25 روپے کا مقروض



تمہارے 145 روپے ہوئے۔ میرے پاس تو 120 ہیں۔ مگر دوا 145 کی ہے ؛سیلز مین نے کہا۔ وہ میرے آگے لائن میں کھڑا تھا اور میں لا شعوری طور پر اس کے اور سیلزمین کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔

10 منٹ قبل میں اپنے بیڈ پہ سکون سے لیٹا سیلف ڈسکوری کے موضوع پر ایک مشہور کتاب کا مطالعہ کرنے میں مشغول تھا۔ گھر کا دروازہ کھلنے کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی، میں اٹھ کر کمرے سے باہر آیا، میری بھتیجی فاطمہ کی دوا لینے گئے امی اور بھائی واپس آ چکے تھے۔ آتے ہی انہوں نے دوائیوں والا پیکٹ کھولا تو انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر نے جو دوا لکھ کر دی تھی اس میں سے ایک دوا غلط آ گئی ہے، دوائیوں کے نام چونکہ ملتے جلتے تھے اس لیے سیلز مین نے جلدی میں یا غلطی سے ایک ہی دوا سمجھ کر تھما دی۔

امی نے مجھے کہا جاؤ اور دوا تبدیل کروا کے لاؤ۔ میں میڈیکل اسٹور پہنچا؛ دوا اور ڈاکٹر کا نسخہ ہاتھ میں لیے لائن میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ میرے آگے ایک بچہ کھڑا تھا جس کی باری مجھ سے پہلے تھی۔ سیلز مین نے دوا پیک کی اور اسے بل بتایا، 145 روپے۔ اس بچے کے پاس 120 روپے تھے، سیلزمین نے کہا یہ اتنے کی نہیں ملے گی۔ معلوم نہیں میں سوچ کے کس راستے پر اپنے خیالوں میں گم سم ساکت کھڑا تھا اور یہ ساری گفتگو لاشعوری طور پر مجھے سنائی دے رہی تھی، اچانک میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی جب اس بچے نے کہا بھائی 120 کی جتنی ہو جائے اتنی ہی دے دو۔

سیلز مین نے کچھ گولیاں کم کر دیں، وہ شاید چند دن کی دوا تھی اس میں سے مزید 1,2 دن کی کم کر دی۔ اتنے میں وہ بچہ پیچھے ہٹا اورمیری باری آ گئی، میں نے دوا اور نسخہ سیلزمین کی جانب بڑھایا اور اسے بتانے لگا مگر میرے سوچ کی گھڑی ابھی تک وہیں پر رکی ہوئی تھی، جیسے ہی وہ بچہ کاؤنٹر کی طرف بل ادا کرنے کے لئے بڑھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے اس کے پیسے دینے چاہیں کسی غریب کو دوا پوری مل جائے گی تو میرا کیا جائے گا اور 25 روپے ہی تو ہیں اس می مدد کرنی چاہیے۔

ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ وہ بچہ بل ادا کر کے دکان سے نکلا اور چلا گیا۔ میں کاؤنٹر کی طرف بڑھا بل کلیئر کیا اور مطلوبہ دوا لے کر باہر نکلا، میں نے ارد گرد نظریں گھمائیں مگر وہ بچہ نظر نہیں آیا چونکہ اس نے بھی ماسک پہن رکھا تھا لہذا کپڑوں سے پہچاننا نہایت مشکل تھا۔ گھر کا کچھ ضروری سامان خرید کے واپس آ گیا، مگر ابھی تک وہ بچہ میرے دماغ سے نہیں گیا تھا اور دماغ کی سوئی وہیں پر اٹکی تھی۔ اس میڈیکل اسٹور سے دوا کے ساتھ احساس ندامت اور احساس جرم اور پچھتاوا بھی لے آیا تھا۔

وہ میری سوچ سے نہیں جا رہا تھا، اس کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی، اس کے لہجے میں بھرا درد میرے کانوں میں سیسہ انڈیل رہا تھا۔ میرے ذہن میں کئی سوالات ابھر رہے تھے اور مجھ سے جواب مانگ رہے تھے۔ تم نے اس کی مدد کیوں کر نہ کی؟ اس سیلز مین نے اس کی مدد کیوں نہ کی؟ اس دکان مالک نے اس کی مدد کیوں نہ کی؟ ہم بطور معاشرہ کتنے بے حس ہو چکے ہیں؟

میں ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہا تھا مگر کوئی مناسب جواب نہ بن پا رہا تھا۔ میرا دل کہہ رہا تھا ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں، ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے ہمسائے میں کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا؟ ہم یہ پتہ کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ ہماری گلی، ہمارے محلے، ہمارے گاؤں میں کتنے ایسے گھر ہیں جن کے پاس آٹا نہیں ہے، کتنے ایسے گھر ہیں جن میں بیمار ہیں اور ان کو دوا کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے؟ ہم کس جہت پر چل نکلے ہیں؟

یہ وتیرہ ہمارے بزرگوں کا نہیں تھا ان کے پاس وسائل ہم سے کم تھے مگر گاؤں میں کوئی کا بھوکا نہ سوتا تھا، ہر دوسرے دن یا جمعرات کو لازم اچھا کھانا پکا کر غریب کے گھر بھیجا جاتا تھا، ہر ماہ گیارویں شریف کا لنگر پکا کر پورے گاؤں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ کسی کی شادی کے موقع پر اس کے گھر برتن، بستر، گندم، دودھ بھیجنا اپنا فرض سمجھا جاتا تھا، کسی ایک گھر آئی بارات پورے گاؤں کی مہمان ہوتی تھی، کسی ایک گھر آیا مہمان پورے گاؤں کا مہمان ہوا کرتا تھا، کسی ایک کی وفات پر پورا گاؤں سوگوار ہوتا تھا۔ سبھی خوشیاں اور سارے غم سانجھے ہوتے تھے اور آج ہم کسی کو 25 روپے دینے کے روادار نہیں۔

مجھے شرمندگی اور ندامت کا احساس اندر سے کھائے جا رہا تھا۔ میں خود سے سوال کر رہا تھا کہ وبا کہ اس دور میں اللٰہ نے مجھے، میرے خاندان، میرے چاہنے والوں کو بیماری سے محفوظ رکھا ہمیں زندہ رکھا اور میں ہوں کہ اس کا شکر بھی ادا نہیں کر سکا۔ ایسے ہزاروں لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں مگر ہم اپنی انا، زعم اور تکبر کی دلدل میں پھنسے ہیں اور خدا کی ان گنت نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اس کے بندوں کی داد رسی کو تیار نہیں ہوتے۔

میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا کہ اللٰہ نے مجھے اٹھا کر بھیجا، جا میرے اس بندے کو میری مدد کی ضرورت ہے اور میں تجھے اس کا وسیلہ بنا رہا ہوں۔ میں تجھے اپنی ذاتی صفت المدد کا حصہ دار بنا رہا ہوں، میں تجھے اپنی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا موقع دے رہا ہوں، میں تجھے کسی غریب کی دعا لینے کا موقع عطا کر رہا ہوں اور قیمت صرف 25 روپے۔

مگر میں اس نعمت سے محروم ہو چکا تھا، میں اس برکت کو کھو چکا تھا، وہ دعا جو میرے حق میں ہوتے ہوتے رہ گئی تھی، اور میں خالی ہاتھ اور دامن لیے واپس آ چکا تھا۔ میں اللٰہ سے معافی مانگ رہا ہوں کیونکہ وہ رحم کرنے والا ہے، اس کہ کرم کی بھیک مانگ رہا ہوں کیونکہ وہ کرم کرنے والا ہے، کہ اے میرے مالک میں خطاکار ہوں، میں شرمندہ ہوں، تو مجھے معاف فرما دے اور مجھے اپنے بندوں کی مدد کی توفیق عطا کرنا اور میں آئندہ ایسی خطا نہ کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔

وہ بچہ چلا گیا لیکن جاتے ہوئے وہ مجھ سمیت اس معاشرے کے منہ پر خود داری کا تھپڑ رسید کر گیا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے مجھے 25 روپے کا مقروض کر گیا تھا۔ وہ قرض جو شاید میں کبھی نہ چکا پاؤں۔

اس نے یہ بتا دیا کہ ہم آج کہاں کھڑے ہیں، ہم مادیت پرستی کی کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، دولت کی ہوس نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے، ہم اپنی ذات کے خول میں بند ہیں اور اپنے ننانوے کو سو بنانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ اس نے ہماری اوقات ہمیں یاد دلا دی۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہم سے طاقتور، حسین اور مالدار لوگوں کو موت کی آغوش میں جاتا دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی عبرت پکڑنے کو تیار نہیں۔

کئی دن میں یہی سوچتا رہا کہ اس ندامت کو کیسے دور کروں، میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہا اور آج میں نے قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا تا کہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کر سکوں کہ شاید اس سے میرے ضمیر کا بوجھ ہلکا ہو جائے اور اللہ مجھے معاف فرما دے۔ شاید میرا اعتراف جرم پڑھ کر کوئی کسی کی مدد کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہو اور کوئی غریب چند روپوں کی وجہ سے دوا سے محروم نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments