ہم لوگوں کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں؟



ذرا تصور کریں کہ آپ ملازمت کے امیدواروں کے انٹرویو لے رہے ہیں۔ ایک امیدوار آکر کہتا ہے :

” میں ضمانت دے سکتا ہوں کہ میری ذہانت کی سطح ان سب سے بہتر ہے۔ میرے ایک انکل ایم آئی ٹی کے عظیم پروفیسر تھے۔ میرا یقین کریں کہ میں نے اچھی جینس ورثے میں پائی ہیں۔ ہم جینس پر یقین رکھتے ہیں۔“

آپ شاید اس وقت تو اپنی ہنسی ضبط کر لیں لیکن جب وہ ذہین صاحب کمرے سے باہر جائیں گے تو آپ یقینی طور پر ان کا نام امیدواروں کی فہرست سے نکال دیں گے۔ لیکن فکر نہ کریں آپ کا ان صاحب سے واسطہ نہیں پڑے گا کیونکہ یہ صاحب جن کے ارشادات میں نے درج کیے ہیں، آج کل امریکہ کے صدر ہیں۔

ذرا سوچیں کہ کرونا کی وبا کے دوران پاکستان کے کوئی ممبر قومی اسمبلی اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ:

” میں کل ہسپتال گیا اور وہاں پر کرونا کے کچھ مریض تھے۔ میں نے وہاں ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی۔ کہ میں نے لوگوں سے مسلسل مصافحے کر رہا ہوں۔ لوگ اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں سائنسی شواہد یہ بتاتے ہیں۔ ۔ ۔“

اور یہ کہہ کر وہ رک جاتے ہیں کیونکہ انہیں خود علم نہیں کہ اس بارے میں سائنسی تحقیق کیا ہے؟ آپ جھنجھلا جائیں گے کہ ہمارے سیاستدانوں کو کب عقل آئے گی؟ انہیں مصافحہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کی اس بلاوجہ حرکت کی وجہ دوسرے لوگ بھی خطرہ میں پڑے ہیں اور اس طرح یہ خود بیماری پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان شیخی بھگارنے سے باز نہیں آتے۔ ذرا ٹھہریں! یہ پاکستان کے کسی ممبر قومی اسمبلی کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن صاحب کی تقریر کا ایک اقتباس ہے۔ اور اس کے چند ہفتوں بعد وہ کرونا میں مبتلا ہو گئے۔

ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ ہمیں پسند کریں۔ ہمارا احترام کریں۔ اگر ہم کوئی چیز، کامیابی یا اعزاز حاصل کر لیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی کو اس کی اطلاع کریں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن بسا اوقات فخر کرتے کرتے شیخی بگھارنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ جولوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہوں وہ اس رجحان کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب پاکستان میں کسی حکومت کے رخصت ہونے کی خبریں عام ہو رہی ہوں تو اس سے وابستہ افراد کی تقاریر میں ”تفاخر“ کا انداز اتنا ہی زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے۔ اور ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ ”با وجود نا مساعد حالات کے ہماری حکومت نے وہ کام کر کے دکھایا ہے جو آج تک پاکستان کی کوئی حکومت نہیں کر سکی تھی۔“

ہارورڈ یونیورسٹی میں اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق سے جو پہلی بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ نوے فیصد سے زیادہ لوگوں نے گزشتہ ہفتے کے دوران کسی نہ کسی کو ”شیخی بگھارتے“ ہوئے سنا تھا۔ یعنی یہ معاشرے کا ایک عام مسئلہ ہے۔

محققین نے اس کی مختلف اقسام کا تجزیہ کیا۔ مثال کے طور پر ایک صاحب کا افسر ان پر اتنا اعتماد کرتا ہے کہ ہر اہم کام انہی کے سپرد کرتا ہے۔ یہ صاحب کسی دعوت پر گئے ہیں اور مجلس میں شریک احباب کو یہ بات بتانے کے لئے بے تاب ہیں۔ مختلف لوگ اس اظہار کے لئے تین مختلف طریق اختیار کر سکتے ہیں۔ پہلا تو براہ راست طریقہ ہے اور وہ یہ کہ یہ صاحب سیدھی طرح یہ کہہ دیں کہ ”میرا افسر مجھ پر اتنا اعتماد کرتا ہے کہ ہر اہم کام میرے حوالے کرتا ہے۔“

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسی بات کو شکایت کے رنگ میں کہا جائے۔ یہ صاحب کہیں گے ”میں دعوت پر لیٹ ہوگیا۔ میں تو زائد وقت کام کر کر کے تنگ آ گیا ہوں۔ لیکن میرے افسر کی عادت ہے کہ ہر اہم کام میرے ہی حوالے کرتا ہے۔“ بظاہر یہ شکایت ہے لیکن اصل مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ میں دفتر میں اتنا اہم ہوں کہ میرا افسر ہر اہم کام میرے حوالے کرتا ہے۔

فخر کرنے کا تیسرا طریقہ عاجزی اور انکسار سے فخر کرناہے۔ آپ سوچیں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ اگر یہی صاحب اس طریق کو اختیار کریں گے تو اس طرح بات کریں گے۔ ”میرے دفتر میں مجھ سے بہتر کام کرنے والے کئی سینیر موجود ہیں۔ لیکن میرے افسر نہ جانے کیوں ہر اہم کام میرے سپرد کرتے ہیں۔“ یہ جملے انکسار کے اظہار سے شروع ہوتے ہیں لیکن غرض یہی ہے کہ مجلس کے شرکاء کو اطلاع دی جائے کہ میں دفتر میں سب سے اہم شخص ہوں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین نے یہ جائزہ لیا کہ ان میں سے کون سے طریقے کو سننے والے کم نا پسند کرتے ہیں۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ثابت کیا کہ جو لوگ براہ راست بغیر کسی لگی لپٹی کے فخر کا اظہار کرتے ہیں لوگ ان کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کی نسبت جو لوگ عاجزی میں لپیٹ کر اپنے فخر کا اظہار کرتے ہیں، ان کو نسبتاً کم پسند کیا جاتا ہے۔ اور شکایت کا رنگ اختیار کرنے والوں کو سب سے کم پسند کیا جاتا ہے۔

اسی طرح براہ راست اظہار کرنے والوں کو لوگ زیادہ قابل سمجھتے ہیں۔ جو لوگ دوسرے دو طریق اختیار کرتے ہیں لوگ ان کی قابلیت کے متعلق کوئی اچھی رائے قائم نہیں کرتے۔ اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جو لوگ دھڑلے سے فخر کریں لوگ انہیں باقی دو اقسام کی نسبت زیادہ مخلص سمجھتے ہیں۔

اس تحقیق میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ہمیں اپنا اچھا تاثر قائم کرنے کے لئے زیادہ تکلفات کی یا بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہمارے میں کوئی اچھائی ہے تو وہ چھپی نہیں رہ سکتی۔ وہ خود بخود ظاہر ہو گی۔ اگر ہمارے جاننے والوں کو یہ احساس ہو کہ ہم ضرورت پڑنے پر ان کے کام آئیں گے اور انہیں ہمارے خلوص اور دیانت پر یقین ہو تو وہ ہمیں پسند بھی کریں گے اور ہمارا احترام بھی کریں گے۔

میں مسلم لیگ کے ریکارڈ میں 1930 کی فائلیں دیکھ رہا تھا دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح ہندوستان چھوڑ کر لندن منتقل ہو رہے تھے۔ اور تاریخ کے اس اہم موڑ پر مسلم لیگ کی حالت ہر لحاظ سے ابتری کا شکار تھی۔ اس سال کا اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں ہوا۔ جب سیکریٹری مسلم لیگ محمد یعقوب صاحب نے رپورٹ پڑھی تو اس رپورٹ میں ذکر کیا کہ ممبران اپنا چندہ ادا نہیں کر رہے۔ جس وجہ سے مسلم لیگ مقروض ہو گئی تھی۔

چندے کی اپیل کی گئی تو پورے ہندوستان سے صرف 887 روپے چندہ موصول ہوا۔ اس مشکل سے نکالنے کے لئے ایک ممبر نے اکیلے پورے ہندوستان کے ممبروں سے بھی زیادہ چندہ ادا کر کے مسلم لیگ کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ جہاں تک مجھ علم ہے مسلم لیگ کے اس ممبر نے ساری زندگی کبھی اس کارنامے کا ذکر کر کے مقبول ہونے کی کوشش نہیں کی۔ اور شاید ان کے سوانح میں بھی اس وقعہ کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ قوم کو ان کے خلوص پر کوئی شک نہیں رہا تھا۔ اس ممبر کا نام محمد علی جناح تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments