ڈاکٹر جسے قسمت نے جوہری بنا دیا


وہ بنا تو ڈاکٹر تھا مگر اب جواہرات کا تاجر ہے۔ 56 ملکوں میں آتا جاتا ہے۔ خاصا امیر ہو چکا ہے، باتیں بہت سناتا ہے شاید بناتا بھی ہوگا۔
کہتا ہے کہ لاہور کے ایک ہسپتال میں ہاؤس جاب کے دوران کسی فوجی افسر کے باپ کا زیادہ خیال رکھا ( فوجی افسر کا باپ سی ایم ایچ میں کیوں نہیں داخل ہوا، میں نے نہیں پوچھا ) تو افسر نے گرمیوں میں چھٹیاں گزارنے کو اسے کشمیر آنے کی دعوت دی جہاں افسر تعینات تھا۔

بتاتا ہے افسر کے دفتر کی میز پر ایک نیلگوں پتھر دھرا تھا جسے ہاتھ میں لے کر میں کھیلتا رہا۔ پوچھا کہ یہ پتھر کیا ہے تو اس نے لاپرواہی سے کہا معلوم نہیں۔ ایک شخص کو ایل او سی پار کرنے کے جرم میں حراست میں لیا تھا جس نے یہ پتھر دیا۔ میں نے میز پر رکھ دیا۔ تمہیں پسند ہے تو تم لے لو۔

اس کا کہنا ہے کہ اس نے پتھر سفری بیگ کی ایک بیک پاکٹ میں رکھ دیا اور بھول گیا۔ ایک بار اسے اسی ملک آنا پڑا جہاں اس نے تعلیم حاصل کی تھی تو کسٹم والوں نے وہ پتھر برآمد کر لیا۔ مجھے دو آپشن دیے کہ یا پتھر کا کسٹم کروا لو یا ہم تجھے ڈی پورٹ کرتے ہیں تو ساتھ واپس لے جاؤ۔ میں نے کہا کہ میں کسٹم ادا کرتا ہوں۔ جب کسٹم پیپر بن کے آئے تو محصول پانچ ہزار ڈالر تھا۔ میرے پاس اتنے پیسے کہاں تھے جو دیتا تو میں نے کسٹم کی خاتون افسر سے کہا کہ تم رکھ لو۔

اس نے کہا کہ میں کسٹم فیس بھی دوں گی اور پانچ ہزار ڈالر تمہیں بھی دوں گی تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ ۔ ۔ کہتا ہے میں نے ایک پرانی شناسا کو فون کیا جو تب خفیہ ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہو چکی تھی۔ اس نے مجھے ڈانٹا بھی مگر رعایتی کسٹم ادا کر کے پتھر سمیت مجھے چھڑا کر لے گئی۔ پھر شام کو ایک بوڑھے یہودی جوہری کے گھر لے گئی پتھر دیکھ کے جوہری کا چہرہ کھل اٹھا۔ بولا اس کے کتنے مانگتے ہو۔ مجھے پتہ ہوتا تو بتاتا۔ جوہری بولا میں 30000 ڈالر دیتا ہوں۔ کہتا ہے میری آنکھیں پھٹ گئیں۔ جوہری نے کہا کم ہیں تو چلو 35000 میری آنکھیں اور پھیل گئیں۔ جوہری نے دراز کھولا دس دس ہزار ڈالروں کی چار گدیاں نکالیں اور کہا یہ لو 40000 ڈالر اس سے ایک سینٹ زیادہ نہیں دوں گا۔ کہتا ہے میں نے تیزی سے پیسے بیگ میں ڈالے کہ کہیں جوہری کا ارادہ نہ بدل جائے۔

دو روز بعد جوہری نے میری دوست کو فون کر کے مجھے بلایا اور چار ماہ تک مجھے قیمتی پتھروں کی شناخت اور تجارت کے اصول سکھاتا پڑھاتا رہا۔ پھر وہ مجھے پاکستان بھیجتا اور میں کشمیر، سوات اور شمالی علاقہ جات سے نیلم، یاقوت اور زمرد خرید کر لاتا اور اسے دیتا۔ جب پیسے بن گئے تو میں نے خود کام شروع کر دیا۔

دیہاتی باپ نے چاؤ سے باہر بھیج کر ڈاکٹر بنایا تھا وہ ڈاکٹری کا پیشہ تج دینے سے رنجیدہ ہوا تو میں نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر بنانے پر آپ کا کتنا لگا۔ اس نے حساب لگا کر کہا تھا 600000۔ میں نے گن کر چھ لاکھ ان کے سامنے رکھے کہ یہ رہا آپ کا خرچ۔ پھر اتنے ہی اور دے کر کہا اور یہ آپ کا منافع۔ باپ نے پریشان ہو کر پوچھا، ”تم نے ڈاکہ مارا ہے کیا؟“ ۔ جب میں نے بتایا تو خوش ہو کے بولا ”کام تو اچھا ہے، کرتے رہو“ ۔ اب میں دس دن بچوں کے ساتھ اس ملک میں رہتا ہوں۔ دس روز ماں باپ کے ساتھ پاکستان اور دس روز کام کے سلسلے میں کسی اور ملک میں جیسے سری لنکا، تھائی لینڈ، گھانا، امریکہ۔

یہ فسانہ نہیں سچ ہے۔ کل وہ شخص میرے ہاں تھا۔ اس کے بیگ میں تراشے ہوئے زمرد اور نیلم تھے۔ مجھ بیچارے کو تو وہ کانچ کے ٹکڑے لگے مگر اس نے الٹرا وائلٹ روشنی ڈال کر سبز اور نیلے رنگوں کو گلابی اور سرخ ہوتے دکھا کر یقین دلایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments