کورونا وائرس: یوگا گُرو رام دیو کی کمپنی کی موثر کورونا دوا ’کورونیل‘ کی حقیقت کیا ہے؟


کورونا وائرس نے پوری دنیا میں دہشت پھیلا رکھی ہے اور سبھی کو ایک ایسی دوا کا انتظار ہے جو آزمائشی مراحل سے کامیابی سے گزر کر کورونا متاثرین کی زندگیاں بچا سکے۔

انڈیا سمیت دنیا کے بہت سارے ممالک میں کورونا کی موثر دوا یا ویکسین تیار کرنے کے لیے درجنوں کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں۔

انڈیا میں یوگا گرو بابا رام دیو کی آیورویدک کمپنی ’پتانجلی‘ کی جانب سے بھی ’کورونا کا علاج‘ دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے، جسے انڈیا کی حکومت نے فی الحال ’کولڈ سٹوریج‘ میں ڈال دیا تھا اور اب اس دعوے کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

پتانجلی کمپنی پر اس دوا کے نام پر جعلسازی یا فراڈ کے الزام میں آیف آئی آر بھی درج ہو چکی ہیں۔

کلینیکل ٹرائل کیسے ہوتا ہے

اس معاملے کی تفتیش سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انڈیا میں کسی دوا کے کلینیکل ٹرائل کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بعد ان تمام اداروں کی ایتھِکس کمیٹی کی جہاں ممکنہ دوا کے ٹرائل ہوں گے۔

اس کے بعد کلینیکل ٹرائل کا انعقاد کرنے والی کمپنی ’انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘ (آئی سی ایم آر) کی نگرانی میں ’کلینیکل ٹرائل رجسٹری انڈیا‘ یعنی سی ٹی آر آئی نامی ویب سائٹ پر ٹرائل سے وابستہ پورا عمل، اس کے وسائل، نام، پتے اور اس کے لیے فنڈنگ تک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کروانی ہوتی ہے۔

بی بی سی

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کووڈ-19: وہ خاتون جو انڈیا میں ’کورونا کی آواز بنی‘

انڈیا میں سوٹ کیس پر سوتے بچے کی ویڈیو وائرل

انڈیا کے ‘جعلی ڈاکٹر’ کیسے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں دیہاتوں کو محفوظ رکھ رہے ہیں


بی بی سی ہندی کے پاس سی ٹی آر آئی کی ویب سائٹ پر رجسٹرڈ اس فارم کی ایک کاپی ہے جس میں پتانجلی ریسرچ انسٹیٹیوٹ، ہریدوار کے کورونا وائرس کے مرض کے علاج میں آیورویدک دوائیوں کے اثر پر کلینیکل ٹرائل کی منظوری دی گئی ہے۔

ان دستاویز کے مطابق پتانجلی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اسے 20 مئی 2020 کو سی ٹی آر آئی کی ویب سائٹ پر رجسٹر کیا تھا اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس کلینیکل ٹرائل کے لیے کورونا کے پہلے مریض کا اندراج 29 مئی 2020 کو کیا گیا تھا۔

کلینیکل ٹرائل کے آغاز کے صرف 25 دن بعد 23 جون 2020 کو یوگا گرو بابا رام دیو کی کمپنی، پتانجلی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے دنیا میں ’کورونیل گولیاں‘ اور ’سرس وتی‘ نامی دو دوائیں متعارف کروائیں۔

اس پریس کانفرنس میں پتانجلی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان ادویات سے کورونا کاعلاج کیا جاسکتا ہے۔

پتانجالی نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس نے کلینیکل ٹرائل کیا تھا اور اس کا کورونا متاثرہ افراد پر سو فیصد مثبت اثر پڑا تھا۔

پتانجلی دعوے سے مُکر گئی

پتانجلی کے اعلان کے چند گھنٹوں کے بعد انڈیا کی حکومت کی وزارتِ آیوش نے اس خبر نوٹس لیا اور کہا کہ اس سلسلے میں وزارت کو کوئی معلومات نہیں ہے۔

اس کے بعد پتانجلی آیوروید لمیٹڈ سے دوا اور اس کے اجزا کی تفصیلات مانگی گئیں۔

پتانجلی سے اس دوا کا نمونہ اور اس لیب یا ہسپتال جہاں ٹیسٹ لیا گیا تھا اس کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ اِس کے ٹرائل کی منظوری سمیت دیگر اہم معلومات فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

وزارت نے فی الحال پتانجلی کی ادویات کی تشہیر پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم یکم جولائی کو پتانجلی نے ایک پریس ریلیز میں ایک نیا دعویٰ کر دیا۔

ان کے مطابق ’وزارتِ آیوش کی ہدایات کے مطابق پتانجلی کو دیویہ کورونیل ٹیبلٹ، دیویہ بریتھ واٹی اور دیویہ مالیکیول تیل تیار کرنے اور فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔‘

مریضوں کو ’کورونا سے آزاد کرانے‘ کے اپنے پرانے دعوے کو نہ دہراتے ہوئے پتانجلی نے اب یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح کورونا کے 95 مریضوں پر رضاکارانہ طور پر ٹرائل کیا گیا اور ان میں سے 45 کو پتانجلی کی دوائیں دی گئیں۔ 50 کو پلیسبو دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کورونا کے مریضوں پر یہ آیورویدک ادویات کا پہلا کلینیکل کنٹرول ٹرائل تھا اور اب ہم ان دوائیوں کے ملٹی سینٹرک کلینیکل ٹرائلز کریں گے۔‘

اس سے ایک دن پہلے یعنی منگل کے روز پتانجلی نے اس معاملے پر یوٹرن لیا اور کہا ’ہم نے کبھی بھی کورونا کِٹ بنانے کا دعوے نہیں کیا تھا۔‘

اس بارے میں ابھی کئی سوالوں کے جواب باقی ہیں۔

یہ سوالات آخر ہیں کیا؟

سب سے پہلے یہ کہ اس دعوے کے کیا ثبوت ہے کہ کورونا کے جن مریضوں کو پتانجلی کی آیورویدک دوائیں دی گئیں ان میں تمام جڑی بوٹیوں کی مقدار ہر لحاظ سے برابر تھی۔

ماہرین کے مطابق جب بھی کسی دوا کا کلینیکل ٹرائل ہوتا ہے تواس میں دوائی کی مقدار کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

مثال کے طور پر اگر کسی مریض پر پیراسیٹامول کا ٹرائل بخار اتارنے کے لیے کیا جا رہا ہے تو تمام ڈوز یعنی خوراکیں ایک جیسی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخر بخار کون سی خوراک کے لگاتار لینے کے بعد ختم ہوا۔

چونکہ پتانجلی کا کہنا ہے کہ ان کی دوا آیورویدک ہے اس لیے ان ادویات کی مقدار بھی برابر ہونی چاہیے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کورونا کے 95 مریضوں پر ہونے والے ٹرائلز کی بنیاد پر یہ اعلان کرنا درست تھا کہ ’کورونا کا علاج‘ مل گیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے 130 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں اس کا لانچ بھی کر دیا گیا۔

انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے سابق سربراہ این آر کے گنگولی کے مطابق ’کلینیکل ٹرائلز ایک طویل عمل ہوتا ہے اس پر نہ صرف دوائیوں بلکہ ایسے مریضوں کا بھی مستقبل منحصر کرتا ہے جو ان آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔‘

تیسرا سوال ان حالات کے بارے میں ہے جن میں کورونا کے مریضوں کا ٹرائل کیا گیا تھا۔ پتانجالی کا کہنا ہے کہ تمام 95 ٹرائل جے پور میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اینڈ ریسرچ کی نگرانی میں ہوئے۔

آئی سی ایم آر کی سی ٹی آر آئی ویب سائٹ پر پتانجلی آیوروید نے کہا تھا کہ وہ اپنے اس تجربے میں کورونا کے ’کم علامتوں والے مریضوں کو شامل کرے گی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

’کورونیل‘ دوائی کےٹرائل میں شامل ایک سینیئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’اس ٹرائل میں شامل مریضوں کی عمریں 35 سے 45 سال تھیں اور زیادہ تر مریض بغیر علامات یا انتہائی معمولی علامات والے تھے۔

پتانجلی نے ٹرائل کے بارے میں کیوں نہیں بتایا

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس آزمائش میں ان مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا جنھیں ذیابیطس یا بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔

یہ اہم اس لیے ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے بڑے طبی ماہرین کا خیال ہے کہ ان دونوں یا ان میں سے کسی بھی بیماری سے دوچار افراد کے لیے کورونا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

اس کا بھی کوئی جواب نہیں مل سکا کہ جن لوگوں پر ٹرائل کیا گیا وہ پہلے سے کونسی ادویات لے رہے تھے کیونکہ آئی سی ایم آر نے کورونا سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے دوائیوں کی فہرست جاری کر دی ہے۔

ادویات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مریض پہلے سے کوئی ایلوپیتھک دوائی لے رہا تھا تو پھر اس بات کا اندازہ کیسے لگایا کا سکتا ہے کہ آیورویدک دوا کے بعد اس پر کیا اثر ہوا؟

پبلک ہیلتھ کے ماہر دنیش ٹھاکر نے بھی پتانجالی کے کلینیکل ٹرائل کے نتائج پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’آپ اتنے کم مریضوں پر ٹرائل کی بنیاد پر کورونا کے علاج کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔‘

آخر میں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پتانجلی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے مئی میں سی ٹی آر آئی کی ویب سائٹ پر اندراج کیا تھا اور کورونا کے مریضوں پر کلینیکل ٹرائل چل رہے تھے تو ڈی جی سی آئی اور آئی سی ایم آر کو اس کی اطلاع کیوں نہیں تھی کہ مریضوں پر ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

حالانکہ کورونا کِٹ کے بازار میں لانچ ہوتے ہی وزارت آیوش حرکت میں آ گئی تھی لیکن اس میں بہت سے سوالات ہیں کہ آخر اس ٹرائل کے نتائج کے بارے میں عوام کے سامنے آنے سے پہلے پتانجلی نے وزارت کی منظوری کیوں نہیں لی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp