تاریخ کا بہاؤ اور مجسمے ماضی کے


برطانیہ میں آج کل عہد رفتہ کے زعما کے بنائے گئے مجسمے گرانے کی تحریک زوروں پر ہے، جس میں کچھ شدت پسندی کی جھلک بھی نظر آ تی ہے۔ سترہویں صدی کی کامیاب کاروباری شخصیت ایڈورڈ کولوسٹن، جو کہ غلاموں کی تجارت کے حوالے سے مشہور تھے، کا مجسمہ برسٹل کے علاقے میں گرا دیا گیا۔ اس تحریک کے محرک ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے مظاہرین تھے جن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسے تمام مجسمے سیاہ فام اور چند دوسری نسلوں کے خلاف استحصالی قوتوں کی علامت ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے ایک اور سیاہ فام غلاموں کے تاجر رابرٹ میلیگن کا مجسمہ مشرقی لندن کے علاقے کی مقامی کونسل نے مظاہروں کے ڈر سے ہٹا دیا ہے۔

اسی طرح برطانیہ کو دوسرے علاقوں میں موجود ونسٹن چرچل اور مہاتما گاندھی کے مجسموں کے بارے میں بھی ایسی ہی مباحث چل رہی ہیں۔ چرچل کے مجسمے کو بے حرمتی کے خدشے کے پیش نظر تختوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے، وہ چرچل جس نے جنگ عظیم دوم میں برطانیہ اور اتحادیوں کو فتح سے ہمکنار کیا تھا اور حال ہی میں بیسویں صدی کے عظیم ترین برطانوی رہنما کا خطاب پانے والی شخصیت قرار پائے۔ لیکن اسی چرچل کے ہاتھ تیس لاکھ بنگالیوں کی قحط سالی سے ہونے والی اموات سے بھی رنگے ہوئے ہیں۔

اسی طرح مہاتما گاندھی جو کہ عمومی طور پر دنیا اور خصوصی طور پر بھارت میں غیر متشدد، امن پسند اور مذہبی ہم آہنگی کے پرچارک کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں لیکن انہی مہاتما کہلانے والے گاندھی نے اپنے ایام جوانی کی تحاریر میں جنوبی افریقہ کے سیاہ فام افراد کو وحشی، غیر مہذب اور غلیظ قوم کے القابات سے نوازا ہے۔

ان اور باقی تمام ماضی کے مجسموں کو ہٹانے کی بحث کی اصل وجہ ان مجسموں کی شخصیات کے ایک پہلو کا تاریکیٔ کردار کا آئینہ دار ہونا ہے۔ اور چونکہ عصر حاضر کے چند روشن خیال دماغوں کے معیارات اس زمانے کی دقیانوسی اقدار کو قبول کرنے سے قاصر ہیں تو انہیں ان مجسموں کا نظارہ گوارا نہیں۔ اس سے سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا انسان ایک وقت اور قوم کے لئے مسیحا اور دوسرے حالات اور قوم کا قابل نفرت کردار ہوتا ہے؟

اسی طرح کی بحث ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اٹھی، جب پچھلے سال عظیم سکھ سلطنت کے بانی شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ ( 1780 تا 1839 ) کی ایک سو اسی ویں برسی کے موقعہ پر قلعہ لاہور میں ان کا مجسمہ نصب کیا گیا۔ سکھ اور مسلم تاریخ دان ان کو دو متضاد حوالوں، ہیرو اور ولن کے طور پر جانتے ہیں۔ سکھوں کے مطابق ان کا دور اقتدار پنجاب کی ترقی اور مذہبی ہم آہنگی کا سنہرا دور تھا جبکہ کچھ مسلمان تاریخ دان انہیں ایک ظالم اور مسلم کش بادشاہ گردانتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں برصغیر کے کچھ پنجابی مسلمان عالمی تاریخ دانوں کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے انہیں اپنے شاندار ماضی کا فخر، بہادر اور انصاف پسند لیڈر مانتے ہیں، اور انہوں نے مجسمے کا خیر مقدم کیا۔

تاریخ ایک ایسا موضوع ہے جو ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے، اس میں بیانیہ اور انسداد بیانیہ کی بحث ہمیشہ موجود رہی ہے اور تاریخ کی کشتی حالات کے پانیوں سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے جس سے اس کی شکل میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اگر ان تاریخی شخصیات اور واقعات کو آج کے اخلاقی پیمانے سے ماپیں تو یہ سراسر زیادتی ہو گی۔ وقت بدلنے کے ساتھ اخلاقی معیار بھی تبدیل ہو جاتے ہیں، جو افعال صدیاں پہلے معمول تھے وہ آج مطعون ٹھہرائے جائیں گے۔

اور اگر کسی تاریخی کردار نے کوئی ظلم روا رکھا بھی ہو، تب بھی ان کی تاریخی حیثیت آنے والی نسلوں کے لئے تعلیم اور آگہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ ماضی کے تلخ واقعات کو مٹی تلے دبا دینا اور ان کا ذکر مٹا دینا عقلمندی نہیں۔ اقوام کو اپنے اسلاف کی کی گئی غلطیوں کا ادراک ہونا اور ان کے ذکر سے سیکھنا ہی زندہ قوموں کی نشانی ہے۔

اگر کوئی مجسمہ عہد رفتہ کے کسی ظلم کی یاد دلاتا ہے تو اس ظلم سے آئندہ نسلوں کو بچانا اور ظالم کا ہاتھ روکنا تب ہی ممکن ہو گا جب اس کا شعور ہو گا اور ماضی کے اس مکروہ فعل سے آگہی اختیار کی جائے گی۔ اگر برائی کا ذکر کرنا ہی جرم ٹھہر جائے اور ظلم کی یاد کو مٹا دیا جائے تو اس روش سے ظلم کی حمایت اور حوصلہ افزائی ہو گی۔ اسی لئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مکہ مکرمہ جیسے مقدس ترین شہر میں شیطان کے بہکاوے سے خبردار کرنے کی خاطر تین ستون نصب کر چھوڑے ہیں تاکہ مسلمان آگاہ رہیں کہ کیسے ان کے باپ ابراہیم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

وہ ستون جو کہ عام زبان میں خود شیطان کہلاتے ہیں دراصل برائی کے شعور کا استعارہ ہیں اور ان پر سنگباری کر کے اس عہد کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہمیں یہ برائی یاد رہے اور ہم اس سے بچنا سیکھیں اور خدا کے بتائے سیدھے راستے پر چلیں۔ ہمارے ایک مذہبی حلقے نے اسی لئے غم حسیؑن کو زندہ رکھا ہے تاکہ یزید کے ظلم کو یاد رکھا جائے اور موجودہ دور میں اس کے حواریوں سے خبردار رہا جا سکے۔

میری رائے میں جو لوگ سیاہ فام اقوام کے نمائندہ کے طور پر مجسموں کو مسمار کرنے کی تحریک چلا رہے ہیں وہ ان پر روا رکھے گئے ظلم کی یاد کو مٹا کر مزید ظلم کی راہ ہموار کریں گے۔

جہاں مظلوموں اور شہدا ٴکے ناموں کی تختیاں آویزاں کی جاتی ہیں وہیں جابروں کے نام اور مجسمے نصب کرنا بھی تاریخ کو اس دھاتی یا سنگی پتلے کی صورت میں محفوظ کر لینے کا عمل ہے۔ اس سے قوموں کے حافظے میں وہ تمام عوامل محفوظ ہو جاتے ہیں جس سے ان کی قومی زندگی نئے رخ اختیار کرتی ہے۔ آج کے دور کے اخلاقی معیارات چند صدیوں بعد شاید فواحش قرار پائیں۔ تاریخ ایک بہاؤ ہے جو اپنا رخ خود چنتی ہے اس کو بہنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments