میرا پہلا قاری


میں نے جو لکھنا ہے وہ کوئی بیٹی یا بیٹا لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہمہ وقت ایک ہی حال میں رہنے کا خواہش مند انسان بھول جاتا ہے کہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ انسان بھی مسلسل ادھر سے ادھر جاتے رہتے ہیں۔ کائنات کی ہر شے تبدیلی کے اندر رہتی ہے۔ شہر بھی وہ ہی ہے مگر ”وہ“ انتقال کر گیا ہے۔ کیسے بتاؤں، کیسے چھپاؤں اپنے اس نئے نویلے ”غم“ کو اپنی چادر میں۔ اس نئے غم کی نویلی عمر کے ساتھ کس طرح بقیہ زندگی گزارنی ہے۔ اس کا تجربہ ہی نا تھا۔ جب شدید تعلق سے رابطہ یوں ٹوٹتا ہے تو ایک باپ نہیں مرتا، ایک انسان مرتا ہے۔ فادر ڈے سے ایک روز قبل

پہاڑوں کا باپ مر گیا۔
پھولوں کا باپ مر گیا۔
دریاؤں کا باپ مر گیا۔
بس سمجھیں آسمان کی چھت گر گئی۔

جو سیمنٹ اور اینٹوں سے نہیں محبت سے بنی تھی۔ یوں آج پیدائشی یتیم بچے نے اپنے چھ بچوں اعجاز گوئندی، فرخ سہیل گوئندی، بینا گوئندی، ڈاکٹر رومانہ یعقوب، ڈاکٹر انیلا یعقوب اور ڈاکٹر آمنہ یعقوب کے ساتھ ساتھ ان تمام بچوں کو یتیم کر دیا جن سے آپ محبت کرتے تھے۔ یہ یتیمی کا ذائقہ ڈیڈا نے قربان ہو کر اپنے تمام بچوں کو چکھایا۔ ہر دلعزیز ڈیڈا ”دوست چور“ ثابت ہوئے، جس کسی کو ایک بار مل لیتے بس پھر۔ وہ سرگودھا کانونٹ کی مسز ثنائی یا سسٹر مارتھا ہوتیں، ہماری سہیلیاں دوست یا واصف علی واصف یا اشفاق احمد ہوتے وہ سب کے سب پہلی ملاقات میں ہی ڈیڈا کے رفیق بن جاتے۔

آج ان کے لئے فادر ڈے کا تحفہ تحریری خراج کی شکل میں تیار کر رہی ہوں۔ باہر سورج کو گرہن لگا ہوا ہے اور قلم کو زنگ لگ گیا ہے۔ کیسے آنسوؤں کے سمندر کو اپنی آنکھوں میں چھپاؤں اور چشم بینا کا حرف حرف سچ لکھوں۔

وہ میرا پہلا قاری تھے۔ لفظ کی شان اس کو سمجھنے میں ہے۔ الصبح اٹھتے، پرندوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ ساتھ رات کا لکھا میرا حرف حرف سنتے اور سمجھتے بھی تھے۔ ”ہائے میرا پہلا قاری مر گیا“ ؛ اب میری تحریر میں جان کون ڈالے گا۔ نقاد تخلیق کو وہ مقام نہیں دے سکتا جو قاری کا فہم دے سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس دن سے ہوش سنبھالا، میری ہر دعا کا پہلا جملہ یہ ہی ہوتا، ”اے خدا میرے والدین کو طویل اور صحت مند زندگی عطا کرنا۔

دنیا کے کسی کونے میں ہوتی ان کے پسندیدہ مشغلے فون پر بات کرتی تو دن چڑھتا یوں دن بھر کام کرنے کی طاقت ملتی۔ مگر اب تو دن کے معمولات بدل گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ میری pet prayers بھی بدلنے لگی ہیں۔ دعاؤں کے اس از خود نظام کے سلسلے میں تعطل آ گیا۔ یعنی پہلے تو بنا بتائے دعائیں جاری رہتیں مگر اب تو ان کو دعاؤں کے لئے یاد کرانا پڑے گا۔

دو بھائیوں کے بعد دنیا میں میرے آنے کو انہوں نے لکشمی کہہ کر پکارا۔ باپ کی میں ہم شکل ہونے کے ناتے آئینے کے سامنے اپنا نہیں ان کا عکس دیکھوں گی۔

ناظم حکمت کہتا کہ ”کہانی ادھوری رہتی ہے“ ، تب ہی تو نا چاہتے ہوئے بھی انتقال پر دفن کیا جاتا ہے ؛ کہانی کے باقی راز کیسے منکشف ہوں ؛ راز ہائے سر بستہ کی دریافتوں کی کھوج کی کوشش میں ہم دونوں نے کئی برسوں سے لگے تھے۔ قیاس تھا کہ خوشبو کے اس سفر کا علم

یوں ہے جیسے علم کے علم کو محسوس کرنے کی صورت میں ہی کچھ کامیابی ممکن ہو۔ وہ دانائی کے مرید رہے، تب ہی تو راز حقیقت کی آگہی کا مکالمہ ہم دونوں کے درمیان ہی رہتا۔
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر گرم علاقوں کی سیر کے پروگرام بنانا بہت آسان جبکہ اس پر عمل کرنا بے حد مشکل ہے۔

اسی طرح درد کے موسموں میں خیال بدل جاتے ہیں، الفاظ کا چناؤ اور ترتیب بھی بدل جاتی ہے۔ ان کے انتقال کا موسم درد کا موسم ہے، عذاب کا نہیں، محبوب سے تقرب کا موسم ہے۔ گویا ادھر والے اسے قیامت کی ایک قسط سمجھتے ہیں اس کے با وصف موت پردے کے پیچھے کہانی سے متعارف کراتی ہے۔ ہر موت سے ہم مختلف سبق سیکھتے ہیں، ٹھنڈی چھاؤں اور سایہ دار رشتوں کی موت دل کے کونے کو خالی کر دیتی ہے۔ وہ بیتاب تلاش کے جذبوں کی بارش میں بھیگ رہے ہیں اور ہم ادھر ان کی اداؤں، خطاؤں اور نادانیوں کو علم و دانائی کے سر چشمے سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ اوقات حیات ختم ہو چکا ہے یوں ان کا یہ سفر انجام تک پہنچ چکا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے میں نے انھیں آرام سے لحد میں اتارا اور سپرد خاک کر دیا جس کا اصل مطلب آج سمجھ میں آیا۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments