آن لائن نظام تعلیم اور ایکولوجیکل سویلائزیشن


میں نے جب سے آن لائن کلاس کا آغاز کیا ہے اور معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم میں مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو پڑھانے کی کوشش کی ہے مجھے شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ ہندوستان میں آن لائن نظام تعلیم خصوصاً مسلمانوں کے لئے انتہائی مشکل امر ہے۔ جو طلبہ گزشتہ برس آف لائن پڑھ چکے ہیں وہ بھی اس بات پر شاکی نظر آرہے ہیں کہ آن لائن میں وہ کیفیت پیدا نہیں ہو پارہی ہے جو روبرو نظام تعلیم میں محسوس کی جاتی تھی۔ کرونا وائرس نے جن جن شعبہ حیات میں تبدیلیاں رونما کردی ہیں ان میں ذریعہ تعلیم سر فہرست ہے۔

اسکول کالج کے ساتھ کنڈر گارڈن (kindergarten) کے بچوں کو بھی اس بات پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آن لائن نظام تعلیم کا حصہ بنیں اور ایک طرف کرائسیس کے دور میں بھی جہاں موٹی موٹی فیس ادا کریں وہیں دوسری طرف ان تمام لوازمات سے بھی آراستہ ہوجائیں جو آن لائن تعلیم کے لئے ضروری ہے۔ نتیجتاً اسکول انتظامیہ، والدین اور حکومت کے تعلیمی اہکاروں کے مابین ایسی رسہ کشی جاری ہے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مختلف شعبہ حیات میں نرمی برتی گئی ہے اور کم از کم گرین زون میں ہی سہی نظام زندگی معمول پر لانے کی کوشش کی گئی ہے وہاں پر بھی اسکول و کالج کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جو ریڈ زون یا کنٹونمنٹ زون میں جاری ہے۔ آخر کیوں والدین کو اس بات پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ انٹر نیٹ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون کے ساتھ مختلف ڈیوائس کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ مختلف ایپ کے ذریعہ تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا جاسکے؟ دراصل یہی وہ سوال ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کیا تعلیم پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے لئے اس موقع کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے؟

چونکہ یہ آن لائن نظام تعلیم کی طرف راغب کرنے کا پہلا مرحلہ ہے۔ لہذا ہر طبقہ اپنی اپنی شکایتوں کے ساتھ اس بات کا رونا ضرور رو رہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اور یہی وہ ”کیسے ممکن ہے“ ؟ ایکولوجیکل سویلائزیشن کی طرف لے جانے کی پہلی سیڑھی ہے۔ ایکولوجیکل سویلائزیشن قابل تجدید توانائی (Renewable Energy) کی وکالت کرتا ہے یعنی ایسی توانائی جو قابل تجدید وسائل سے جمع کی جاسکتی ہو، خواہ وہ قدرتی طور پر سورج کی روشنی ہو، ہوا، بارش، لہریں ہو ں یا پھر جیوتھرمل حرارت وغیرہ۔ واضح رہے کہ گرین انرجی (Green Energy) اسی قابل تجدید توانائی کا حصہ ہے جس کی آج کل بڑے شہروں میں بڑی دھوم ہے۔

لہذا جب آن لائن نظام تعلیم کی بات کی جاتی ہے تو پس پردہ ایکولوجیکل سویلائزیشن کی طرف قدم بڑھانے کے لئے آمادہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہ ہم تمام کے علم میں ہے کہ موجودہ وسائل میں آن لائن تعلیم نہ صرف طلبہ کو پریشانی میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ اساتذہ کے ساتھ انتظامیہ بھی پریشان ہے۔ طلبہ کی پریشانی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کنکشن یا انٹر نیٹ اسپیڈ بہتر نہیں ہے جبکہ مسلسل کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل پر رہنے کی وجہ سے مختلف آزار لاحق ہورہے ہیں۔

والدین یا گارجین کی پریشانی یہ ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے بچوں کو تعلیم کے لئے کیسے آمادہ کیا جائے جبکہ جن آلات کی فرمائش کی جارہی ہے اس کی فراہمی ہی سوہان روح ہے اور لاک ڈاؤن جیسی صورتحال میں اس کا صرفہ کیسے برداشت کیا جائے۔ مینجمنٹ اس بات پر شاکی ہے کہ اگراس نے تعلیمی سلسلے کو موخر رکھا تو آخر وہ کیسے اپنے کاروبار کو جاری رکھ سکے گا؟ اپنا انفراسٹرکچر بچانے کے لئے وہ ان تمام کارروائیوں کو بروئے کار لا رہا ہے جس کا حالات تقاضا کر رہے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسا ٹرینگل وجود میں آ گیا ہے جو موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لئے ان تمام صورتوں کو قبول کرنے پر آمادہ ہے جو اسے راحت پہنچا سکتے ہوں۔ ایکولوجیکل سویلائزیشن کے حامی انہیں حالات کا فائدہ اٹھا کر اس نظام کو متعارف کرانا چاہتے ہیں جو ان کے مقصد کے حصول میں معین و مددگار ثابت ہو۔

ففتھ جنریشن انٹرنیٹ ٹیکنالوجی جسے عرف عام میں 5 جی کہا جاتا ہے اس کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ Augmented Realityاور Virtual realityکے ساتھ Live Holographic Streaming کے ذریعہ مغرب میں تعلیم کا آغاز ہوچکا ہے جسے تیسری دنیا میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔ ایکو لوجیکل سویلائزیشن کے دلدادہ اسی بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک ایسا نظام تعلیم رائج ہو جائے جس کی نکیل ان کے ہاتھوں میں ہو۔ کیا ہم اس بات کو آسانی سے بھول جائیں گے کہ ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 میں پارلیمانی انتخابات جیتنے کے لئے جس ٹیکنالوجی کو سب سے زیادہ استعمال کیا تھا وہ لائیو ہولوگرافک سسٹم ہی توتھا جس کے ذریعہ وہ ملک کی مختلف زبانوں میں خطاب کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔

ہندوستان میں اب تک جس آزاد نظام تعلیم کو فروغ حاصل رہا ہے شاید موجودہ آن لائن کے بہانے اس آزادی پر قدغن لگادی جائے اور اس نظام کو متعارف کرایا جائے جس کی کوشش 1925 سے کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان میں اعلیٰ ذات پر مشتمل ایک طبقہ مسلسل اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ تعلیم کے ذریعہ جو فکری اڑان اہل ہند کو حاصل ہے اس پر کمند لگائی جائے۔ یہی وہ طبقہ ہے جوہندوستان میں ایکولوجیکل سویلائزیشن کا نقیب بھی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کمال ہوشیاری سے وہ اس بات کا پروپگنڈہ کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ وہ ہندوستان کی بہتری کے لئے اس تہذیب کو متعارف کرارہا ہے جو اسے ورلڈ پاور بنا سکیں گے۔ سادہ لوح ہندوستانی عوام ایک موہومہ خواب کے بہانے اس دعویٰ کے پیچھے بھاگے چلی جارہی ہے۔ اسے یہ احساس نہیں ہے کہ آخر اس کی کتنی بڑی قیمت انہیں چکانی پڑے گی۔ ایسے میں ان لوگوں کی ذمہ داری دوچند ہوجاتی ہے جو اس پورے نظام کی خباثت کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔

میں نے اس سے قبل بھی ایکولوجیکل سویلائزیشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قدرتی نظام عالم یا بالفاظ دیگر ربانی نظام کے خلاف جس نظام کو نافذ کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں اس میں ”علم“ کا خاتمہ اور ”نالج“ کی بہتات اہمیت کا حامل ہے۔ کوشش اس بات کی کی جارہی ہے کہ علم محدود سے محدود تر ہو جائے جبکہ اس کے بالمقابل ”معلومات“ میں اس قدر اضافہ کر دیا جائے کہ لوگ اسی میں غوطہ خوری کرتے رہیں۔ یقیناً صحیح بخاری کتاب العلم میں باب کیف یقبض العلم کے تحت جس روایت کو درج کیا گیا ہے وہ اب بہت کچھ بیان کرتا ہے۔

روایت یوں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العا ص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے، بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لئے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اوکما قال علیہ الصلاۃ والسلام

اب آپ سوچیں کہ آن لائن نظام تعلیم میں استاد اپنی وہ محبت کیسے انڈیل پائے گا جو روبرو رہتے ہوئے منتقل کرتا تھا۔ احساس کی اس لذت سے طلبہ کیسے آشنا ہوپائیں گے جو ایک استاد خون جگر نچوڑ کر طلبہ کی رگوں میں دوڑاتا تھا، سوشل ڈسٹینسنگ کے نام پر اس صحت مند سوشلائزیشن کا خاتمہ کر دیا جائے گا جس کے لئے اسکولوں میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی۔ یقیناً احساس سے عاری ایک ایسی جماعت ضرور تیار کرلی جائے گی جسے جب چاہے جس طرف چاہے موڑا جاسکے۔ لیکن ایسے افراد تیار کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوگی جو اپنی عقل و خرد کا استعمال کرکے ربانی نظام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔

دانش ریاض ممبئی میں مقیم معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments