صحرا کا رُومانس(2)



برصغیر کی تقسیم سے قبل تھرپارکر میں 80 فیصد ہندؤ اور 20 فیصد مسلمان آباد تھے۔ تقسیم کے بعد دونوں اطراف میں ہجرت ہوئی۔ جس سے یہ تناسب 41 فیصد ہندؤ اور 59 فیصد مسلمان آبادی ہو گیا۔ مگر آج بھی مٹھی اور اسلام کوٹ تحصیلوں میں بالترتیب 80 فیصد اور0 9 فیصد ہندؤ برادری آبادہے۔ یوں تھر پارکر پورے پاکستان میں ہندو آبادی کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
تھر کی تہذیب و تمدن کی بنیادیں تکثیریت ا ور سندھ کے صوفیائے کرام کی تعلیما ت کے مضبوط اور حیات بخش ستونوں پر کھڑی ہیں ، جن میں محبت، رواداری اور انسان دوستی کو بہت اہمیت حاصل ہے، جو غالبؔ کے اس شعر کے مصداق ہے:
وفا داری بشرطِ استواری ، اصلِ ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو بر ہمن کو
تھر پارکر پاکستان کا سب سے پُر امن علاقہ گردانا جاتا ہے اور یہ اپنی صدیوں پُرانی بین المذاہب ہم آہنگی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ ہندو برادری ماہِ رمضان میں روزے رکھتی ہے اور پڑوسی مسلمانوں کے لیے افطاری کا اہتمام کرتی ہے۔ جب کہ مسلمان قانونی اجازت کے با وجو د ہندؤں کے مذہبی جذبات کے پیشِ نظر گائے زبح نہیں کرتے۔اسی طرح ہندؤوں کے ’’نورتری‘‘ تہوار کے دوران مسلمان کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتے۔
خیر سگالی کے طور پر ہندو برادری نہ صرف محرم الحرام میں کسی قسم کی کوئی تقریب منعقد نہیں کرتی بلکہ محرم کے جلوس میں شامل ہو کر عزاداروں کو پانی اور کھانا بھی مہیا کرتی ہے۔
مسلم برادری ھندوؤں کی ھولی ، دیوالی اور بیساکھی جیسی تقریبات میں بھرپور شمولیت اختیار کرتی ہے۔ اور ہندؤوں کے مذہبی تہوار جیسے تیجڑی، تھادڑی، نورتا، دیاری اور چیتی چاند کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جو پُرامن اور مذہبی جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔اسی طرح مسلمانوں کی عیدین کے موقع پر ہندو برادری خیر سگالی اور محبت ایسے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔
غُربت اور بے روزگاری کے باوجود پورے پاکستان کی نسبت تھر پارکر میں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اتنی امن پسند، انسان دوست اور دلکش ملت کے لئے زندگی کی بنیادی ضروریات کااس دور میں بھی فقدان ہے:
تھر پارکر کے 20000 مربع کلومیٹر علاقے میں صرف 740 کلومیٹر پکی سڑکیں ہیں۔
بجلی کی رسائی تھر کی صرف 30فیصد آبادی تک ہے اور 30 فی صد آبادی تک ہی پانی کی بھی رسائی ہے۔
پوری ضلعے میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکول ملا کر تعلیمی اداروں کی کل تعداد چار ہزار ہے۔ جن میں سے پکے کلاس روموں کی تعداد 3فی صد سے اوپر نہیں ہے۔ شرح خواندگی کہنے کو 30 فی صد ہے مگر سکولوں میں پینے کے پانی کی نایابی اور بچیوں کے لئے واش روم نہ ہونے کی وجہ سے شرح ِ داخلہ 50فی صد سے اوپر نہیں ہے۔
قدرتی گیس کا وجود نہیں صرف مخیر حضرات گیس کے سلنڈر استعمال کرتے ہیں ۔ عام عوام ایندھن کے لئے نباتاتی لکڑی کا استعمال کرتی ہے جس سے ہر سال قحط سالی میں اضافہ ہو تا رہتاہے۔
اکثر انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ تھر میں قحط سالی، بھوک اور بیماری کی وجہ سے ہر سال اوسطاً پندرہ سو بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
صحرائے تھر میں حکومتوں کے شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار، کوئلے سے بجلی کی پیداوار، صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے، اسلام کوٹ میں ائیر پورٹ، مٹھی میں یونیورسٹی کے قیام جیسے سیاسی اور دلفریب دعوے افتتاح در افتتاح کے بعد مالی بد عنوانیوں اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کیا وطنِ عزیز کا یہ علاقہ بھی کبھی اہلِ اقتدار کی توجہ حاصل کر سکے گا؟
صحرائے تھر بارے کہی گئی میری ایک نظم:
صحرا کا رُومانس
وہ پہلی نظر کا پیار تھا
وہ رُومانس جو دو دہائی پہلے شروع ہوا تھا
آج بھی ہے
میری محبوبہ کا دیس ریت کا سمندر ہے
لُو دار آندھیوں اور تپتی سہ پہروں کا دیس
جہاں صبحیں ٹھنڈی اور پُر امید ہوتی ہیں
اور شامیں رُومانویت کر آتی ہیں
چاندنی راتوں میں میری محبوبہ
مجھے کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے
جہاں امن اور آشتی ہوتی ہے
جہاں خامشی اور طما نیت ہوتی ہے
چاندنی رات میں
کہیں دُور کی بھِٹ پر بیٹھ کر
ہوا کی سرگوشیاں سننا ، دلفریب ہے
ان سر گوشیوں میں داستانیں ہیں
صدیوں سے محروم چلی آتی نسلوں کی
جن میں تھر کے باسیوں کے دُکھ درد اور حسرتیں ہیں
ُ الھڑ دوشیزاؤں کی حسرت بھری کہانیاں ہیں
جو شباب کا رومان دیکھنے سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہیں
بہت دور کے کسی گوٹھ سے بانسُری کی کوُک
جس میں ہجر کی اُداسی ہے
اور وصل کی اُمید ہے
ایک سحر طاری کر دیتی ہے
وہاں نہ ماضی کا ملال ہے ، نہ مستقل کا اندیشہ
ریت کے نرم بستر پر لیٹ کر
ہم جھلملاتے ستارے گنتے ہیں
وہ رُومانس جو دو دہائی پہلے شروع ہوا تھا
آج بھی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments