مابعد نوآبادیاتی سائنسی دماغ اور سائنسی تحتانیت


70 سال بعد بھی پاکستانی مابعدنوآبادیاتی الیٹ بالخصوص اور عوام بالعموم میں مغربی سامراج کی ذہنی غلامی کے آثار موجود ہیں۔ جدید مغربی سائنس کے بارے میں مابعدنوآبادیاتی معاشروں میں ایک عجیب نو کی قبولیت پائی جاتی ہے۔ عجیب اس لیے کہ اس طرح کی قبولیت تو آج کا مغرب بھی جدید سائنس کو نہیں دیتا۔ جدید مغرب میں سائنس اور سائنسی طریق پہ تنقید کرنے پر آپ کو اس طرح کے جملے سنے اور سہنے کو نہیں ملتے ہوں گے کہ ”آپ گاریوں اور ٹرینوں سے اتر کر اونٹوں پہ سفر کیوں نہیں کرتے! آپ برقی قوت کے بجائے لال ٹین سے گھر روشن کیوں نہیں کرتے! یا یہ کہ ’اصل میں رجعت پسندوں کی وجہ سے مسلمان ترقی نہیں کر پائے“ ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جدید مغربی سائنس مابعدنوآبادیاتی معاشروں میں ”الحق“ اور اعتقادی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

یہ قبولیت اعتقادی ہے لہذا جدید سائنس پر تنقید ممکن نہیں بلکہ جدید سائنسی منشور کی روشنی میں روایتی علوم، اقدار، سماج، روایتی معاشرت ومعیشت و روایتی علاج وغیرہ کی سچائی کی پیمائش کی جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نویں جماعت سے بارہویں جماعت کی جدید سائنسی کتب کے پہلے باب میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ دین اسلام عین جدید سائنس ہی ہے۔ جدید سائنس سے عقیدت اس قسم کی ہے کہ اس بات دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اصل میں جدید سائنس کے آغاز کنیندہ و تعارف کنیندہ قرون وسطی کے مسلم مفکرین ہی ہیں اور اگر وہ نا ہوتے تو جدید سائنس نا ہوتی۔ یہ دلیل نہیں یہ جدید سائنس پہ مابعدنوآبادیاتی معاشروں کا اعتقاد ہے۔

اس اعتقادی قبلویت کی اہم وجوہات میں سے چند ممکنہ درج ذیل ہیں۔

1) دور غلامی کے اثرات ذہینوں اور رویوں پر اب تک موجود ہیں لہذا جس چیز کو مغربی آقا ) Super Altern (علم کہیں اس کو علم من وعن بغیر کسی اصافی تحقیق و تنقید کے مان لیا جائے۔

2) جدید سائنس کو Value Neutral سمجھنا۔
3) جدید سائنس کی مدد سے سرمایہ دارانہ مادی ترقی کی چکاچوند سے متاثرہونا۔
4) سائنس و ٹیکنالوجی اور سرمایہ داری کے باہم تعلق کو صرف نظر کرنا۔

جدیدیت اور اس سے برآمد شدہ جدید سائنس کا خاصہ رہا ہے کہ یہ جہاں بھی جاتی ہے وہاں کی ایمانیات، علمیات اورقدریات کو مسخ کرتی ہے، ان کو توڑتی ہے اور ان کو جدید ایمانیات، علیمات اور جدید قدریات سے تبدیل کرتی ہے۔ جدیدیت کے زیرسایہ جدید شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ ایک ایسا تصور شخص کہ جس کا ایمان ’آزادی تعین خیر بحثیت فرد یا بحثیت قوم پر ایمان، انسان کو کائنات کا محور ماننا، مادہ کی الوہیت ابدیت و ازلیت پر ایمان، لامتناہی بڑھوتری سرمایہ بحثیت فرد یہ بحثیت قوم پر ایمان، مادی ترقی بحثیت مقصدحیات وغیرہ‘ پر ایمان رکھتا ہے۔

جدید تصور شخصیت انسانی عقل اور حسی و وجدانی تجربہ کو مآخذ علم تصور کرتا ہے (انسان سے باہر کوئی مآخذ علم کا نا مننا) ۔ جدیدیت کا مننا رہا ہے کہ انسانی عقل اور حسی تجربے سے حقیقی علم تخلیق کیا جا سکتا ہے اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ علم وہ ہی ہے جو انسانی عقل و تجربے سو پیدا ہو۔ جدیدیت کے لیے وحی، روایت مآخذ علم نہیں کیوں کہ انسان قائم بذات ہے لہذا انسان سے باہر کوئی مآخذعلم نہیں نہ ہی کوئی ماورائے انسانی عقل و تجربہ مآخذ علم۔

جہاں مغربی نوآبادیات میں جدیدیت اور اس کے نظریات پروان چڑھے وہیں ایک تحتانی وغلامانہ رویے نے بھی جنم لیا کہ جس چیز کو مغربی آقا حق کہیں وہ ہی حق مان لیا جائے جس چیز کو وہ علم کہیں اس کو ہی علم تصور کر لیا جائے اور جس کو آقا خیر کہیں وہ خیر مان لیا جائے! یہئی وہ تحتانی رویہ ہے جو مابعدنوآبادیاتی معاشروں میں آج تک نظر آتا ہے۔ یہی تحتانی رویہ علی گڑھ مومنٹ میں عیاں تھا اور یہی رویہ، باوجود کہ آج نوآبادیات کا خاتمہ ہو چکا ہے، آج بھی عیاں ہے۔

آج بھی ہم سنتے ہیں کہ اصل اخلاقیات تو مغرب میں نظر آتی ہے۔ آج بھی ہم سنتے ہیں کہ علم تو مغرب کے پاس ہے۔ آج ہماری زندگی کے معیارات جدید مغربی معیارات زندگی کو سامنے رکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے علمی و تحقیقی معیارات جدید مغرب ہی طے کرتا ہے۔ ہمارے طعام و لباس کے معیارات بھی مغربی، ہماری ترقی کے پیمانئے مغربی، ہماری سوچ کے زاویے مغربی وغیرہ۔ یہ یقیناً ایک غلامانہ، تحتانی رویہ ہے۔

ہمارایہی تحتانی رویہ مغربی جدید سانئس کے حوالے سے بھی ہے۔ جو کچھ جدید سائنس بتادیتی ہے وہ ہمارے لیے علم ٹھرتا ہے اور جس علم کو جدید سائنس علم نہیں گردانتی وہ ہمارے لیے بھی علم نہیں رہتا۔ بحث یہ نہیں کہ جدید سائنس کسی phenomenon کو ٹھیک سمجھتی ہے یہ غلط! زیربحث جدید سائنس کے حوالے سے مابعدنوآبادیاتی معاشروں کہ وہ تحتانی رویہ ہے جو کہ صحیح و غلط کی بحث سے بہت پہلے ہی جدید سائنس کے لیے قائم ہو چکا ہے۔ یہ رویہ جدید مغرب کی غلامی کی عکاس ہے کہ جس میں مغربی structures کو حق مان کر بغیر کسی اصافی تحقیق کے اپنا لینا اور اس پر تنقید کو برداشت نہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے نے جدید مغربی سائنس کو ایک Cult کی صورت اپنا لیا ہے۔

جدید سائنس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ Value Neutral ہوتی ہے یعنی ’غیرجانبدار‘ ہوتی ہے اور یہ کہ جدید سائنس کوئی قدر نہیں رکھتی اور جدید سائنس معروضی ہوتی ہے وغیرہ۔ علم کی عمارت ہمشہ کسی نہ کسی بنیاد (مابعدالطبعیاتی ایمانیات) پر قائم ہوتی ہے۔ جس طرح بغیر بنیاد کے عمارت کا تصور ممکن نہیں اس ہی طرح بغیر مابعدالطبعیاتی بنیاد کے علم کا تصو ر بھی ممکن نہیں۔ ایمانیات اور علم میں ایک تعلق قائم رہتا ہے، علم قائم ایمانیات پر ہوتا ہے اور اس ایمانیات کی ہی سچائی ہم پر واضح کرتا ہے۔ علم غیر جانبدار نہیں رہتا بلکہ ہمشہ ہم کو اس ایمانیات طرف لے جاتا ہے کہ جس پر وہ علم قائم ہوتا ہے۔

جدید مغربی سائنس کی مابعدالطبعیاتی ایمانیات ’جدیدیت اور جدید فلسفہ‘ میں پنہاں ہیں۔ جدید فلسفے کا مننا رہا ہے کہ انسان قائم بذات ہے، انسان ہی وہ ماورائے شک سچائی ہے کہ جس کے ذریعے دیگر سچائیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ انسانی Faculties ہی کی مدد سے علم جنم لیتا ہے۔ جدیدیت کے لیے علم صرف وہ ہی ہے جو انسانی Faculties کی مدد سے حاصل ہو۔ انسانی Faculties کے باہر علم کا کوئی منبع نہیں اور اگر ہے بھی تواس کو جاننا انسان کے بس سے باہر ہے یعنی انسان ہی واحد مقتدر حستی ہے، انسان کے باہر کوئی حق نہیں کوئی علم نہیں کوئی سچ نہیں۔

ہم جس پر ایمان رکھتے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے علم تخلیق کر لیتے ہیں مثلاً اگر ایمانیات روایت پر مبنی ہو تو جو علم وجود میں آئے گا اس کا مقصد ومطلب روایت اور اس کی سند کی جانچ پڑتال اور انسانی زندگی کے مسائل کو اس علم کی روشنی میں حل کرنا رہے گا۔ اگر ایمانیات مادہ کی الوہیت ابدیت و ازلیت مبنی ہو، انسان کے قائم بذات ہونے پر اور انسانی Faculties کو ہی علم کا منبع مانے پر مبنی ہو تو ایسے ایمانیات کو سمجھنے کے لیے جو علم وجود میں آئے گا اس کا مطلب و مقصد مادے کی حقیقت جاننے اور انسانی ارادے کے ذریعے مادے و فطرت (جدید سائنس کے لیے فطرت سے مراد مادہ ہی ہے ) کی تسخر و استحصال کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

یہ کہا جائے تو ٖغلط نہ ہو گا کہ علم بل عموم اور مغربی جدید سائنس بل خصوص غیر جانبدار نہیں بلکہ جانبدار ہوتا ہے۔ علم لازما اس ایمانیات کی طرف لے جاتا ہے کہ جس پر اس علم کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ جدید سائنس کی ایمانیات جدیدیت اور جدید فلسفے میں پنہاں ہیں لہذا جدید سائنس لازما روایتی مابعدنوآبادیاتی انسان کو جدید انسان میں تبدل کرنے میں مصروف و مشعول رہتی ہے۔ جدید سائنس ایک مخصوص نظرئے (جدیدیت اور جدید طرز زندگی ) کو فروغ دیتی رہتی ہے لہذا جدید سائنس کو Value Neutral ماننا ایک غلط العام تصور ہے۔

جدیدسائنس کے حوالے سے ہمارا رویہ ابھی تک 19 صدی کے تحتانی معاشروں والا معلوم ہو تا ہے۔ ابھی تک ہمارا تعلق مغرب ساتھMaster۔ Slave mentality پر مبنی ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ جدید سائنس، جدیدیت کی پیداوار ہے جس کی بنیاد جدیدیت اور جدید فلسفے پر مبنی ہے۔ جدید سائنس کے نظریات کی تنقید بھی ممکن ہے اور تنسیخ بھی ممکن ہے۔ نیز جدید سائنس جانبدار علمیت ہے جوکہ روایتی انسان کو جدید انسان میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور عموماً کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments