عورتوں کے نفسیاتی مسائل میں تھراپی کا کردار


ڈاکٹر خالد سہیل۔ فائزہ

فائزہ کا خط

پچھلے دو سال سے ڈاکٹر خالد سہیل کے creative psychotherapy clinic سے میرا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ ان کے اس طریقہ علاج کی بنا پر مجھے لکھنے لکھانے کے ہنر سے آشنائی ہوئی۔ اور اب مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مصروفیت کی بنا طبیعت میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ اور سکون کا دور دورہ ہے۔ جیسے ہی کوئی نئی سوچ ذہن کے پردے پہ ابھرتی ہے تو یہ خیال رہتا ہے کہ چونکہ ان خیالات کو سپرد قلم کرنا ہے لہذا الفاظ کے چناؤ کی طرح سوچ کا معیار بھی بہتر ہونا چاہیے۔ لہذا اس لیے جیسے ہی کسی منفی سوچ کا گزر ہو تو دماغ کے سبھی فلٹر آن ہو جاتے ہیں اور یوں فلٹریشن کا خود کار نظام اپنے آپ کام کرنے لگتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب! میں آپ سے جاننا چاہتی ہوں کہ یہ خودکار نظام کب اور کیسے وجود میں آتا ہے؟
اور کر یٹو تھیراپی کا اس میں کیا کردار ہے؟
وہ اس سلسلے میں کیسے مدد گار ہوتی ہے؟

موثر خود کار نظام کے ہوتے ہوئے بھی کبھی کبھار گرم لو کے جھکڑ چلنے لگتے ہیں۔ اور ان کی حدت بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں ہمیں ضرورت پڑتی ہے ایک اچھے ذہنی معالج کی۔ جو اس مشکل وقت میں مدد کرسکے۔ یاد رہے کہ دوست بہن بھائی اور رشتہ دار نفسیاتی مسائل کے شکار انسان کی پروفیشنل مدد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ ہمدرد تو ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بجائے معالج کے ادھر ادھر بات کرنے سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھار مسائل بھی زیادہ بگڑجاتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پہ ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو میں اپنے معالج سے بات کرنے کو ہی ترجیح دوں گی۔

یہاں میں بالخصوص خواتین اور بچیوں کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی۔ اور چاہوں گی کہ ڈاکٹر خالد سہیل اس حوالے سے اپنے خیالات کا بھی اظہار کریں۔

کچھ روز پہلے ’ہم سب‘ پر ڈاکٹر سارہ نقوی کی تحریر ”کیا عورتیں واقعی بیچاری ہیں؟“

پڑھی۔ اس تحریر میں انھوں نے عورتوں کے برین میٹابولزم کا ذکرکیا۔ اور لکھا کہ بنیادی طور پر خواتین کا برین میٹابولزم مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ بیچارگی اور احساس کمتری کا شکارزیادہ ہوتی ہیں۔ ایسا کیونکر ہوتا ہے؟ میں سمجھتی ہوں اس کی ایک اہم وجہ خواتین کی وہ تعلیم و تربیت ہوتی ہے جو انھیں اپنے والدین اور ماحول سے ملتی ہے عموماً خواتین اپنی ذات کو جس آئینے میں دیکھتی ہیں اسی عکس کی روشنی میں خود سے توقعات وابستہ کرتی ہیں۔ جب کبھی وہ ان توقعات پہ کسی بھی وجہ پورا نہ اتر سکیں تو ذہنی انتشار کا شکار ہو کر بہت سے نفسیاتی مسائل سے دو چار ہو جاتی ہیں

سوال یہ ہے کہ وہ آئینہ جس میں ایک عام عورت خود کو دیکھتی ہے دراصل کیسے بنتا ہے؟

ہم میں سے بیشتر والدین اپنی بیٹیوں کے لیے ایک روایتی آئینہ خودبناتے ہیں۔ اور اس کے گرد روایات کا مضبوط فریم بھی جڑا جاتا ہے۔ کیونکہ والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹیاں بے رحم زمانے سے نبرد آزما ہوں۔ اسی لیے وہ بچیوں کی تربیت ان اصولوں پہ کرتے ہیں کہ شوہر اور سسرال کی خدمت اور فرمانبرداری ان کے مزاج کا حصہ بن جائے۔ اور اس طرح ان کا بچپن اور لڑکپن شادی شدہ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی نظر ہو جاتا ہے۔

عموماٌ والدین اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور مطمئن بھی بھی رہتے ہیں۔

اور یہ سلسلہ کامیابی سے چلتا بھی رہتا ہے مگر اس میں عورت کی حیثیت ثانوی اور محکوم جیسی ہے اس کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار نہیں

ایسی خواتین کو شادی شدہ اور پریکٹیکل زندگی میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا رہتا ہے کیونکہ اب ان کی ذمہ داریاں نہ صرف بڑھ جاتی ہیں بلکہ ان کی نوعیت بھی مختلف ہو جاتی ہے وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کر پاتیں۔

وہ وہی روایتی آئینہ ہے جس میں کبھی انھوں نے اپنا عکس دیکھا تھا۔ اپنی اس بیٹی کو بھی دکھانا چاہتی ہیں جو آج گلوبل ولیج میں رہ رہی ہے۔ جس کی ہر انفارمیشن تک رسائی ہے جس کے پاس سوچنے اور سمجھنے کے نہ صرف کئی مواقع ہیں اس کی دنیا بہت مختلف ہے وہ کسی بھی روایتی آئینے پہ یقین رکھنے کی بجائے اپنی ذہانت پہ اور حواس خمسہ پہ بھروسے کی قائل ہے۔ وہ معاشی آزادی حاصل کر چکی ہے۔ اب اس کی حیثیت صرف کھانوں کی پلیٹیں سجانے اور پیش کرنے والی نہیں رہی۔ وہ معاشی اور سماجی لحاظ سے اپنے روایتی کردار کو دوبارہ define کرنا چاہتی ہے۔ مگر روایت کی دیواروں کے نگہبان اس کی اجازت دینے پہ آمادہ نہیں۔ اور یہ کشمکش عورتوں کو گمبھیر نفسیاتی مسائل سے دو چار کر رہی ہے۔ کیونکہ ان کے پاس تعلیم ہے۔ علم و

آ گہی کا گوہر ہے۔ سوچ اور فکر ہے۔ مگر انھیں گونگا بہرہ اور اندھا رہنے پر شاباش مل رہی ہے۔ کچھ بولنے پہ انھیں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی تنہائی کا سامنا بھی ہے۔ اور بعض اوقات ان کے ساتھ ساتھ ان کا پورا خاندان بھی اس سماجی بے رخی اور بائیکاٹ کا شکار ہونے پہ نفسیاتی مسائل سے دو چار ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب!

آپ اس مسئلے پہ اپنی رائے دیں کہ ایسے میں ماہر نفسیات سے رابطہ انھیں کس طرح سے مدد دے سکتا ہے؟ تا کہ وہ بیچارگی اور بے بسی کا شکار نہ ہوں۔ میری اس تحریر کا مقصد بھی عام لوگوں بالخصوص خواتین اور بچیوں کو اس بات سے آ گاہ کرنا ہے کہ کس طرح نفسیاتی علاج سے مجھے بہت مدد ملی۔ کہ میں اپنے لیے گرین زون پیدا کر سکوں۔ یعنی ایسا ماحول جس میں مریض پرسکون محسوس کرے۔ ان باتوں یا انسانوں سے گریز کرے جو اس کے ذہنی انتشار کا باعث بنیں۔

آج میں خود کو اس قابل محسوس کرتی ہوں کہ نہ صرف میں خود گرین زون میں رہتی ہوں بلکہ اپنے خاندان اور دوستوں کے لیے بھی ہرا بھرا ماحول فراہم کر پاتی ہوں۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے یاد آ رہا ہے کہ۔ اس سے ملتی جلتی تحریرمیں کچھ عرصہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ شاید اپنے وقت سے پہلے ہی لکھ دی تھی کیونکہ تب میرے علاج کے بہت ابتدائی مراحل تھے۔ گو میں تبدیلی محسوس کر رہی تھی۔ شاید چند برس بعد مجھے پھر ایسا ہی محسوس ہو اور میں ایک نئی تحریر اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ پھر سے آپ سے بات کروں۔ کیونکہ سیکھنے اور سکھانے کا سفر تو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

محترمہ فائزہ صاحبہ!

آپ کئی دنوں سے نفسیاتی مسائل اور تھراپی کے بارے میں ایک کالم یا خط لکھنے کا سوچ رہی تھیں۔ آخر کار آپ نے اس کو مکمل کر ہی لیا۔ مجھے اپنا خط نما کالم بھیجنے اور میری رائے مانگنے کا شکریہ۔ میری نگاہ میں آپ ایک بہادر خاتون ہیں جو اپنی تھیرپی کا برملا اظہار بھی کرتی ہیں اور دوسری خواتین کو نفسیاتی مدد حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیتی ہیں۔ آپ خواتین کو ذہنی صحت کے اسرار و رموز کے بارے میں بتاتی بھی ہیں۔ اس طرح ذہنی صحت کے بارے میں معاشرے میں آگاہی بڑھتی ہے جس کی ہمارے معاشرے کو بہت ضرورت ہے۔ آپ بخوبی جانتی ہیں کہ لوگ بھری محفل میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مجھے بلڈ پریشر یا ذیابیطس کے جسمانی مسائل ہیں لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے اینزائٹی یا ڈپریشن کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ نفسیاتی مسائل آج بھی مشرق و مغرب میں stigma and taboo ہیں۔

آپ نے اپنے خط میں چند سوال پوچھے ہیں جن کا میں مختصر جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

تھیرپی حاصل کرنے سے انسان میں خود آگہی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اپنے مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سونے سے پہلے پچھلے چوبیس گھنٹوں کے بارے میں سوچیں اور اپنی ڈائری میں لکھیں کہ انہوں نے کتنے گھنٹے پرسکون گرین زون میں ’کتنے گھنٹے پریشان کن ییلو زون اور کتنے گھنٹے تکلیف دہ ریڈ زون میں گزارے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ ان شخصیات اور حالات کی نشاندہی کریں جو انہیں پریشان رکھتے ہیں اور ان کا ذہنی سکون چھین لیتے ہیں۔ جب لوگوں ان حالات کی نشاندہی کر لیتے ہیں تو پھر انہیں تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔

کسی بھی انسان کے لیے پرسکون گرین زون میں زندگی گزارنے میں اس کی خود اعتمادی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ عورتیں جن کی ایسے خاندان اور معاشرے میں پرورش ہوئی ہو جہاں ان سے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا گیا ہو اور انہیں بار بار بتایا گیا ہو کہ وہ بدصورت ’موٹی‘ کم عقل اور بے وقوف ہیں تو وہ اپنی ذات کے بارے میں ایک منفی رجحان کا شکار ہو جاتی ہیں جن سے ان کی ذہنی صحت منفی انداز سے متاثر ہوتی ہے۔

میں نے جب ’ہم سب‘ پر سارہ نقوی کا عورتوں کے بارے میں کالم پڑھا تو اپنی دوستوں اور مریضاؤں کو پڑھنے کے لیے بھیجا۔ مجھے ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کے کالم پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ ایک عورت کے کالم کا دوسری عورتوں پر بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔ سارہ نقوی نے بھی اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ عورتیں جذباتی طور پر مرد سے مضبوط ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتی ہیں۔

میں اپنے مریضوں کے self esteem کے تصور کے ساتھ other esteem کے تصور سے بھی تعارف کرواتا ہوں۔ میں ایک کو خود اعتمادی اور دوسرے کو غیر اعتمادی کہتا ہوں۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے ان کے اعتماد کا انحصار غیروں کی رائے پر ہوتا ہے۔ میں اپنے مریضوں سے کہتا ہوں کہ اگر وہ ذہنی طور پر پرسکون اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی ذات میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی۔

میرا یہ موقف ہے کہ فطرت نے ہر انسان کو ایک خاص تحفہ دیا ہے۔ انسان کی صحت اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ انسان اس تحفے کو جانے اور پھر اس کی تربیت کرے۔ میں نے ایک مریضہ سے کہا آپ سونا ہیں لیکن آپ کے ارد گرد سب لوہار ہیں جو سونے کی قدر نہیں جانتے۔ آپ چند سناروں کو اپنا دوست بنائیں جو آپ کی قدر کریں۔ عارف عبدالمتین کا شعر ہے

؎ جوہر بے مثال ہوں عارفؔ
مجھ کو رہتی ہے جوہری کی تلاش

فائزہ صاحبہ!

آپ نے creative psychotherapy کے بارے میں پوچھا ہے تو عرض ہے کہ ہم اپنے مریضوں کا ان کی ڈھکی چھپی تخلیقی صلاحیتوں سے تعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے مریضوں میں سے

ایک شاعری کرتا ہے
ایک افسانے لکھتی ہے
ایک پینٹنگ کرتا ہے
ایک کیک سجاتی ہے اور
ایک باغبانی کرتا ہے

ایسا کرنے سے ان کے نفسیاتی مسائل کم ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی جب سے لکھنا شروع کیا ہے آپ کی ڈپریشن میں کمی آئی ہے۔

ہم مریضوں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتیں اور اپنی فن پارے اپنے دوستوں سے شیر کریں جو ان کو سراہیں۔ اپنے ارد گرد مخلص اور قدردان دوستوں کا حلقہ بنانا کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے۔ میں ایسے دوستوں کے حلقے کو فیملی آف دی ہارٹ کا نام دیتا ہوں۔

ایسے دوستوں اور سہیلیوں کے حلقے کی عورتوں کو بہت ضرورت ہے جو ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔
فائزہ صاحبہ!

مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے خط اور میرے جواب سے ’ہم سب‘ کے قارئین اور خاص طور پر خواتین استفادہ کریں گے۔ مجھے خط بھیجنے اور جواب لکھنے کی تحریک دینے کا بہت بہت شکریہ۔

مخلص ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments