میں طالبان بنتے بنتے رہ گیا۔ ۔ ۔


کوئی بائیس سال پہلے کی بات ہے (شکر ہے بائیس سالہ جدوجہد نہیں ) میں نے قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ ایک روز تایا جان لاہور سے واپس گھر آئے ہوئے تھے میں انہیں ملنے گیا اور یہ خوش خبری دی۔ تایا جان بہت خوش ہوئے، مجھے پانچ سو کا کڑکتا ہوا نوٹ دیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ اپنے والد صاحب کو بلا لاؤ۔ ابا جی آ گئے تو تایا جان نے ان سے استفسار کیا: ”جی تو کوکب صاحب اب بچے نے ماشا اللہ قرآن پاک حفظ کر لیا ہے تو اب آگے کا کیا سوچا؟“ ابا جی گلا صاف کرتے ہوئے گویا ہوئے، ”بچے کو افغانستان بھیجنے کا ارادہ ہے؟“

تایا جی ایک عرصے سے لاہور میں قیام پذیر تھے اور ہم سب کی تعلیم کے حوالے سے بہت سنجیدہ سوچ کے مالک تھے۔ ابا جی سے پوچھنے لگے، وہاں کوئی اسکول یا کالج ہے جہاں بھیجنا ہے؟ ابا جی نے مختصر جواب دیا، نہیں! تایا جان پھر گویا ہوئے، تو پھر کہاں بھیجنا ہے، کوئی مدرسہ یا کوئی اور تربیت گاہ؟ نہیں، مدرسہ تو نہیں ہے اور نہ ہی اسکول کالج، میں تو بچے کو جہاد کی تربیت کے لئے افغانستان بھیجنا چاہتا ہوں۔ ان دنوں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔

پاکستان میں ابھی دھماکوں کا کلچر تو عام نہیں ہوا تھا لیکن پشاور کا مشہور زمانہ کار بم دھماکہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئے کوئی تین سال گزر چکے تھے اور ہم مدرسے کے طالبعلم روز ہی ان کا کوئی نہ کوئی کارنامہ سنتے۔ ہمیں بتایا جاتا کہ وہاں شریعت کے مطابق پردے کا حکم دے دیا گیا ہے اور عورت کو محرم کے بغیر اور بنا شٹل کاک برقعے کے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ مردوں کو مساجد میں پابندی سے نماز پڑھوائی جاتی ہے۔ حجاموں نے داڑھیاں مونڈنے سے انکار کر دیا ہے اور جس کے داڑھی نہیں ہوتی اسے شریعت کے مطابق داڑھی آنے تک جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہم سبھی یہ سب سن کر بہت خوش ہوتے اور ہر نماز کے بعد دعا کرتے کہ کاش پاکستان میں بھی ایسی ہی شریعت نافذ ہو جائے۔

تمام طالب علم کوئی دس سے پندرہ سال کے عمروں کے درمیان میں رہے ہوں گے۔ ہمیں ہر ہفتے طالبان کی کامیابیوں کے بارے میں بتایا جاتا۔ ایک مولانا صاحب جو افغانستان سے لوٹے تھے اور جن کے پاس ڈبل کیبن ڈالہ بھی تھا، وہ ہمیں باقاعدگی سے ایک نشست میں ان سب کامیابیوں کے بارے میں بتاتے اور ہم سے عہد بھی لیا جاتا کہ اپنی زندگی جہاد اور اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کر دیں گے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ مولانا صاحب کی تقریر سے متاثر ہو کر میں نے اپنے گھر کے ٹی وی میں پر ایک سلاخ سے حملہ بھی کیا تھا لیکن وہ ناہنجار شہید ہونے سے محفوظ رہا۔ اگر مولانا صاحب موجود نہ ہوتے تو ہمارے قاری صاحب اس ٹیوٹوریل کا انعقاد کرتے۔ طالب علم تقاریر کرتے، کوئی نظم پڑھتا اور کوئی جنگی ترانہ۔ کوئی ٹی وی، ریڈیو پر لعنت بھیجتا یعنی الا بلا۔

ان دنوں کو یاد کر کے تایا جان اور ابا جی کا مکالمہ تو بیچ میں ہی رہ گیا۔ خیر، جب ابا جی نے یہ فرمایا کہ بچے کو جہاد کی تربیت دلانی ہے تو تایا جان اپنے مخصوص انداز میں ابا جی کو ’سمجھانے‘ لگے۔ ابا جی کی تمام دلیلیں ناکارہ ثابت ہوئیں اور چند منٹوں کے لیکچر کے بعد ابا جی نے اتفاق تو کر لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ یہ اسکول تو نہیں جائے گا، پڑھے گا تو مدرسے میں ورنہ نہیں۔

میں بہرحال جذبہ جہاد سے سرشار تھا، مجھے ابا اور تایا کی لڑائی کی سمجھ نہیں تھی کیونکہ ابدی زندگی لافانی تھی اور اس پر فتن دور میں اس زندگی کا اس سے بہتر مصرف نہیں ہو سکتا تھا کہ اسے جہاد کے بروئے کار لایا جائے۔ پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ جہادی تنظیموں کے کیمپ لگتے تھے۔ وہاں گرجدار آواز میں جہادی ترانے بجتے اور لٹریچر فروخت ہوتا اور ہم اپنا جیب خرچ جمع کر کے وہ چیزیں خریدتے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ منصوبے بناتے کہ اگر افغانستان نہیں بھی جاسکے تو پاکستان میں ہی کچھ ایسا کریں گے کہ یہ نادر لمحہ یہیں میسر آ جائے۔

دسمبر 1999 آ گیا تھا اور اسی مہینے نیپال سے بھارت آتے ہوئے ایک طیارہ بھی ہائی جیک ہوا۔ بھارت نے اغواکاروں کے دباؤ میں آکر چند قیدیوں کو چھوڑا جن میں ایک مشہور مولانا صاحب بھی شامل تھے۔ انہی مولانا کے ہاتھوں ہماری دستار بندی بھی ہوئی۔ خیر، بہت سے حقائق و واقعات تفصیل کے متقاضی نہیں ہیں لیکن وہ پہلی درسگاہ تھی (اور شاید آخری بھی) جہاں میں نے ایک بنیاد پرست جہادی بننے کی ذہنی تربیت پائی۔ یہیں بھاری آتشیں اسلحہ بھی دیکھا۔ شاید تایا جان وہ رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئے جنہوں نے میرے ابا جی کو اس کام سے باز رکھا ورنہ میں بھی آج کسی کا شہید اور کسی کا دہشتگرد بن کر تاریخ کی دھول میں غائب ہو چکا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments