اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اور ہمارا جذبہ ایمانی


وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لئے حکومت کی جانب سے دس کروڑ کی امداد کی منظوری دے دی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں مندر کے قیام کی زبانی منظوری مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کے وفد سے ملاقات میں دی۔ اجازت کی رسمی کارروائی ابھی جاری ہے اور حتمی منظوری نہیں ہوئی ہے لیکن اس دوران ہی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری ہیومن رائیٹس لعل ملہی نے افتتاحی تعمیر ات کا آغاز کر دیا۔

وفد کے رکن لعل چند ملہی نے بتایا کہ اسلام آباد میں ہندو آبادی تقریباً تین ہزار کے قریب ہے، جس میں سرکاری و نجی شعبے کے ملازمین، کاروباری افراد اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ مہیش چوہدری نے بھی بتایا کہ بلوچستان اور سندھ سے ہندو برادری کی ایک بڑی تعداد عدم تحفظ کے سبب اسلام آباد منتقل ہو گئی ہے، اور اپنے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی، مرنے والوں کی آخری رسوم، شادی، ہولی اور دیوالی کے لیے انھیں جگہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہولی اور دیوالی کی تقریبات سرکاری کمیونٹی ہالز میں منعقد کی جاتی ہیں۔

مندر کی تعمیر کی اجازت کی خبر جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ بعض طبقات نے تو اسے ایمان و کفر کی جنگ قرار دے دیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور وہ شہر جس کا نام ہی اسلام آباد ہے وہاں ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ ایک مندر کے قیام کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ویسے بھی ہمارے فرقہ پرست معاشرے میں اس قسم کے رویے عام ہیں جہاں دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کرنا بھی کفر سمجھا جاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں مفتی نعیم صاحب کی وفات پر جس قسم کے رویے سامنے آئے ہیں وہ بدترین فرقہ پرستی کی صرف ایک مثال ہے۔ حالانکہ محسن انسانیت ﷺ کا قول مبارک ہے کہ جس وقت تمھارا کوئی بھائی دنیا سے رخصت ہو جائے تو تمھاری زبان سے اس کے لیے خیر ہی نکلنا چاہیے۔ مندر کی تعمیر کے حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس طنطنے کے ساتھ کرتار پور بارڈر اور اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی جا رہی ہے کسی مسجد کی تعمیر کے لیے حکومت کا یہ جوش اور جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت جو خارجی، معاشی اور انتظامی محاذوں پر بری طرح ناکام ہو چکی ہے جس کی گواہی خود گھر سے آ چکی ہے، اسے اس معاملے پر بھی کچھ حلقوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مندر کی تعمیر روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی ہے درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سید پور ویلج میں ایک مندر پہلے سے موجود ہے، حکومت کو چاہیے تھا کہ اسی کی تزئین و آرائش کر دیتی۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ایچ نائن ٹو میں مندر کی جگہ الاٹ کر کے اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر روکنے کی استدعا کو مسترد کر دیا مگر ماسٹر پلان کی خلاف ورزی پر سی ڈی اے کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

اقلیتوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس دقت ایک ہزار تیس کے قریب مندر ہیں جن میں سے ایک ہزار بند پڑے ہیں۔ اسی طرح پانچ سو سترہ گوردواروں میں پانچ سو بند پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ اپریل دو ہزار انیس میں متروکہ وقف املاک بورڈ کے اعلان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کے طول و عرض میں واقع چار سو سے زائد ہندو مندروں، پاٹھ شالاؤں، دھرم شالاؤں اور دیگر تاریخی نوعیت کے مقدس مقامات کو بازیاب کرایا جائے گا اور جنھیں ضروری تعمیر نو کے بعد انھیں عبادت اور سیاحت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ لیکن تاحال ابھی تک اس معاملے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی ایک بڑی تعداد قبضہ مافیا کے چنگل میں ہے جس میں سے ایک بڑی تعداد کو مسمار کر دیا گیا ہے۔

جذباتیت، فرقہ پرستی اور مذہبی تفاخر سے صرف نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ آج ہم قومی ریاستوں کے عہد میں جی رہے ہیں۔ قومی ریاست کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان بھی دور جدید کی ایک قومی ریاست ہے۔ مسلم آبادی کی اکثریت والی اس ریاست میں بسنے والے تمام افراد برابر کے شہری ہیں اور حکومت وقت اپنے تمام شہریوں کی رنگ، نسل، مذہب، زبان اور فرقہ سے ہٹ کر سب کی نمائندہ ہوتی ہے۔

ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لیے تمام شہری قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا کرنے والے شہری حکومت پر یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ انھیں مذہبی آزادی، تحفظ، تعلیم، علاج اور دیگر سہولیات فراہم کرے۔ ایسی صورت میں مساجد بھی قائم ہوں گی اور حسب ضرورت دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہیں بھی۔ اس باب میں اگر استثنا حاصل ہے تو صرف سرزمین حجاز کو ہے۔ جس کے بارے میں اللہ کے قانون کے مطابق یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اس میں کوئی دوسرا دین نہیں ہو سکتا۔ سرزمین حجاز کی حیثیت ایک مسجد کی ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے سوا کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا وہاں اپنی مستقل اقامت نہیں رکھ سکتا بلکہ عارضی طور پر رہے گا۔ اسی طرح اگر اس نے عبادت کا عمل بھی کرنا ہے تو عارضی طور پر کرے گا۔ رہا قومی ریاست کا معاملہ تو وہاں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا۔

دینی تعلیمات سے عملی طور پر دور اور مذہبی تفاخر کے بخار میں مبتلا معاشرے کے صرف دو واقعات جن کا عینی شاہد ہوں، بیان کرنا چاہوں گا:

ایک دوست نے پنجاب کے ایک شہر میں مصالحہ جات کا چھوٹا سا کارخانہ لگایا۔ بنیادی اصول ایمان داری اور دیانت رکھا۔ مال تیار کیا اور بیچنے گئے تو معلوم ہوا کہ جس بھاؤ وہ خام مال خریدتے ہیں اس سے کم میں تیار مال بازار میں دستیاب ہے اور خوب فروخت ہورہا ہے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یار لوگ لال مرچوں میں چوکر اور پسی ہوئی اینٹوں کی ملاوٹ کرتے تھے۔ دوست نے تیس لاکھ کا نقصان ا ٹھا کر کارخانہ بند کر دیا۔

میرے ایک دوست سیمنٹ کے ڈیلر تھے۔ ان سے ملنے گیا تو ان کے دفتر میں پانچ چھ افراد جمع تھے۔ معاملہ یہ تھا کہ سیمنٹ کا ایک دکاندار ان سے دس لاکھ کا سیمنٹ لے کر غائب ہو گیا تھا جسے بڑی تگ و دو کے بعد انہوں نے تلاش کیا اور پکڑ لیا۔ اب اس کے رشتہ داروں کا اصرار تھا کہ وہ سیمنٹ ڈیلر اسے ادھار پر مزید مال دیں جسے بیچ کر حاصل ہونے والے منافع سے وہ پچھلے پیسے بھی ادا کرے گا اور حال کے بھی۔ جب دوست کو فراغت ہوئی تو میں نے پوچھا کہ کیا یہ اتنا کما لے گا کہ دس لاکھ کا پچھلا قرض بھی اتارے اور اپنا خرچ بھی چلائے؟ انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ یہ سیمنٹ کی پچاس کلو کی بوری کو پینتالیس کلو کی کر کے بیچتا ہے۔ عام دکاندار بیس روپے فی بوری کماتا ہے یہ سوا سو روپے فی بوری کا ”داؤ“ لگاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments