اور ان کی بیویوں یا داشتاؤں پر مشتمل ہے۔ بھلے ان کا تعلق برطانیہ کے کوکنی طبقے سے ہی ہو مگر ان میں ہر کوئی اپنے تئیں تاج برطانیہ کا نمائندہ ہے اور غلام ہندوستانیوں کی قسمت کا مالک۔ ان کی ادھیڑ عمر عورتیں اپنے فرسودہ جسموں کی قیمت پر سکندر جو جیسے احساس کمتری کے مارے کشمیری شرفا کا خون چوستی ہیں۔ یہاں ایسی عورتیں بھی دکھائی دیتی ہیں جو حالات کے دھارے پر بہتی ہوئی کشمیر میں آنکلتی ہیں اور جب ان کے عاشقوں کی لین ڈوری ٹوٹ جاتی ہے تو وہ عبرت کا مرقع بن کر کسی ہانجی کی ہاؤس بوٹ کا کرایہ اپنے جسم کی صورت میں ادا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

ناول کے نصف آخر میں کشمیر ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے جب ہندوستان کی تقسیم کی بات چل رہی ہے۔ صدیوں کی پر امن اور روادار ہمسائیگی کے بعد ہندو اور مسلمان مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوکر متحارب فریق بن چکے ہیں۔ کانگریس، مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی اپنے اپنے تصور آزادی کے ساتھ پوری طرح فعال ہوچکی ہیں اور کشمیر ان کی فعالیت سے بے گانہ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک پاکستان کے قیام کا مطالبہ جوں جوں زور پکڑتا جا رہا ہے کشمیری مسلمانوں اور کانگریس کے حامی پنڈتوں کے درمیان تلخیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔

اگر ایک جانب کشمیری نوجوان مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے جھنڈوں تلے منظم ہورہے ہیں تو دوسری جانب مہاسبھائی ذہنیت بھی پوری طرح بیدار ہوچکی ہے اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے سنگھ پریوار کا مسلح ونگ آر ایس ایس ہندو نوجوانوں کو لاٹھی گولی چلانے کی تربیت فراہم کرنا شروع کرچکا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی حامی کشمیری اشرافیہ کا تعلق ہے تو ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو دوغلی زندگیاں بسر کرنے کے عادی ہیں۔ یہی دوغلا پن ان کی سیاسی وابستگیوں میں بھی جھلک رہا ہے کیونکہیہ وہ طبقہ ہے جس کی جڑیں زمین میں نہیں ڈوگرہ راج کی غلامی کے پانیوں میں تیر رہی ہیں :

”عبدالکریم خواجہ اور پاکستان اور بیئر سے بھرے ہوئے گلاس کا جھاگ۔ میجر صاحب سوچنے لگے کہ پاکستان ایسے لوگوں کے ذریعے ملا اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں رہا تو تاریخ کیا پھر اپنے آپ کو دہرائے گی؟ دیلمی اور سامانی اور غزنوی اور خلجی، وہی شراب اور حرم۔ ۔ ۔ اور بیچارہ جمال دار سردی میں اکڑا ہوا، کمبل اوڑھے، دامن میں کانگڑی جلائے اپنے بیوی بچوں سمیت بیٹھا کانپ رہا ہوگا۔ اس دیلمی، سامانی، غزنوی اور قہرمانی حکومت میں اسے پیٹ بھر کھانا ملے گا بھی یا نہیں؟“

یہاں گریز سے کام لیتے ہوئے ہمیں ایک نگاہ کشمیر کی معاشرت پر بھی ڈالنا ہوگی۔ ہم بیسویں صدی کی پہلی چار دہائیوں کے جس کشمیر کی بات کر رہے ہیں وہ ایک غلام خطہ ہے اور غلامی بھی صدیوں پر محیط ہے۔ دہلی کا تخت کئی صدیوں سے کشمیر کی آزاد اور خود مختار ریاست پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اسے کشمیر کو زیر نگیں کرنے کا پہلا موقع تب ملا جب مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کے آخری خود مختار حکمران یوسف شاہ چک کو ملاقات کے بہانے دھوکے سے لاہور بلایا اور گرفتار کرکے بہار میں جلاوطن کر دیا اور پھر اس کے بعد کشمیر پر چڑھائی کردی۔

یوسف شاہ چک ایک عاشق کا دل لیے پیدا ہوا تھا۔ وہ شاعری اور موسیقی کا دلدادہ تھا اور جس خاتون پر عاشق تھا اتفاق سے اس کا نام بھی زون تھا۔ زون جسے تاریخ حبہ خاتون کے نام سے جانتی ہے باکمال شاعرہ تھی جس کی شاعری کی گونج کشمیری ادبیات میں آج بھی للہ عارفہ کے ہمراہ بہت واضح طور پر موجود ہے۔ یوں 1586 میں مغل فوج کی لشکر کشی کے بعد کشمیر ایک نامختتم غلامی کی گود میں سونے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے بعد انگریزوں نے کشمیر کے ساتھ کیا کیا، سکھوں نے اسے گلاب سنگھ کے ہاتھ کیسے کشمیریوں سمیت بیچا اور گلاب سنگھ کے ڈوگرہ راج میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا؟ یہ رنگین و سنگین داستان طولانی بھی ہے اور اس مضمون کے احاطے سے باہر بھی ہے۔

قصہ مختصر، غلامی کے ماحول میں کشمیر پر جو بدترین افلاس اور غیر انسانی ماحول مسلط کیا گیا اس نے کشمیریوں کی نفسیات کو مجروح کرنے اورکشمیر کے متوسط طبقے کو مجہول اور موقع پرست بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ عزیز احمد نے ’آگ‘ میں اس جانب واضح اشارے کیے ہیں۔ جہاں وہ ایک جانب موقع پرست اور منافق کشمیری اشرافیہ کو دکھاتے ہیں جس کے ”جو“ خاندان سمیت کئی نمائندے اپنی موقع پرستی کے ساتھ ہمیں ناول میں سرگرم دکھائی دیتے، تو دوسری جانب وہ کشمیرکے عام لوگوں ہانجیوں، مہاجنوں کے کارندوں، نوکروں، مویشی اور بھیڑیں چرانے والوں کو بھی زندگی کے بوجھ تلے کراہتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کشمیری اشراف عادتاً حرام خور، دھوکے باز، عادی جھوٹے اور جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ ان میں سے کم ہی ہوں گے جنہیں اپنی عرفیت کی بجائے اپنا پیدائشی نام یادہو۔ یہ لوگ غیر انسانی زندگی کو انسانی سمجھ کر جیتے ہیں اور تہہ در تہہ غلامی کے طفیل اسی پر شاکر ہیں۔

’آگ‘ میں کشمیر کا مظلوم ترین طبقہ ہاتو بھی، صدیوں کی غربت اور محکومی کا بوجھ اٹھائے ہوئے کم خوراکی اور بیماریوں کے مارے اپنے انسانی پنجر لیے موجود ہے۔ ان ہاتوؤں میں غلامی اور احساس کمتری کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ جب ناول کے حصہ دوم ’دیدہ‘ کے ایک اہم غیر کشمیری کردار ’میجر صاحب‘ چند ہاتوؤں کے ٹٹو کرایہ پر لینے کے دوران انہیں اپنے ساتھ کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں تو وہ انکار کردیتے ہیں۔ اس کے بعد سخت سردی میں میجر صاحب انہیں اپنے ہوٹل میں بخاری کی آگ تاپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں تو ہوٹل کا منیجر ڈنڈے مار مار کر انہیں بھگا دیتا ہے اور وہ اس غیر انسانی سلوک پر بھی خود کو مجرم سمجھتے ہیں۔

عام عورت کہیں بھی ہو مرد کی حاکمیت کے معاشروں میں غلامی یا نیم غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے لیکن کشمیر کی عورت بلالحاظ طبقہ بدترین محکومی میں زندگی بسر کرنے کی عادی ہے۔ اگر وہ متوسط یا بالائی طبقے سے تعلق رکھتی ہے تو اس کا حسن، اس کی آوازسب سات پردوں کے پیچھے گم ہے :

”اور میں واحد متکلم پھر سوچ میں ہوں۔ اس ناول میں ہیروئن کا ملنا مشکل ہی تھا کیونکہ شریف گھر کی کشمیرن کوکون دیکھ سکتا ہے۔ اس کا حسن، اس کی آواز سب پردہ کرتی ہے۔ ہارون الرشید کے بغداد کی خاتون کی طرح وہ نقاب پہنے بازاروں میں خرید و فروخت نہیں کرتی۔ صرف کھڑکیوں اور جھروکوں سے جھانکتی ہے اور اس کی ٹوپی اور سر سے لٹکتا ہوا پردہ اتنا ہی میلا ہوتا ہے جتنا اس کی نوکرانیوں کا۔ ۔ ۔ وہ علم سے، آزادی سے، سورج کی روشنی سے، تازہ ہوا سے، مرد کی نگاہوں سے اور سچی محبت سے محروم ہے“ ۔

سکندر جو جیسے کشمیری شرفا اپنی حد سے بڑھی ہوئی جنسی بے اعتدالیوں کے باوجود ”اپنے گھر کو صاف“ رکھنے پر یقین رکھتے تھے۔ اس حد تک کہ انور جو کی نوجوان بیوی تنگ اور گھٹن زدہ مکان میں پڑے پڑے تپ دق کا شکار ہو رہی ہے لیکن سکندر جو نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا اسے ہوا دار مکان میں لے جائے۔

محنت کش طبقے کی کشمیری عورت پردہ کرنے کی بجائے اپنے مردوں کے شابہ بشانہ کام کرتی ہے اس کے باوجود اسے مکمل انسان تسلیم نہیں کیا جاتا۔ وہ گندگی اور مہینوں غسل سے محروم رہنے کے باعث جلدی بیماریوں، برص کے داغوں اور کوڑھ کے ساتھ گھٹ گھٹ کر زندگی بسر کرتی ہے۔

یہ وہ مجموعی معاشرت تھی جو غلامی اور غلامانہ ذہنیت کی پیداوار تھی۔ اس ماحول میں ناول نگار کو کوئی ہیرو اور ہیروئن تو درکنار ڈھنگ کا اینٹی ہیرو ملنا بھی محال تھا سو اس ناول میں کوئی ہیرو ہے نہ کوئی ہیروئن ہے۔ تمام کے تمام وہ لوگ ہیں جو غلامی میں پیدا ہوئے اور اسفل ترین درجے کی زندگی بسر کرکے بحالت غلامی ہی مرجانا ان کا مقد ر ہے۔ کشمیر میں غلامی کا ایک چکر ہے جس سے کوئی باہر نہیں ہے :

”برطانوی حکومت سرمائے کی غلام ہے۔ گورنمنٹ آف انڈیا برطانوی حکومت کی، ریاست کشمیر گورنمنٹ آف انڈیا کے سیاسی محکمے کی، کشمیر کے شرفا ریاست کے غلام ہیں اور شرفا کی بیویاں شرفا کی غلام ہیں اور یہ سارا نظام کھنکتے ہوئے سکوں کی جھنکار پر اور چمکتے ہوئے سکوں کی دمک پر قائم ہے“ ۔

’آگ‘ میں غلامی کی داستان کے ساتھ ساتھ اس بیداری کی کروٹیں بھی موجود ہیں جوتیس اور چالیس کی دہائی میں کشمیر کی سیاست میں ہلچل مچاچکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جو خاندان کی تیسری پیڑھی میں انور جو اپنے موقع پرست اور ہوس کے پتلے باپ اور دادا سے بہت حد تک مختلف ہے۔ اس میں کہانی کا ہیرو بننے کے امکانات بھی تھے لیکن بہرحال وہ اپنے کاروباری مفادات سے زیادہ اوپر اٹھنے کی طاقت سے محروم تھا۔ اس کے باوجود وہ اس دور کے ان کشمیری نوجوانوں کی نمائندگی کرتا ہے جو خود کو سیاسی بیداری کے ساتھ وابستہ کرچکے تھے۔ انور جو جس کے ذہن میں ”کانگریس اور مسلم لیگ کے حوالے سے کشمکش جاری تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ بغیر ہنگامہ کیے آزادی کا حصول ناممکن ہے“ ۔ اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ کانگریسی رہنماؤں کے جیل جانے کا خلا کاش مسلم لے گیپورا کردیں۔

انور جو کی محمد علی جناح کے ساتھ جذباتی وابستگی تھی جن کے خلاف وہ کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ سیاسی اجلاسوں میں علامہ اقبال کی کشمیر کے حوالے سے شاعری پڑھ کر لوگوں کا لہو گرماتا تھا۔ ایک بار وہ کسی پتھر پر ”ہندوستان چھوڑ دو“ کا نعرہ لکھا دیکھتا ہے تو اس کا لہو کھول اٹھتا ہے :

”ہندوستان چھوڑ دو؟ کس کے لیے جاپانیوں کے لیے؟ جرمنوں کے لیے؟ جاپانی فوجیں سرحد پر ہیں۔ سٹالن گراڈ کے محاذ پر انسانی تہذیب و جمہوریت بدترین سامراج اور فاشزم کے خلاف زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ یہ وقت ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کی نعرہ زنی کا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے دشمن نازیوں کو متحدہ جدوجہد سے تباہ کرنے کا ہے“ ۔

اپنے سیاسی شعور اور فعالیت کے باوجود انور جو کی فکر اور اس کے عمل میں یکسوئی کی کمی تھی وہ مختلف قسم کی ٹریڈ یونین بنانے میں بھی سرگرمی سے حصہ لیتا ہے لیکن قالین بافوں کی ٹریڈ یونین نہیں بننے دیتا کیونکہ قالین بافی کے ساتھ اس کے خاندان کے کاروباری مفادات

جڑے ہوئے ہیں۔ سو اس کے فکرو عمل میں انتشار اور بنیادی تضادات ہیں جنہوں نے اسے ہیرو بننے دیا نہ مسلم کانفرنسی اور نہ کامریڈ۔

ناول کسی متعین انجام تک نہیں پہنچتا بلکہ ایک ابہام کی فضا میں چند سوالات چھوڑتے ہوئے ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا ایسا ہی اختتام مناسب تھا کیونکہ یہ ابہام چالیس کی دہائی کے کشمیر اور ہندوستان کی نمایاں ترین خصوصیت تھی۔

غلامی ایک طلسم ہے جسے ایک نہ ایک روز ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔ فکری انتشار اور ابہام بھی تادیر باقی نہیں رہتا۔ اس کا خاتمہ بھی ہوکر رہتا ہے جو ہوا۔ سو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے 1989 کے مابعد کے کشمیر کو اپنی آزادی کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتے ہوئے دیکھ لیا ہے اور اپنے کانوں سے غلامی کی قدیم زنجیروں کے ٹوٹنے کی صدا بھی سن لی ہے۔ آج کا کشمیر ماضی کا کشمیر نہیں ہے۔ وہ کشمیر کوئی اور تھا اور یہ کشمیر کوئی اور ہے جہاں ہندتوا کی جارحانہ پیش رفت نے فکری ابہام کے جالے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔

آج کے کشمیر میں نام نہاد قوم پرستوں اور کشمیر فروشوں کی اولاد کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی۔ آج کا کشمیر سکندر جو اور ظہری جیسے خوئے غلامی کے مارے شرفا سے دامن چھڑا چکا ہے۔ آج کا کشمیر مقبول بٹ، افضل گرو، برہان وانی اور عادل ڈار کا ہے۔ ان نوجوانوں کا ہے جو اپنے لہو کی اشرافیاں اپنے وطن پر نچھاور کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہ وہ کشمیر ہے جس نے چار صدیوں پر محیط غلامی سے حتمی طور پر آزادی کا فیصلہ کر لیا ہے چاہے جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں میں کتنے ہی معصوم بچوں اور نوجوانوں کو اپنی آنکھیں پیلٹ گنوں کے سامنے پیش کرنی پڑیں اور چاہے اس کے قبرستان آبادیوں سے زیادہ پھیل جائیں۔

غلامی کی سیاہ رات کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہونا ہی ہوتا ہے اور بلا شک و شبہ کشمیر کی موجودہ نسل دیر سے سہی اپنی آنکھوں سے چنار کے ٹھنڈے سایوں میں آزادی کے گل نسترن کھلتے ہوئے دیکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments