چینی صوبہ سنکیانگ کے متعلق مغربی پراپیگنڈا اور آنکھوں دیکھا حال


چین کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ سنکیانگ جہاں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی ہے، اکثر مغربی پراپیگنڈا کا شکار رہتا ہے۔ دو دن قبل امریکی وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ جرمن محقق ایڈرئین زنیز کے مطابق چینی حکومت سنکیانگ میں ایغور اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مہم چلا رہی ہے جس میں زبردستی نس بندی، اسقاط حمل اور جبری خاندانی منصوبہ بندی کی تراکیب آزما رہی ہے تاکہ اقلیتوں کی نسل کشی ہو سکی۔

چینی روزنامے ”گلوبل ٹائمز“ کے نامہ نگار نے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤلی جیان سے اس کے بابت وزارت خارجہ کی ڈیلی بریفنگ کے دوران سوال کیا چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤلی جیان حال ہی میں اسلام آباد سے بیجنگ واپس تشریف لے گئے وہ چینی سفارت خانے میں نائب سفیر کے عہدے پہ تعینات تھے اور ہردلعزیز شخصیت کے حامل۔

سوال کا جواب انہوں نے بہت تحمل سے دیا اور بتایا کہ چینی حکومت اپنے یہاں نسلی اقلیتوں سمیت تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کے جائز حقوق اور مفادات کا یکساں طور پر تحفظ کرتی ہے۔ درحقیقت چین کی آبادی سے متعلق پالیسی طویل عرصے سے نسلی اقلیتوں کی جانب مائل ہے۔ جب چین میں عام شہریوں پہ پابندی عائد تھی کہ ہر خاندان میں ایک ہی اولاد پیدا کرنے کی اجازت تھی ماسوائے جڑواں بچوں کے، اقلیتیں اس پابندی سے آزاد تھیں۔ 1978 تا 2018 سنکیانگ میں ایغوروں کی آبادی 5.55 ملین سے بڑھ کر 11.68 ہو گئی گویا یہ دوگنا اضافہ ہوا۔ سنکیانگ میں ایغور خود مختار خطے کی کل آبادی کا 46.8 حصہ ہیں۔ یہی اعداد و شمار اس جھوٹے پراپیگنڈے کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ اگر چینی حکومت نسل کشی پہ عمل کرتی تو اقلیتوں کی کل آبادی دوگنی کیسے ہوجاتی؟

حقیقت یہ ہے کہ چین کی ترقی اور دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھر نا مغرب سے ہضم نہیں ہورہا۔ وہ چین کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں لہذا وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ چین کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ سنکیانگ میں آباد مسلمان ایغوروں پہ مشتمل آبادی غربت اور افلاس کا شکار رہی ہے اسی وجہ سے 2009 میں ایغوروں نے بغاوت کا علم بلند کیا تھا اور متعدد غیر ایغوروں کا قتل عام کیا تھا۔ حکومت نے ایک جانب باغیوں کے سرغنہ کو گرفتار کر کے ان پہ مقدمہ چلایا اور قصوروار ٹھہرائے جانے والوں کو کڑی سزا سنائی گئی۔

جو ایغور گمراہ تھے، انہیں راہ راست پہ لانے کے لئے تربیتی کورس سے متعارف کرایا گیا تاکہ وہ شدت پسندی ترک کر کے اعتدال پسند زندگی بسر کریں۔ ایغوروں کی فلاح، بہبود اور خوش حالی کی خاطر سنکیانگ میں صنعتی ترقیاتی منصوبے قائم کیے گئے جہاں ایغوروں کو ملازمت میں ترجیح دی گئی۔ ایغوروں کے بچوں کے لئے مفت تعلیم اور ہنر سیکھنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔

ان تمام احسن اقدامات کے باوجود مغرب اپنی پراپیگنڈا مہم پہ قائم ہے۔ راقم کو متعدد مرتبہ چین کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے خصوصی طور پر سنکیانگ کا جہاں کی ترقی کا عینی شاہد ہوں۔ میری درجن بھر کتابوں میں سے چھ کتابیں چین کے حالات پہ لکھی گئی ہیں۔

میں چھیالیس برس سے چین کے دورے کر رہا ہوں اور آخری مرتبہ اکتوبر 2019 میں گیا تھا۔ اس برس بھی مختلف جامعات نے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی لیکن کورونا وبا کے باعث پروگرام منسوخ ہو گئے۔ سنکیانگ تاریخی مقامات سے پر ہے۔ کسی زمانے میں شاہراہ ریشم یہاں سے گزرتی تھی۔ جدید شاہراہ ریشم بھی سنکیانگ سے گزر رہی ہے۔ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری بھی گوادر کی بندرگاہ سے شروع ہو کر سنکیانگ کے تاریخی شہر کاشغر پہ جاکر شاہراہ ریشم سے مل جاتی ہے۔

چینی حکومت نے ایک زمانے میں پسماندہ صوبے کی ترقی اور مذکورہ بالا احتجاج کے مواقع دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے ان کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ میں نے پہلی مرتبہ چین کے صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں 1974 میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت چین غیر ترقی یافتہ تھا لیکن پاکستان کی قدر و منزلت اتنی تھی کہ روح کو گرما دے۔ میں اس وقت پاک فضائیہ میں پائلٹ افسر ( سیکنڈ لفٹیننٹ) کے رتبے پہ تھا۔ اپنا سی ون تھرٹی لے کر دفاعی ساز و سامان لینے وہاں پہنچے۔ جب طیارے کی سیڑھی سے ہم نیچے اتر رہے تھے تو چینی مزدور قطار بنا کر طیارے کی سیڑھی کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے اور تالی بجا کر پاک چین دوستی کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں ایک ادنیٰ سا افسر تھا لیکن اس لمحے اس پر جوش استقبال کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ شاید میں ملک کا سربراہ ہوں۔ چینی آج بھی سرکاری وفود اور طائفوں کا اسی جوش و جذبے سے استقبال کرتے ہیں۔

اس زمانے میں ہم اکثر چین کا سفر کرتے اور ارمچی اور خطن کے ہوائی اڈوں پہ اترتے متعدد مرتبہ ارمچی کی جامعہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا موقع ملا۔ چیئرمین ماؤ اس وقت حیات تھے اور مسلمانوں کے اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے پہ کوئی پابندی نہیں تھی۔

گزشتہ برس ماہ رمضان میں بھی میں سنکیانگ کے دورے پر تھا اور مسلمانوں کو اپنے فرائض ادا کرتے دیکھا۔ مساجد میں باجماعت فرض نمازوں کے علاوہ تراویح اور اعتکاف کا بھی معقول بندوبست دیکھا۔

سنکیانگ کے اسلامی انسٹی ٹیوٹ کے دورے کا موقع ملا جہاں کے صد عبدالرجب تمنیاز سے گھنٹوں مختلف موضوعات پہ گفتگو جا رہی رہی۔ اسلامی انسٹی ٹیوٹ پہلے بھی جانے کا اتفاق ہوا تھا لیکن اب یہ نئی شاندار عمارت میں منتقل ہو گیا جو مغرب کی، کسی جدید جامعہ سے کم نہیں۔ خوبصورت کلاس روم، آرام دہ ہوسٹل، جدید لائبریری، متاثر کن مسجد، کھیلوں کے میدان اور دوسری سہولیات سے آراستہ۔

انسٹی ٹیوٹ جو تیس برس قبل قائم ہوا تھا، کے علمائے کرام، اساتذہ اور طلباء سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ چینی آئین مذہب کی آزادی کو یقینی بناتا ہے تاہم مغرب کے کچھ نقاد اس کے متعلق منفی پراپیگنڈا پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ مسلمانوں پہ روزہ رکھنے یا نماز پڑھنے پہ پابندی ہے۔ یہ درست ہے کہ انتہا پسند اسلام کے اصولوں اور قرآن کی آیات کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق کے حوالوں سے علیحدہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اسلامی انسٹی ٹیوٹ کے طلباء اسلامیات میں بی اے کی ڈگری حاصل کر کے مختلف مساجد میں امام مقرر ہوتے ہیں تاکہ وہ اسلام کی تعلیمات کو صحیح حوالے سے پیش کریں اور لوگوں کو انتہا پسندی سے روکیں۔

مغرب نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کو ”ٹارچر سیل“ میں بند کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ان مبینہ جگہوں پہ بھی جانے کا موقع ملا۔ دراصل یہ ”ری ایجوکیشن سینٹر“ ان گمراہ نوجوانوں اور لڑکیوں کو انتہا پسندی، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی جیسی تین برائیوں سے بچنے کے لئے قائم کیے گئے ہیں۔ ارمچی کے گرنیڈ سینٹرل مارکیٹ میں دو پاکستانی تاجروں سے ملاقات ہوئی جو 25 برس سے یہاں مقیم ہیں اور ان کی شادیاں ایغور خواتین سے ہوئی اور اب جوان بچے بھی ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ خوش ہیں اور کوئی انہیں ہراساں نہیں کرتا۔ ہمیں سنکیانگ میں سکون اور چین نظر آیا مغرب کے منفی پراپیگنڈا سے بالکل مختلف اور یہ آنکھوں دیکھا حال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments