یونائیٹد فروٹ کمپنی اور مرہٹہ مافیا


افتخار عارف نے ہمارے عہد میں آہوئے رمیدہ کی درماندگی کو شعر کیا، آفت کی آشفتگی کو گداز دیا۔ ہمارے اندیشوں کو آہ سرد کی زبان بخشی اور لکھا…. محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے۔ وقت کی گردش سے تو مفر نہیں۔ لیکن دشنہ جبر کی چبھن کا علاج تو ممکن تھا۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز تھا۔ جولائی کا پہلا ہفتہ آن پہنچا۔ دو جولائی 1972ء کو بھٹو صاحب نے شملہ معاہدے پر دستخط کر کے 93000 جنگی قیدی رہا کروائے تھے۔ ہمارے ہاں کسے یاد ہے کہ اس معاہدے کے لئے ابتدائی کام بھٹو صاحب نے 19 اور 20 دسمبر 1971ء کی درمیانی رات مشرقی پاکستان کے آخری چیف سیکرٹری مظفر حسین کی اہلیہ لیلیٰ حسین کی وساطت سے ہیتھرو ایرپورٹ پر ہی مکمل کر لیا تھا۔ چار جولائی 1999ء کی سہ پہر نواز شریف نے کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر بل کلنٹن سے ملاقات کر کے کارگل کے برف پوش جہنم میں محصور پاکستانی بیٹوں کی واپسی کو یقینی بنایا تھا۔ جولائی کے اسی ہفتے میں پانچ جولائی 1977ء کی صبح بھی آئے گی، ہماری تاریخ کا ایک دائمی سیاہ نشان۔ مرے وطن ترے دامان تار تار کی خیر….

ایک صاحب زادے نے اگلے روز ٹیلی وژن پر فرمایا کہ ہمیں جمہوریت کو romanticize کرنا بند کر دینا چاہیے۔ صاحب، حکم کی تعمیل ممکن نہیں ہے۔ عشق کی دردمندی فرد کی افتاد نہیں، نسلوں کی میراث ہے۔  آپ کے مکتب فریب کے بہت سے گرہ کٹ ان دنوں اوندھے منہ خاک چاٹ رہے ہیں۔ بساط جہل و ریا کی تازہ کمک کا انجام بھی ہمیں معلوم ہے۔ مجرم اور مخبر سازش کا تاروپود جانتے ہیں، انصاف کی سنگی دیوار پر محررہ شہادت نہیں پڑھتے۔

ڈاکٹر صفدر محمود سے روایت ہے کہ خواجہ ناظم الدین کو غلام محمد نے برطرف کیا تو مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ نورالامیں فوراً کراچی پہنچے اور اہل کار کی چیرہ دستی کے خلاف تحریک چلانے کی اجازت مانگی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان سے مل کر یہ قدم اٹھایا ہے، مزاحمت پر جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔ ٹھیک دس برس بعد ایوب خان کے نام سہروردی کا مکتوب پڑھیے اور جانیے کہ ملک بچانے کی فکر کسے تھی؟ مزید دس برس گزرے تو لیاقت باغ فائرنگ کے بعد مغفور عبدالولی خان اشتعال انگیزی سے بچنے کے لئے شہید سیاسی کارکنوں کی لاشیں رات کے اندھیرے میں پشاور لے کر گئے تھے۔

یوسف رضا گیلانی بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے 1996 کی سازش کے دوران جہانگیر کرامت سے مدد لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے اپنے ہی آرمی چیف سے مدد مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہ بھی محترمہ شہید کی شرافت نفسی تھی، بے نظیر یقیناً جانتی تھیں کہ فاروق لغاری نے کس کھونٹے کے زور پر ہارس اینڈ کیٹل شو سجایا تھا۔

ایک ایک کر کے گن جائیے۔ این آر او، کیری لوگر بل، انیسویں آئینی ترمیم، سوئس اکاؤنٹس، میمو گیٹ، دھرنا، ڈان لیکس اور پھر پانامہ گیٹ سے ہوتے ہوئے بات یہاں تک آئی کہ عمران خان بھی اسمبلی کے فلور پر مائنس ون کا ذکر کرنے لگے۔ تردید ہی سہی لیکن…. تری جانب سے دل میں وسوسے ہیں۔ تھرڈ امپائر سے شروع ہونے والی دھن مائنس ون کی استھائی کو پہنچ رہی ہے تو توقع کرنی چاہیے کہ تفریق اور تقسیم کی ان ضربوں سے مانوس قبیلے اس مشق کی لاحاصلی سمجھ چکے ہوں گے۔ فریب کے سنجوگ میں افتراق کا مرحلہ آ رہا ہے تو مسلے ہوئے پھولوں کے ہار گوندھنے میں کیا رکھا ہے۔

یوں بھی عالمی معیشت اور اس سے جڑی سیاست کورونا کی کٹھالی میں ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے شروع ہونے والا تیس سالہ عہد دہشت گردی، دائیں بازو کی مقبولیت پسند سیاست اور غیر شفاف سرمائے کے بحرانی تضاد سے دوچار تھا کہ دنیا کو اچانک کورونا وائرس نے آ لیا۔ رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے بحران کی مالی اور سیاسی تباہ کاری کا ٹھیک ٹھیک تخمینہ ابھی ممکن نہیں۔ تاہم یہ معلوم ہے کہ حالیہ عشروں کے بنیادی تضادات جوہری تبدیلی کے دہانے پر ہیں۔ سرمائے اور اختیار کی دنیا میں مجرمانہ گٹھ جوڑ کے عناصر ہمیشہ غالب رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امکان پیدا ہوا تھا کہ علم اور حقوق کے بیانیے میں پیش رفت ہو گی لیکن سرد جنگ میں فریقین کی کوتاہ بین پالیسیوں سے یہ امکان ختم ہو گیا۔

اکیسویں صدی کی سیاسی اخلاقیات کا بحران دو سوالات کے گرد گھومتا ہے۔ سرمائے اور جمہوری اقدار کے متناقض زاویوں میں مفاہمت کیسے پیدا کی جائے۔ دوسرا یہ کہ آزادی اور انصاف کے دو دھاروں میں توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ اب تاریخ ان سوالات کا جواب مانگنے جا رہی ہے۔

لاطینی امریکا میں یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کی کہانی سو برس پر پھیلی ہوئی ہے۔ بس اسی دور دراز حکایت کی روشنی میں درد دروں کا بیان چاہتے ہیں۔ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے طریقہ واردات میں چار بنیادی پہلو تھے۔ سیاست پر قبضہ کر کے ترجیحی معاشی مفادات کو یقینی بنانا، محنت کشوں کا استحصال کرنا، ٹیکسوں کی ادائیگی میں چھوٹ حاصل کرنا اور آخری یہ کہ مقامی جرائم پیشہ گروہوں سے قریبی گٹھ جوڑ رکھنا۔ اس چھینا جھپٹی کا بڑا حصہ تو یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے حاکموں کو ملتا تھا تاہم مقامی مہم جو مرہٹے بھی اپنا حصہ پاتے تھے۔ سیاست، معیشت اور بندوق کی مثلث قائم ہو جائے تو نومبر 1928 میں کولمبیا کے محنت کشوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک پر بھی ایک دفعہ ایسی ہی افتاد ٹوٹی تھی۔ دسمبر کی ایک اداس سہ پہر ملک ٹوٹنے کی خبر آئی اور اسی شام اخبارات کے دفاتر میں ملک کے نئے دستور کی کاپیاں موصول ہو رہی تھیں۔ جب سانحے اور خبر کا فرق مٹ جائے تو دیکھنا پڑتا ہے کہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کا معاشی ہدف حاصل ہو گیا یا سیاسی مرہٹے چینی، آٹے اور پیٹرول وغیرہ کی لوٹ مار میں اپنے حصے سے زیادہ لے مرے؟ یہ بے سبب نہیں سونے گھروں کے سناٹے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments