امیر خسرو بحیثیت موسیقار


حضرت امیر خسرو نے اپنے تیسرے دیوان ”غرۃالکمال” (جو ان کی 33 تا 47 سالہ عمر کے دورانیے پر مشتمل شاعری ہے) میں ایک پُر مغز اور طویل دیباچہ تحریر کیا ہے۔ ان کی نثری تخلیقات میں یہ دیباچہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور صدیوں سے اربابِ علم و فن کی توجہات کا مرکز رہا ہے۔ اِس کی اِسی اہمیت کے سبب پروفیسر لطیف اللہ مرحوم نے اِسے اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔ اس مضمون میں ہمارا دائرہ کارحضرت امیر خسرو اور موسیقی تک محدود ہے سو ہم ”غرۃالکمال ” میں امیر خسرو کی موسیقی پہ کی گئی گفتگو تک ہی محدود رہتے ہوئے اُس پراظہار خیال کریں گے۔

امیر خسرو نے ” غرۃ الکمال” کے دیباچے میں اپنی موسیقی دانی کے حوالے سے اپنا ایک شعر نقل کیا ہے، شعر دیکھیے:

نظم را کردم سہ دفتر در بہ تحریر آمدی

علمِ موسیقی سہ دیگر بود ار بادر بود

خسرو کے اس شعر کی مختلف محققین اورمتخصصین نے مختلف تاویلات و تعبیرات کی ہیں۔ اُن میں سے اکثریت ان دو آرا یا نتایج پہ متفق نظر آتی ہیں: ایک یہ کہ انہوں نے موسیقی کے تین دفتر لکھے جو تلف ہوگئے۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بہ قول خسرو: میری شاعری کے تین دفتر ہو گئے ہیں اور اگر میں تحریر کرتا تو یقیناً موسیقی پہ بھی تین دفاتر ہو جاتے۔

امیر خسرو کے نثری سرمائے میں رسائل الاعجاز یا اعجازِ خسروی ایک ضخیم تصنیف ہے۔ ڈاکٹر وحید مرزا جنہوں نے امیر خسرو پہ پہلا ڈاکٹریٹ کیا وہ اپنے مقالے میں اعجازِ خسروی کا تعارف کچھ یوں کراتے ہیں:

” خسرو کی ضخیم تصنیف 719ھ میں مکمل ہوئی۔ اُس وقت خسرو کی عمر تقریباً ستر سال کی تھی دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے چار حصے جنہیں ‘رسالے’ کہا گیا ہے 682ھ تک لکھے جا چکے تھے، لیکن کچھ عرصے بعد خسرو نے ایک رسالہ اور مرتب کرکے کتاب میں بڑھا دیا اس پانچویں رسالے میں زیادہ تر وہ خط ہیں جو انہوں نے ابتدائی عمر میں تحریر کیے تھے۔ اس کتاب کی تالیف کا بڑا مقصد یہ تھا کہ مرصع اور مزین نثر کے نمونے پیش کئے جائیں، اور مختلف قسم کے صنائع اور بدائع کے استعمال کو واضح کیا جائے۔ اس طرح اگر ایک طرف یہ کتاب خسرو کا سکہ، اقلیم نثر میں بھی اُسی طرح رواں ہونا ثابت کرتی ہے جس طرح مملکت نظم میں تو دوسری طرف طرف اس زمانے کے شوقین طبع شاعروں اور نثر نویسوں کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ اور معیار بھی مہیا کرتی ہے۔ ”

امیر خسرو نے اعجازِ خسروی میں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ موسیقی پر بھی اجمالاً کلام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے چند معاصر موسیقاروں، مزامیر، موسیقی کے راگ، تالوں، اصنافِ موسیقی اور اصطلاحات کا بھی ذکر کیا ہے۔

اعجازِ خسروی سے ہم یہاں مذکورہ بالا متعلقاتِ موسیقی کی بالترتیب فہرست نقل کرتے ہیں:

1-معاصر موسیقار :

نکیسا ، باربد، ترمتی خاتون، امیر کنجشک، محمد شاہ مرغک، محمود چوزہ، خلیفہ حسینی اخلاق، معروفک، عبدالمومن، ابوالفرخی ، شعبان قوال، لطیف قوال، امیر الطیور۔

2-مزامیر:

چنگ، دف، نائے، رباب ، دمدمہ ، عجب رود، قانون، بربط، معروفک، پیکان زنان، چہرہ باز، دہل، ورق، عود، مسکک، مغنی، دست نائے، طنبور، دستک قوال، دستان خشتی، شہنائی، بابلک شہنائی،بابکگ، تبیرۂ ہندی، دہل غازی، دہلک زنان، دم سرفی، کنگرہ، الادن، دمدمۂ نے۔

3-راگ :

نوائن، شازروان، حجاز، محیر، منوم، عشاق، مخالف،چکاوک، بوسلیک ،سرپردہ ،باخزر ،نہاوند، سپاہان، عراق، عرب، عجم، بزرگ، خرد، فرغانہ، نوا، رہاوی، حسینی، زاول، سازگری، خراسانی۔

4-تال:

دو بحر، سہ بحر، اصول فاختہ، اصولِ خفیف، اصولِ ثقیل، اصولِ مشرق، اصولِ غرب، اصولِ چپ، اصولِ راست، مرغک۔

اصنافِ موسیقی :

5/غزل، قول۔

6-اصطلاحاتِ موسیقی:

زمزمہ، سرود، زخمۂ چوب، مغنیہ، ساز، آہنگ، موسیقی، قول، خینہ گراں، رود نواز، مزمر زنان، مغنی، کاسۂ بربط، کاسۂ رباب، لحن، امیرِمطربان، امیر شادی، ملاہی، غنا، معروفک، رباب، پردہ، ابریشم اور تار۔

مختصر یہ کہ امیر خسرو نے اپنی اس تصنیف میں راست موسیقی پر تو کلام نہیں کیا البتہ بالواسطہ ان کی یہ افتتاحی گفتگو بیسویں صدی میں فقیر اللہ سیف خان کی معروف تصنیف ” معارف النغمات ” پر آ کے منتہی ہوتی ہے۔

اردو زبان میں موسیقی کے علم پر ” معارف النغمات ” ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں اس سے زیادہ مستند کتاب دیکھنے میں نہیں آئی۔

معارف النغمات بھاٹ کھنڈے کی ” سنگیت پدہتی ” کے تتبع میں لکھی گئی تھی۔ محمد نواب علی خاں جو موسیقاروں میں ٹھاکر نواب علی اور راجہ نواب علی کے نام سے بھی مشہور ہیں شری وشنو نارائن بھاتکھنڈے کے عزیز دوست تھے، انھوں نے بھاٹ کھنڈے کی تحریک پر معارف النغمات کو دو جلدوں میں مرتب کیا۔ پہلی جلد میں نظریات اور اس کے عملی پہلوؤں پر بحث کی گئی اور دوسری جلد میں سینئوں کی خاندانی چیزوں کو بڑے محمد علی خاں کی وساطت سے جو تان سین کی اولاد میں سے تھے،بڑی کاوش سے اکٹھا کرکے شائع کیا۔ محمد نواب علی خاں معارف النغمات جلد اول میں ہندوستانی موسیقاروں کا تذکرہ کرتےہوئے جب امیر خسرو پہ آتے ہیں تو کچھ اس طور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں،

” سلاطینِ تغلق کے عہد میں امیر خسرو مشہور باکمال شاعر کی توجہ موسیقئ ہند کی جانب مائل ہوئی۔ طبعی مناسبت اور خداداد ذہانت کے باعث اس فن میں انہوں نے ایسی مہارت حاصل کی کہ نائک گوپال جو سر آمد روزگار تھا ان کے کمال کا ثناخواں ہوا۔ اس نائک نے تغلق کے دربار کے تمام گویوں کو عاجز کردیا تھا۔ خسرو نے بادشاہ کے اصرار سے اس کے گانے کا طرز فارسی ترانے میں اسی کے سامنے ادا کرکے دکھایا۔ امیر خسرو نے عجمي و ہندوستانی موسیقی کے ملا دینے کی کوشش کی اور بہت سے راگ ایجاد کیے جو آج تک مروج ہیں۔ غارا، سر پردہ، زیلف وغیرہ ان کی طباعی کا نتیجہ ہیں۔ اس زمانے میں پربندھ اور چھند، برج بھاشا اور سنسکرت میں گائے جاتے تھے اور مسلمانوں کو اس کے تلفظ میں تکلف ہوتا تھا اس لئے خسرو نے عجمی موسیقی کے انداز پر ہندوستانی راگوں میں ترانہ، قول، نقش و گل وغیرہ اختراع کئے اور اس انداز کا گانا اب تک قوالوں میں مروج ہے” (قوال سے مراد قول گانے والا)

حضرت امیر خسرو کو سلطان المشائخ نظام الدین اولیا ؒسے والہانہ عقیدت تھی اور سلطان جی بھی انہیں بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ امیر خسرو نے ان کی شان میں بھی کئی مناقب کہی اور ان میں سے بعض کو موسیقی کا بھی جامہ بھی پہنایا۔

امیر خسرو کی والدہ محترمہ ہندی نژاد تھیں، سو انہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب سے بھی لگاؤ اور مناسبت تھی۔ ان کے کلام پہ مقامی رنگ بھی چوکھا موجود ہے۔ امیر خسرو نے جب مقامی موسیقی کی طرف توجہ دی تو اُسے بام عروج تک پہنچا دیا۔ فقیر اللہ سیف خان اور ڈاکٹر وحید مرزا نے مندرجہ ذیل راگوں کی ایجاد کا سہرا امیر خسرو کے سر باندھا ہے:

محیر، سازگری ،ایمن ،عُشاق ،موافق، غنم، صنم، زیلف ، فرغنہ، سرپردہ ،باخزر ، فردوست ،نگار، بسیط، شاہانہ، اور سہیلا۔

پروفیسر محمد اسلم اپنے ایک مضمون :” سلاطینِ دہلی و شاہانِ مُغلیہ کا ذوقِ موسیقی” میں، لکھتے ہیں :

” حضرت امیر خسرو نے چند ساز بھی ایجاد کیے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے پکھاوج کو کاٹ کر اس کے دو طبلے بنا دیے انکی یہ ایجاد اس قدر مقبول ہوئی کہ اب قوالی یا موسیقی کا لطف بغیر طبلہ کے تصور میں نہیں آسکتا۔ ماہرینِ موسیقی کی یہ رائے ہے کہ ستار بھی ان کی ایجاد ہے۔ پہلے ہمارے ہاں اکتارہ مروج تھا۔ امیر خسرو نے اس میں دو تاروں کا اضافہ کرکے سہ تار بنا دیا راقم کے دادا استاد پروفیسر حسن عسکری (عظیم آبادی) کا خیال ہے کہ ستار دراصل سہ تار کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ بہرحال موسیقاروں کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے ستار کو موجودہ شکل دے کر ہندوستانی موسیقی کی ایک بڑی کمی پوری کردی۔ امیر خسرو نے اپنی تصانیف میں چنگ، دف، رباب، نال ،طنبور ،بربط، رود، عود، طبل، تاسہ، نفیر ،دہل، اور شہنائی کا ذکر کیا ہے ان میں کئی ساز عرب اور ایران میں استعمال ہوتے تھے۔ انہوں نے ان سازوں کی ہیئت بیان کرنے کے علاوہ انہیں بجانے کے طریقے بھی بتائے ہیں اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مختلف اقسام کے ساز بلا تکلف بجا لیتے تھے”۔

اسی طرح مصنف:”راگ درپن”،امیر خسرو کو بارہ راگوں کا موجد یا مخترع خیال کرتا ہے لیکن جب ہم اُس کے بیان کے مطابق اِن راگوں کی فہرست تیار کرتے ہیں تو یہ بارہ کی بجائے چودہ راگ بنتے ہیں تفصیل کچھ یوں ہے :

موافق :

*بیراری، مالسری ، *دوگاہ ،حسینی

*محیر : محیر ٹوڈی، پنج گاو (یہ وہ راگ ہے جسے شبلی نعمانی نے مجیر لکھا ہے بعد کے لکھنے والوں نے محب اور مجیب بنا دیا)

غنم : پوربی

زیلف :

کھٹ اور شہناز

غزال : کھٹ

فرغانہ : گورہ

عشاق :

سارنگ، بسنت، فرغانہ، نوا

سرپردہ :

گونڈ، بلاول، گوڑ، سارنگ، راست

فردوست : کانہڑا

حسینی :

ایمن، نیریز

سازگری :

پوربی ،ببھاس ،گورہ ،گُن کلی، عراق

باخزر:

دیس کار، باخزر

صنم :

کلیان ،نیریز

ایمن بسنت :

ایمن، بسنت

سازگری کا خود ذکر امیر خسرو اپنے کلام میں کرتے ہیں :

ساز گری را ھمہ خواھاں شدہ

نغمہ او تا بسپاھاں شدہ

(قران السعدین)

اور

چناں بزخمسہ زدن رود بستہ راہ نواز

کہ ھم بساز گری خصم را کنی بے ساز

(اعجاز خسروی)

ڈاکٹر سید رغیب حسین نے اپنے ایک مضمون مشمولہ: ماہنامہ آجکل دہلی، موسیقی نمبر (اگست 1956ء) میں لکھتے ہیں:

“امیر خسرو ایک باکمال ماہرِ موسیقی تھے آپ جس آواز کو چاہتے نظم کر دیتے تھے مثلاً دہل کی آواز انہوں نے کتنی عمدہ نقل کی ہے :

دہل زن دہل زد بہ تحسین او

کہ دین، دینِ او، دینِ او، دینِ او

ایک بار انہوں نے دھنیے کو روئی دھنتے ہوئے دیکھا تو اسکی آواز حضرت امیر خسرو نے ان الفاظ میں محفوظ کرلی :

در پئے جاناں ہم رفت، جان ہم رفت، جان ہم رفت، رفت رفت،

جان ہم رفت این ہم رفت و آن ہم رفت، آن ہم رفت، آن ہم رفت، این ہم آن ہم، این ہم آن ہم، این ہم آن ہم آن ہم رفت، رفتن، رفتن، رفتن دہ، دہ، دہ رفتن دہ، رف رف، رفتن دہ رفتن دہ –

اصلاحات :

محیر راگنی کے بارے میں رشید ملک ” امیر خسرو کا علمِ موسیقی ” میں تحریر کرتے ہیں کہ اصل نام محیر ہے جسے شبلی نعمانی نےغلطی سے مجیر لکھا اور انکی دیکھا دیکھی سب نے اسے مجیر لکھنا شروع کر دیا راگ محیر کا ذکر اعجازِ خسروی میں بھی ملتا ہے بیراری نام سے کوئی راگ میری نظر سے نہیں گزرا البتہ بیراگی ایک راگنی ہے، مسائلِ موسیقی میں بیراری بحوالہ نورنگِ موسیقی ایک سمپورن اور بحوالہ معارف النغمات کھاڈو سمپورن راگنی ہے۔ دوگاہ نام سے بھی کوئی راگ یا راگنی سننے پڑھنے میں یا گانے بجانے میں نہیں آتی ہوسکتا ہے یہ لفظ دُرگا ہو جو ایک باقاعدہ رائج راگنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments