عالم لوہار: ثقافت کا نمائندہ


ریڈیو کی آواز ہمارے پرانے کلچر کا حصہ تھی۔ کسی بزرگ کے ریڈیو کی آواز پورے محلے میں گونجا کرتی تھی۔ ریڈیو پر علی الصبح تلاوت، قوالی، خبروں کے علاوہ قومی نغمات اور فوک گیت، روزمرہ زندگی کا حصہ تھے۔ فوک گلوکار مثلاً عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی، شوکت علی، ایسی آوازیں تھیں جو ہمارے اپنے اندر کی آویزیں محسوس ہوتی تھیں۔

فوک گیت کی عام سی پہچان ہی یہ ہے کہ اسے سن کر کسی کے پاؤں نہ ہلیں بلکہ سر، ہاتھ اور جسم میں کھلبلی محسوس ہو۔ فوک گایئکی سے مراد ہی ایسی موسیقی اور آواز ہے جو ہمیں غور سے سننی نہ پڑے بلکہ ہمارے اندر سے ابھرے، ہمیں یاد نہ کرنا پڑے، بلکہ ہمارے ہونٹوں پر گنگناہٹ کی صورت نظر آئے۔ فوک گیتوں کے لکھاریوں کو لوگ نہیں جانتے لیکن ان کا کلام زبان زد عام ہوتا ہے کیونکہ یہ مخصوص کلچر کے حامل افراد کی زبان، رہن سہن، عادات و اطوار، رسوم و رواجات، جذبات و احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ فوک گائیک اسی بنا پر ہمیں اپنی ذات کا حصہ محسوس ہوتے ہیں اور صدا بہار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے مخصوص ثقافتی مواقع پر، شادیوں پر، دیگر خوشیوں کے موقعوں پر، ان فوک گیتوں کے بغیر اپنی خوشیوں کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ لیکن افسوس اب یہ فوک گیت اور گایئکی صرف چند مواقع تک محدود ہو گئی ہے اور ہم اپنی پہچان، اپنا کلچر، اپنی تہذیب بھول کر اپنی شناخت بھول رہے ہیں اور ہماری پہچان ہم سے ’رس (روٹھ) گئی ہے‘ ۔

عالم لوہار، اک ایسا نام ہے، جو فوک گایئکی کے درخشاں ستاروں کے جھرمٹ میں، اپنی پہچان آپ ہے۔ عالم لوہار کا نام پنجابی ثقافت اور سماجی رسوم کے مواقعے پر جذبات کے اظہار کا آینہ دار ہے۔ پنجابی زبان کے بولنے والے، آیا کہ وہ پاکستان کے پنجاب کے ہو ں یا گرو جی کے خالصوں میں سے ہوں، آسٹریلیا سے کینیڈا تک جہاں بھی کوئی شخص پنجابی زبان سے آشنا ہے اور وہ عالم لوہار کا نام نہ جانتا ہو تو پھر ایسا ممکن نہیں کہ وہ لفظ، پنجابی سے آشنا ہو۔

یکم مارچ 1928 کو گجرات کے ایک چھوٹے سے علاقے ’آچھ‘ میں پیدا ہونے ایک بچے کا نام عالم لوہار رکھا گیا۔ خاندان کا پیشہ تو لوہے کو تپا کر سرخ کرنا اور ہتھوڑوں سے پیٹ کر اشیأ بنانا تھا پر، عالم لوہار نے خاندانی پیشے کی نوعیت تبدیل کر دی۔ خاندانی کام یعنی لوہے کو تپانے اور پیٹنے کے بر عکس، عالم لوہار نے لوہے کی جگہ، انسانی جذبات کو تپانے اور ہتھوڑے کی بجائے اپنی زبان کے سروں سے عام انسانوں کے جذبات کو نئے انداز میں ڈھالنے کا کام کیا۔

اگرچہ لوہار نے لوہاری تو چھوڑ دی، پر اپنے اند ر کی خاندانی پہچان نہ بھلائی۔ لوہے کی تپائی اور پٹائی کی آواز کو بھی نیا رنگ دے کر، لوہے کے لمبے چمٹے کو بھی ساز بنا ڈالا۔ اور ساری عمر اپنے لمبے چمٹے کے ساز سے دنیا کو محظوظ کیا۔ (ساتھ ہی ساتھ چمٹے کا ہولناک تصور بھی ختم کر دیا، جو عام طور پر نہ پڑھنے والے بچوں کو خوب معلوم ہے یعنی چمٹا بطور آلہ تشدد برائے عدم تعاون درجرم غیرحاضری اسکول و انکار پڑھائی) ۔

عالم لوہار نے بچپن یعنی چھ، سات سال کی عمر سے ہی گانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی ابتدا بچپن کے دوستوں کی محفلیں اور گاؤں کی چوپال سے ہوئی۔ ان کی گائیکی میں نعت، صوفا نہ کلام، پنجابی روایاتی لوک داستانیں، ہیر، سیف الملوک، سسی پنوں، گیت، پنجابی ماہیے، بولیاں اور ایک خاص تاریخی پس منظر کی جگنی شامل ہیں۔ ان کے بول کی ادایئگی، الفاظ کا تلفظ، جذباتی اتار چڑھاؤ، موسیقی کا زیر وبم، چمٹے کی ہم آہنگی، یہ تمام عناصر مل کر ایسا ماحول پیدا کر دیتے تھے کہ سامعین اپنے آپ کو اس ماحول اور کیفیت کا حصہ سمجھ لیتے تھے۔

جو لوگ پنجابی زبان اور ان کے کلام کے پس منظر سے نا آشنا ہوتے تھے وہ بھی اس کیفیت میں سرشاری اور لطف اٹھاتے تھے۔ انگریزوں اور ملکہ برطانیہ پر ’جگنی‘ کی گایئکی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ عالم لوہار نے ثابت کر دیا کہ انسانی جذبات اور موسیقی، لفظوں کی قید سے ماورا ہوتے ہیں۔ لفظ سمجھ نہ بھی آیئں تو بھی موسیقی انسان کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے اور زبان سے عدم شناسائی کے باوجود انسان موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتاہے۔

آج کے کلچر اور چالیس، پچاس سال قبل کے کلچر کا تجزیہ کیجئیے تو یہ المیہ سامنے آتا ہے کہ پرانے کلچر میں انسان کا تعلق انسان سے تھا، اور نئے کلچر میں مشین کا مشین سے تعلق نظر آتا ہے۔ پرانے کلچر میں جذبات کا اظہار بغیر لفظوں کے بھی ہو جاتا تھا جبکہ آج کے کلچر میں محض برقیاتی الفاظ، اور کچھ علامات رہ گئی ہیں۔ آج کی موسیقی، ہینڈ فری یا ہیڈ فون تک محدود ہو گئی ہے۔ پرانے فوک گلوکار وں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ انسان کا انسان سے تعلق بناتے تھے۔ اجتماعات میں بھی تمام لوگ ایک ہی کیفیت جھومتے تھے۔ عالم لوہار ایسے ہی فوک گایئک تھے جن کا کمال یہ تھا کہ پورے اجتماع کو ایک کلچرل ہم آہنگی اور جذباتیت میں اکٹھا کر دیتے تھے۔

عالم لوہار کی گایئکی کے شہکاروں میں سے، زبان زد عام مشہور صوتی شہ پارے، دل والا دکھڑا کسے نوں نئی سنائی دا، واجاں ماریاں بلایا کئی وار، مٹی دا باوا، جگنی، باغ بہاراں تے گلزاراں، اول نام اللہ دا، ہیں۔ لیکن یہ لسٹ یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ ان تمام شہ پاروں نے عام انسانی جذبات، ہجر و وصال کی کیفیت، بچھڑنے کے دکھ، جوانی کی کیفیت، لاچارگی کا زمانہ، اچھے وقت کی پہچان، انسان کی زندگی کی عارضی حییثت، ذات باری کی ابدیت، انسانی تنہائی کا المیہ، دل کے دکھوں کا مداوا نہ ہونے پر احساس تجرد، اپنی سوچوں میں خود کو مقید کرنے کی نفسیاتی کیفیت، یہ وہ مسأیل و کیفیات ہیں جو عالم لوہار کی گایئکی کے بنیادی عناصر تھے۔

آج کے انسان کے مقابلے میں، اس پرانی نسل کا انسان اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے، کم از کم اس وقت جب وہ فوک گیت سنتا تھا تو خود کو، زندہ انسانی معاشرے کا فرد سمجھتا تھا، جس میں اچھا، برا وقت سب پر آ سکتا تھا، آج کی طرح نہیں کہ صرف مجھ پر، اچھا یا برا وقت ہے۔ اس احساس اجتما عیت کے پیداکرنے اور زندگی کا احساس دلا کر جینے کا حوصلہ دینے کا صلہ، ان فوک گلو کاروں کو جاتا ہے۔ اور عالم لوہار نے اپنے اس پیشے اور منصب کو خوب نبھایا ہے۔ پنجابی ثقافتی گائیکی کو نمایندگی دینے والا یہ ستارہ 1979 کی 3 جولائی کو معدوم ہو گیا۔

جبکہ ہم لوگ، جو اس پرانی نسل سے ہیں اور اب حالات زمانہ میں اپنی شناخت یا نا شناخت کے احساس سے بھی عاری ہیں، اور اپنی ثقافت کے نمائندہ پیشکاروں کو بھی، بھلا بیٹھے ہیں۔ اس جرم سے ہم نے، اپنی نئی نسل کو ( آئیڈنٹیٹی کرا یٔسز ) ’المیہ شناخت ذات‘ دیا ہے۔ ثقافتی شناخت کو نقصان پہنچایا ہے۔ نئی نسل کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ ماضی کی روایات میں جا کر پناہ لیں اور اپنی شناخت زمانہ ٔ ماضی میں تلاش کریں یا عصر حاضر کی تہذیب میں داخل ہو کر ’شودر‘ درجہ کی حیثیت میں اپنی پہچان بنایئں۔

ہم تو خود کو فکر معاش کا بہانہ بنا کر خود کو بری الزمہ کر لیتے ہیں لیکن یہ صرف فرار کا راستہ ہے، مسئلے کا حل نہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فوک گلوکاورں کی سر پرستی کی جائے اور اس کے لیے یہ وجہ کافی ہے کہ فوک گلوکار ہمارے ورثے، جو کہ ہماری شناخت ہے، اس کے وارث اور ہماری آنے والی نسلوں تک اس شناخت پہچانے کے امین ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments